چوری اور سینہ زوری


ایک محفل میں نوجوان نے مایوس بھرے انداز میں شکوہ کیا کہ فلاں فلاں میرے پیچھے باتیں کرتے رہتے ہیں حالانکہ میرا قصور بالکل بھی نہیں ہے اور اللہ حاضر ہے کہ وہ سراسر زیادتی کرتے چلے آرہے ہیں۔ نمناک آنکھوں کے ساتھ کہا کہ الٹا مجھ پہ جھوٹ باندھ لینے سے بھی نہیں کتراتے۔

ایک دوسرے بھائی نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ یہ صرف آپ کا معاملہ نہیں بالکل اسی طرح کے صورت حال سے مجھے بھی سامنا رہا ہے کہ کاروباری معاملات میں اعتماد کر کے کسی تحریری معاہدے کی بجائے زبانی باتوں پر اکتفا کیا تھا اور بعد میں طے شدہ اور ثابت شدہ امور پر اسے قائل کرانے میں کامیابی نہیں ملی کہ میرے پاس نہ کوئی تحریر تھی نہ آڈیو، ویڈیو ثبوت جبکہ جرگہ والے زبانی بیان کو مانتے ہی نہیں تھے اور وہ لوگ الٹا مجھ پہ جھوٹ تھوپ رہے تھے۔

ایک اور بھائی نے غصے بھرے تیز دار لہجے میں کہا کہ تحریر کیا اور وعدہ کیا؟ ایک دو بندوں کے ساتھ باقاعدہ ایک نہیں دو تین مرتبہ تحریری معاہدہ کیا باقاعدہ جرگہ کر کے لیکن وہ اسے بھی نبھا نہ سکے اور الٹا مجھے ملامت کرانے پہ تلے رہے۔

ایک بزرگ محترم نے فرمایا کہ۔

اخلاقی گراوٹ کے مظاہر میں سے برے خصائل جھوٹ، وعدہ خلافی، بدگمانی، الزامات اور غیبت ہیں۔ ان میں سے اکثریت کی بنیاد تعصب، بغض، حسد اور خود غرضی ہے۔

انھوں نے فرمایا،

کوئی بھی معاملہ ہے، تحریری معاہدہ اور وہ بھی بالکل واضح، متعین اور تفصیلی ہو کہ کوئی ابہام باقی نہ رہے اور گواہان بھی ایسے جو متعلقہ شعبے سے تعلق رکھتے ہوں تاکہ بوقت ضرورت وہ درست تشریح اور وضاحت کر سکیں اور آپ کی جگہ وہ مدعی کی طرح کیس پیش کر سکیں۔

دوسری اہم بات عمومی یہ ہے کہ ایک حد سے زیادہ حساسیت بھی ٹھیک نہیں اور بہت زیادہ وضاحتیں اور صفائیاں پیش کرنا بھی باعث اذیت ہوتا ہے اس لئے بہت ساری باتوں کو نہ دل پہ لینا چاہیے اور نہ زیادہ اہمیت دینا لازمی ہے کیونکہ مذکورہ خصائل عام بیماری ہے اور پورا معاشرہ اس کی لپیٹ میں ہے۔ آخر کس کس کا کس کس بات کا جواب دیا جائے گا اور کس کس بات کی کس کس کو صفائیاں پیش کی جائے گی۔

اکثریت معاملات میں لوگ جھوٹ بولتے ہیں، الزامات لگا دیا کرتے ہیں اور یا سنی سنائی باتوں کو بلا تحقیق آگے پھیلاتے ہیں۔

ایک نوجوان نے پوچھا کہ کہ بندہ بے قصور بھی ہے اور الٹا ان کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے تو آخر وہ کرے کیا؟

محترم نے پر اعتماد لہجے میں فرمایا کہ اپنے معاملات صاف رکھا کرے اور باقی باتیں اللہ پہ چھوڑ دے۔

لوگ نہ معاف کرتے ہیں اور نہ بری عادات سے باز آتے ہیں اور نہ کوئی معصوم انسان اپنی صفائی پیش کر کے اپنے آپ کو بری کرا سکتا ہے۔ اللہ کے نبی صلی علیہ و سلم کا مقدمہ اللہ تعالیٰ نے خود لڑا

اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی صفائی خود اللہ تعالیٰ نے قرآن میں پیش فرمائی۔

لوگ مناظرہ ہی کیا مباہلہ کے لئے بلائیں تو بھی بے دھڑک تیار بیٹھے ہوتے ہیں کہ خود غرضی، انانیت اور خود سری میں لوگ اندھے ہو جایا کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ بہترین منصف اور سزا دینے والا ہے۔
دنیا نہیں آخرت کے لیے معاملات چھوڑ دیا کریں بعید نہیں کہ دنیا میں بھی رسوائی مقدر بنے۔
غصیلے نوجوان نے آہ بھرتے ہوئے کہا، کہ ایسا کب ہو گا۔

محترم نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا، اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ اللہ تعالیٰ بہترین انتقام لینے والا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments