عمران خان: معیشت کے لئے آزار بننے کی بجائے، عوام کے سہولت کار بنیں


ملک میں قومی اسمبلی کے متعدد حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات کی وجہ سے سیاسی ہیجان میں اضافہ دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی عمران خان مسلسل یہ اعلان کر رہے ہیں کہ وہ جلد ہی اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے والے ہیں۔ ان کی باتوں پر یقین کیا جائے تو اس ایک کال کے بعد ملک کا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو جائے گا۔ عمران خان سمیت کسی کو بھی ایسی کسی ڈرامائی تبدیلی کی امید نہیں ہے، اسی لئے سیاسی ماحول کو آلودہ رکھنے کے لئے نت نئے ہتھکنڈے اختیار کیے جا رہے ہیں۔

واشنگٹن ائرپورٹ پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف ’چور چور‘ کے نعرے اور فیصل آباد کے ایک شہری کی طرف سے مریم نواز کو قتل کرنے کی دھمکی جیسے واقعات کو ان ہتھکنڈوں میں شامل کرنا چاہیے جن کی تحریک انصاف جان بوجھ کر حوصلہ افزائی کرتی ہے تاکہ سیاسی ماحول مسلسل کشیدہ رہے اور حکومت کی توجہ امور مملکت کی بجائے ہنگامے فرو کرنے اور اختلافی بیانات اور الزامات کا جواب دینے پر صرف ہوتی رہے۔ ملک کا کوئی ذی شعور شہری ایسی سیاست کی تائید نہیں کر سکتا۔ اس کے باوجود یہی اطوار اس وقت قومی منظر نامہ پر نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ اس لئے سمجھا جاسکتا ہے کہ سیاسی اور قومی امور کو اصولوں کی بنیاد پر دانشمندی سے حل کرنے کی بجائے، عوام کو نعروں، اندھی محبت و نفرت، دشنام طرازی اور یک طرفہ جھوٹے پروپیگنڈا کے ذریعے گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

تھوڑی دیر پہلے عمران خان نے کراچی میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے دو روز بعد ہونے والے ضمنی انتخاب کو ملک کی تقدیر کا ’ریفرنڈم‘ قرار دیا۔ یعنی قومی اسمبلی کے دس اور پنجاب اسمبلی کے دو حلقوں میں ہونے ان ضمنی انتخابات میں اگر تحریک انصاف کامیاب ہو گئی تو ملک کی ناؤ پار لگ جائے گی اور اگر تحریک انصاف کو خاطر خواہ کامیابی نصیب نہ ہو سکی تو پاکستانی عوام کو ’حقیقی آزادی‘ کے خلاف کسی نئی سازش کی کہانی سنا کر گمراہی کا ایک نیا سفر شروع کر دیا جائے گا۔ اتوار کو جن حلقوں پر ضمنی انتخابات ہونے والے ہیں، یہ تمام حلقے قومی اسمبلی سے تحریک انصاف کے اراکین کے استعفوں کی وجہ سے خالی ہوئے تھے۔ کیوں کہ عمران خان کا خیال تھا کہ موجودہ قومی اسمبلی، ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور ہونے کے بعد عوام کی نمائندہ نہیں رہی۔ ویسے تو یہ اپنی جگہ پر ایک دلچسپ اور ناقابل فہم دلیل ہے لیکن اس بحث کو فی الوقت فراموش کر کے عمران خان کے اس طرز عمل پر غور کیا جائے تو مناسب ہو گا کہ وہ اب خود خالی ہونے والی تمام نشستوں پر امید وار بنے ہوئے ہیں۔

ان نشستوں پر تحریک انصاف کی کامیابی کی صورت میں منتخب ہونے والے رکن کو اسی اسمبلی کا حلف اٹھانا پڑے گا اور کارروائی میں شریک ہونا پڑے گا جس سے پارٹی نے استعفے دینے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ وہ تو اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے ابھی تک تحریک انصاف کے تمام ارکان کے استعفے منظور کرنے سے اجتناب کیا ہے، بصورت دیگر ان تمام حلقوں پر ضمنی انتخاب منعقد ہوتا۔ تو کیا تحریک انصاف کی قومی سیاست کا اہم ترین نکتہ محض یہ سیاسی شعبدہ بازی ہے کہ استعفے دیے جائیں۔ پھر انتخاب لڑ کر کامیاب ہوا جائے اور مخالفین پر اپنی ’مقبولیت‘ کا دباؤ ڈال کر کوئی نہ کوئی سیاسی رعایت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔

اس سیاسی حکمت عملی میں عمران خان اس حد تک تو کامیاب ہیں کہ وہ مسلسل خبروں میں رہتے ہیں۔ اخبارات کی روزانہ شہ سرخیوں میں عمران خان سے متعلق دو تین خبریں لازمی شامل ہوتی ہیں۔ اسی طرح ملک کے سیاسی مباحث میں بھی یہی ایک نکتہ حاوی رہتا ہے کہ عمران خان کی حکمت عملی کیا ہے اور وہ اپنی پٹاری سے کون سا نیا سانپ نکالنے والے ہیں۔ یہ تو مانا جاسکتا ہے کہ خبروں میں رہنے سے عمران خان سیاسی طور سے بدستور حکومت کے لئے اہم ترین چیلنج بنے ہوئے ہیں لیکن یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ اس طرز سیاست سے عمران خان کے ووٹوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا یا سیاسی لحاظ سے انہیں زیادہ اہم سمجھا جانے لگے گا۔

کسی بھی پارلیمانی نظام میں کوئی سیاسی لیڈر یا پارٹی اسی صورت میں اپنی اہمیت منوا سکتی ہے اور اپنے منشور کے بعض نکات کو حکومتی فیصلوں میں شامل کروا سکتی ہے اگر وہ پارلیمنٹ میں مثبت کردار ادا کرنے پر تیار ہو۔ جو پارٹی اسمبلی سے استعفے دے کر ایک بار پھر اپنی ہی خالی کی ہوئی نشستوں پر محض اس لئے انتخاب لڑ رہی ہو تاکہ ایک بار پھر استعفی دینے کا ’موقع‘ مل سکے، اسے قومی سیاست میں کیوں کر اہم اور ذمہ دار سمجھا جاسکتا ہے۔ اس طرز عمل سے ایک ہی بات واضح ہوتی ہے کہ عمران خان تحریک انصاف کی اندرونی سیاست کے بعد اب قومی سیاست کو بھی اپنی ذات کا اسیر کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ ان کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ لیکن خود کو نعمت غیر مترقبہ ثابت کرنے کے لئے پارلیمانی کردار ادا کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔

اس تصویر کا یہ پہلو بھی کم افسوسناک اور تکلیف دہ نہیں ہے کہ خود کو قوم کا مسیحا قرار دینے والا ایک لیڈر اپنی پارٹی کو ایک ایسی حکمت عملی اختیار کرنے پر مجبور کر رہا ہے جس کی وجہ سے ضمنی انتخابات کی صورت میں قومی خزانے پر بھاری بوجھ پڑتا ہے۔ البتہ اس کی پرواہ کرنے اور کوئی متبادل اور معتدل طرز سیاست اختیار کرنے کی بجائے یہ جھوٹے سچے قیاسات عام کیے جاتے ہیں کہ حکومت میں شامل لیڈروں نے سازش کے تحت حکومت حاصل کر کے کتنے ارب روپے کی بچت کرلی۔ لیکن اس حقیقت پر غور نہیں کیا جاتا کہ اس منفی سیاست سے حفاظتی انتظامات اور ضمنی انتخابات کی صورت میں قومی خزانے کو کتنے ارب روپے کا اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑا ہے۔

اب عمران خان ضمنی انتخاب میں متعدد نشستوں پر خود امید وار بنے ہوئے ہیں۔ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ ضمنی انتخاب میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ کر تحریک انصاف قومی اسمبلی میں واپس جانے کا ارادہ رکھتی ہے تو بھی عمران خان تو صرف ایک ہی نشست سے نمائندگی کرسکیں گے۔ خالی ہونے والی نشستوں پر پھر سے انتخاب ہو گا۔ کیا قوم کے ہمدرد لیڈر کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ ملک کی بدحال معیشت کر مزید زیر بار کرنے کا موجب بنے۔ لیکن شخصی سیاسی سرخروئی کے لئے اس پہلو پر غور کرنے کی زحمت ہی نہیں کی جاتی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت قومی اسمبلی میں خصوصی قانون سازی کے ذریعے ایک سے زیادہ نشستوں پر انتخاب لڑنے کا شوق پورا کرنے والے لیڈر سے ان تمام حلقوں کے ضمنی انتخاب پر صرف ہونے والے اخراجات وصول کرے جو ایک یا دو سے زائد حلقوں میں امید وار بنتا ہے۔

پاکستان نہ تو کسی بڑی ہنگامہ آرائی کا متحمل ہو سکتا ہے اور نہ ہی عمران خان اپنے تمام تر دعوؤں کے باوجود ایسا کوئی عوامی طوفان برپا کر سکتے ہیں کہ ملک کا نظام تتر بتر ہو جائے۔ لیکن اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ بے یقینی کی کیفیت پیدا کر کے عمران خان ملکی معیشت کے لئے ’حقیقی آزار‘ کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ وہ خود کہتے ہیں کہ انتخابات ضروری ہیں تاکہ ایک مستحکم حکومت قائم ہو سکے۔ لیکن انہیں علم ہونا چاہیے کہ ملک میں صرف اس وقت کوئی مستحکم اور فعال حکومت قائم ہو سکے گی جب اپوزیشن ہمہ وقت احتجاج کا طریقہ ترک کر کے ملکی سیاست میں ہیجان اور بے چینی کم کرنے میں کردار ادا کرے گی۔ اگر نئے انتخابات کے بعد بھی عمران خان کو دو تہائی اکثریت نہ مل سکی یا انہیں پہلے کی طرح ویسی ہی کمزور حکومت بنانا پڑی جسے ہر قانون کی منظوری کے وقت اسمبلی میں نمبر پورے کرنے کے لئے ’اسٹبلشمنٹ‘ کے تعاون کی ضرورت ہوئی تو کیا ایسی حکومت کی اپوزیشن اسے اطمینان سے حکمرانی کرنے دے گی؟

اور اگر تحریک انصاف انتخابات کے نتیجہ میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہ آئی تو کیا وہ خود نچلا بیٹھ جائے گی اور انتخابی نتائج کو قبول کر لے گی؟ ہرگز نہیں۔ عمران خان روزانہ کی بنیاد پر اعلان کرتے ہیں کہ انہیں کوئی ایسا نتیجہ منظور نہیں ہو گا جس میں وہ سرخرو نہ ہوں۔ عمران خان ایک ایسے ’امتحان‘ میں بیٹھنا چاہتے ہیں جس کے سوالات اور جوابات پہلے ہی عمران خان کے کان میں بتا دیے جائیں۔ کیا کسی ایسے انتخاب کو کوئی جمہوری کہے گا جس میں کامیاب ہونے والی پارٹی کا پہلے سے تعین کر لیا جائے۔ 2018 میں ایسا تجربہ کیا جا چکا ہے۔ تحریک انصاف کو قبل از وقت مستقبل کی حکمران جماعت کا اسٹیٹس دیا گیا، مخالف جماعتوں کو ناکام بنانے کے ہتھکنڈے بروئے کار لائے گئے اور اہم ترین مخالفین کو نشان عبرت بنانے کے لئے ملکی عدالتی نظام کو بے دردی سے استعمال کیا گیا۔ اس کا کیا نتیجہ برآمد ہوا؟

کیا عمران خان اپنی حکومت کا ایک کارنامہ بتا سکتے ہیں یا کسی ایسے منصوبہ کی نشاندہی کر سکتے ہیں جسے تحریک انصاف کی کارکردگی کہا جائے۔ درحقیقت عمران خان کی حکومت ناکامیوں اور مایوسیوں کی طویل کہانی ہے۔ اب موجودہ حکومت کی ناکامیوں کا حوالہ دے کر یہ تاثر قوی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کیسے تحریک انصاف کی حکومت بہتر تھی۔ عمران خان کو علم ہونا چاہیے کہ تحریک انصاف کی حکومت قائم رہتی تو ملکی معاشی، انتظامی اور سفارتی حالات شاید اس حد تک خراب ہوتے کہ فوج کو براہ راست مداخلت پر مجبور ہونا پڑتا۔

عمران خان ضرور انتخاب کی تیاری کریں لیکن اس کے لئے بازی گر کی طرح قوم کا تماشا بنانے کا طریقہ ختم ہونا چاہیے۔ آئینی طور سے بھی نئے انتخابات اب آٹھ دس ماہ کی دوری پر ہیں۔ محض اس عذر پر اسلام آباد پر دھاوا بولنے اور عالمی اداروں و سرمایہ داروں کو سراسیمہ کرنے کا طریقہ ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ ان ہتھکنڈوں سے شہباز حکومت کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا لیکن پاکستان کے مسائل میں ضرور اضافہ ہو رہا ہے۔ عمران خان کو لانگ مارچ کا راگ الاپنے اور اپنے جاں نثاروں کو سیاسی مخالفین کے خلاف نعرے لگانے کی تیاری کروانے کی بجائے تحریک انصاف کی معاشی حکمت عملی کا اعلان کرنا چاہیے۔

پہلے بھی عمران خان کسی تیاری کے بغیر نعرے لگاتے ہوئے اقتدار میں آئے تھے۔ نتیجہ ان کے سامنے ہے۔ اب بھی کسی ٹھوس سیاسی و معاشی منشور کے بغیر اول تو ووٹروں کو بے وقوف بنانا مشکل ہو گا، اگر بالفرض وہ اس مقصد میں کامیاب ہو بھی جائیں تو بھی اقتدار میں نئی ناکامیاں اور پریشانیاں ان کی منتظر ہوں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments