مفاہمت پر مبنی سیاست کا ایجنڈا کیا ہو گا؟


پاکستان کے سیاسی، معاشی اور ریاستی بحران کے حل کی ایک بڑی سیاسی کنجی مفاہمت پر مبنی سیاست ہے۔ کیونکہ عمومی طور پر سیاسی استحکام ہی معاشی اور ریاستی سطح کے استحکام کو تقویت دیتا ہے۔ یہ تھیوری قابل عمل نہیں کہ ہم معاشی استحکام کی ترقی کو سیاسی عدم استحکام کی بنیاد پر دیکھیں یا اپنی ترجیحات میں سیاسی استحکام کو پیچھے چھوڑ دیں۔ سیاسی استحکام یا مفاہمت پر مبنی سیاست کا براہ راست مقابلہ ٹکراؤ اور محاذ آرائی پر مبنی طرز کی سیاست کا ہے۔

کیونکہ محاذ آرائی، الزام تراشیوں اور ٹکراؤ کی سیاست نے حکومت، اپوزیشن اور ریاستی اداروں کو ایک دوسرے کے ساتھ مقابلے یا مدمقابل کی صورت میں کھڑا کر دیا ہے۔ ایسے میں ملکی سیاست یا ریاست میں سیاسی اور معاشی استحکام کی جنگ بہت پیچھے رہ جاتی ہے اور اس کے مقابلے میں انتشار پر مبنی سیاست کا غلبہ ہوجاتا ہے۔ آج بھی ہماری ریاست، سیاست اور جمہوریت سمیت قانون کی حکمرانی کا نظام جس بند گلی میں ہے اس سے باہر نکلنے کا راستہ بھی مفاہمت کی سیاست سے جڑا ہوا ہے۔

اگرچہ پاکستان کی سیاست میں تمام طاقت ور فریقین یا فیصلہ ساز یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہمیں موجودہ حالات میں مفاہمت پر مبنی سیاست درکار ہے۔ منطق یہ دی جاتی ہے کہ جب تک تمام فریقین چاہے وہ سیاسی ہوں یا غیر سیاسی مل جل کر نہیں بیٹھیں گے نہ تو مفاہمت ممکن ہوگی اور نہ ہی سیاسی و معاشی استحکام پیدا ہو گا۔ اس وقت بھی پس پردہ یا طاقت ور فریقین کے درمیان کسی نہ کسی سطح پر مذاکرات یا بات چیت کا عمل چل رہا ہے۔ اس کا اعتراف اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے کئی سیاسی پنڈت بھی کر رہے ہیں۔

خود عمران خان نے بھی یہ اشارہ دیا ہے کہ فیصلہ ساز افراد یا اداروں کے ساتھ بات چیت کا عمل جاری ہے۔ اگر ان ملاقاتوں کا نتیجہ مثبت نکلا وہ یا دیگر فریقین اس کا ایجنڈا بھی لوگوں کے سامنے لائیں گے۔ اسی طرح حکمران جماعت میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو کبھی میثاق معیشت یا پہلے سے موجود میثاق جمہوریت کو کسی نئی شکل میں سامنے لانا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب فریقین کے بقول ہم سب مفاہمت کی سیاست چاہتے ہیں تو پھر اس میں رکاوٹ کیا ہے اور کیوں ہم مفاہمت کے لیے تیار نہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ اس وقت جو ہمارے سیاسی، حکومتی، معاشی اور ریاستی سطح کے حالات ہیں وہ کوئی بہت آسان نوعیت کے نہیں بلکہ یہ تمام مسائل کافی سنجیدہ بھی ہیں اور پیچیدہ بھی۔ اسی طرح یہ مسائل کسی بھی طور پر سیاسی تنہائی یا کسی ایک فریق کے کردار سے ختم نہیں ہوں گے ۔ ہم کو ہر صورت میں تمام فریقین کے درمیان ایک بڑا مکالمہ درکار ہے۔ یہ مکالمہ محض سیاسی فریقین تک ہی محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کے دائرہ کار میں دیگر فریقین کو بھی آنا ہو گا۔

کیونکہ مسائل ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراؤ کے بھی ہیں اور الجھاؤ کے بھی۔ جب سب فریقین بالخصوص سیاسی فریقین یہ گلہ کرتے ہیں کہ ہمارے کاموں میں دیگر فریقین کی جانب سے مداخلت ہوتی ہے تو پھر معاملات کا حل محض سیاسی قیادت تک ہی محدود نہیں ہو سکتا ۔ اس میں دیگر فریقین کو بھی شامل کرنا ہو گا تاکہ متفقہ یا مشاورت کی مدد سے ہم بطور ریاست آگے بڑھنے کے لیے کسی بڑے نتیجے پر پہنچ سکے۔ کیونکہ اس وقت ہماری سیاسی اور ریاستی ضرورت بھی ہے کہ ہم سیاست، جمہوریت اور معیشت یا ریاستی محاذ پر ہر صورت پہلے سے موجود بند دروازوں کو کھولیں اور مل کر آگے بڑھنے کا محفوظ راستہ تلاش کیا جا سکے۔

مفاہمت کی سیاست میں تین بڑے مسائل موجود ہیں۔ اول سیاست سمیت دیگر فریقین کے درمیان بداعتمادی کا ماحول اور ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کی بجائے الزامات اور دشنام تراشی کی سیاست۔ دوئم مفاہمت کی سیاست کا براہ راست تعلق ریاستی یا معاشرتی یا عوامی مفاد کے مقابلے میں ذاتیات پر مبنی مفادات کی سیاست ہے۔ ہمیں مفاہمت کے نام پر بنیادی طور پر خود کو، اپنی جماعت کو، خاندان کو یا دوستوں کو ہر سطح پر نوازنا ہوتا ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں ہماری قومی سیاست میں بھی ”مفاہمت کی سیاست“ کو سیاسی فریقین ایک بڑے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ سوئم ہماری مفاہمت کے پیچھے بڑا ایجنڈا قومی ترقی، سیاست اور جمہوریت سمیت معاشی یا انصاف کی بجائے ”اقتدار کی بند بانٹ کے کھیل میں طاقت کے مراکز کے ساتھ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر سیاسی لین دین ہوتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج تک کی قومی سیاست میں مفاہمت کی سیاست کا کارڈ ہمیں مطلوبہ سیاسی نتائج نہیں دے سکا جو قومی سطح پر ہمیں درکار تھے۔

ایک المیہ یہ ہے کہ ہم ہر سیاسی دور میں کسی ایک فریق، جماعت یا سیاسی شخصیت کو ٹارگٹ کر کے اسے مفاہمت کی سیاست میں بڑی رکاوٹ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ماضی کی سیاست سے لے کر آج کی سیاست تک یہ ہی سوچ اور فکر کو غلبہ ہے کہ ہم مفاہمت کی سیاست میں عملی طور پر تقسیم ہو گئے ہیں۔ ہماری مفاہمت محض اقتدار کی سیاست، سیاسی مخالفین کا خاتمہ، اسٹیبلیشمنٹ سے سیاسی جوڑ توڑ، خاندانوں کی بالادستی کی جنگ یا اداروں کو اپنے سیاسی مفادات کے حق میں استعمال کرنے تک محدود ہو گئی ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ اس ملک میں مفاہمت کی سیاسی ساکھ بھی قوم میں اپنا اعتماد بحال نہیں کر سکی ہے۔ یہ جو سیاسی فریقین یا اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان مختلف ادوار میں ہمیں سیاسی جوڑ توڑ، حکومتوں کو بنانا اور گرانا، سیاسی وفاداریوں کو تبدیل کرنا، اداروں کو جبر اور دھونس کی بنیاد پر اپنے حق میں استعمال کرنا جیسے مسائل ہیں اس کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ یہاں مفاہمت کی سیاست کا ایجنڈا ترجیحی بنیادوں پر قوم کے سامنے کھڑا ہے۔ ہم مفاہمت کی سیاست کے نام پر عملی طور پر سیاسی شخصیات کے گرد پھنس کر رہ گئے ہیں۔ ہماری توجہ کا مرکز مفاہمت کے نام پر اپنی اپنی سیاسی قیادت، شخصیت یا سیاسی جماعت کی ہر سطح پر بالادستی کو قبول کرنے سے جڑا ہوا ہے۔

یہ سوال لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہے کہ کیسے جو کچھ اس ملک میں کسی کی حمایت یا مخالفت میں ہو رہا ہے اس کے پیچھے اصل کردار کون ہیں کیونکہ جو کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ مختلف سیاسی لوگوں کی مدد سے ایک سیاسی تماشا کا دربار سجایا گیا ہے، وہ ناقابل یقین ہے۔ ہمارے سامنے تو مفاہمت کی سیاست کے سامنے چند بڑے چیلنجز نمایاں ہیں۔ ان میں وسائل کی صاف اور شفاف منصفانہ تقسیم، شہری اور دیہی تقسیم، ملک کی سطح پر انصاف کے نظام کو کیسے بنایا جائے، مہنگائی، بے روزگاری، اشیا خورد نوش کی قیمتوں میں اضافہ جیسے مسائل موجود ہیں۔

لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اس وقت ملک میں جو سیاست یا ریاستی نظام کو چلایا جا رہا ہے وہ عام آدمی کی توقعات کے برعکس ہیں۔ جمہوریت اور سیاسی نظام تو عملاً اصلاحات کی بنیاد پر کھڑا ہوتا ہے۔ اگر ہم نے اپنے نظام میں سے اصلاحاتی ایجنڈے کو ہی تقویت نہیں دینی اور اداروں کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق چلانا ہے تو پھر اداروں کی خود مختاری اور شفافیت کیسے ممکن ہو سکے گی۔ یہ جو کچھ ہم نے مفاہمت کی سیاست کے نام پر اپنی مرضی کی قانون سازی، نیب ترامیم، سمجھوتوں کی سیاست، کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر سیاسی مک مکا، حکومت اور حکومتی بڑی شخصیات کے مقابلے میں اداروں کو کمزور کرنا اور اپنی مرضی کے فیصلوں کو منوانے یا سیاسی مخالفین کو دیوار سے لگانے کی سیاست میں مفاہمتی سیاسی کارڈ سے اس ملک کی کوئی خدمت ہونے والی نہیں۔

پاکستان کو اس وقت جو چند بڑے چیلنجز ریاستی اور حکومتی سطح پر درپیش ہیں جن میں معیشت کی ترقی، سیاسی نظام کو جمہوری نظام میں لانا، قومی اداروں کی خود مختاری اور شفافیت، جوابدہی، نگرانی یا احتساب کا سخت نظام، وسائل کی تقسیم، معاشی خود مختاری، طبقاتی بنیادوں پر قائم انصاف کا دوہرا نظام، مضبوط گورننس یا حکمرانی کا نظام، عوامی مفادات پر مبنی سیاست، اداروں میں سیاسی مداخلت کا خاتمہ، پارلیمنٹ کا موثر کردار، قانون کی حکمرانی، سیکورٹی یا قومی سلامتی سمیت علاقائی سطح پر ہمسائے ممالک بشمول بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات، علاقائی امن و سلامتی، بڑی طاقتوں کے ساتھ توازن پر مبنی تعلقات، دنیا کو سیاسی اور معاشی بنیادوں پر اپنے ساتھ جوڑنا جیسے مسائل سر فہرست ہیں۔ لیکن عملاً یہ ہو رہا ہے کہ ہم ان تمام اہم مسائل کو پس پشت ڈال کر ایک دوسرے کو نیچے گرانے، کردار کشی یا طاقت کی حکمرانی کو بنیاد بنا کر اپنے اپنے کارڈ کھیل رہے ہیں جو معاملات کو سلجھانے کی بجائے اور زیادہ بگاڑنے کا سبب بن رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments