پاکستانی سیاست کا ایک اور سیاہ دن


الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو اثاثے ڈکلیئر نہ کرنے کے جرم میں قومی اسمبلی کی نشست سے نا اہل قرار دیا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ یہ نا اہلی صرف موجودہ اسمبلی کی مدت کے لئے ہے یا اس کا اطلاق پانچ برس کے لئے ہو گا اور عمران خان آئندہ مدت کے لئے ہونے والے انتخابات میں بھی حصہ نہیں لے سکیں گے۔

عمران خان سمیت تحریک انصاف کے لیڈروں نے عوام سے اس فیصلہ کے خلاف احتجاج کرنے کی اپیل کی ہے۔ اس کے علاوہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں الیکشن کمیشن کے فیصلہ کو چیلنج کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ تاوقت تحریر الیکشن کمیشن نے تفصیلی فیصلہ جاری نہیں کیا لیکن مختصر فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ ’عمران خان کرپٹ پریکٹس کے مرتکب ہوئے ہیں، اس لیے انہیں آئین کے آرٹیکل 63 پی کے تحت نا اہل قرار دیا جاتا ہے‘ ۔ بظاہر یہ کوئی پیچیدہ معاملہ نہیں ہے۔ عمران خان پر غیر ملکی لیڈروں سے ملنے والے تحائف توشہ خانہ سے خریدنے اور مارکیٹ میں فروخت کرنے کا الزام ہے جس سے انہوں نے انکار بھی نہیں کیا۔ ان کا موقف رہا کہ ’انہوں نے قانونی طریقے سے توشہ خانہ سے تحفے خریدے تھے۔ اس لئے انہیں اپنے پاس رکھنا یا فروخت کرنا، ان کی اپنی مرضی پر منحصر ہے‘ ۔ اس طرح یہ طے کرنا ایک سیاسی معاملہ ہے کہ کوئی وزیر اعظم غیر ملکی مہمانوں سے ملنے والے تحائف خریدنے اور فروخت کرنے میں کس حد تک حق بجانب ہے۔

اس معاملہ میں یہ حقیقت بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ حکومت نے توشہ خانہ کیس میں براہ راست کوئی شکایت نہیں کی اور نہ ہی کسی بے قاعدگی پر کوئی کارروائی رپورٹ ہوئی ہے۔ البتہ اگست کے دوران پی ڈی ایم سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے 6 ارکان نے الیکشن کمیشن کو ایک درخواست میں عمران خان کی بے قاعدگی کی نشاندہی کرتے ہوئے شکایت کی تھی کہ سابق وزیر اعظم نے غیر ملکی سربراہان سے ملنے والے تحائف توشہ خانہ سے خرید کر جو منافع کمایا ہے، اسے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا گیا۔ الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے جواب میں عمران خان نے اس بات کو تسلیم کیا کہ انہوں نے یہ اثاثے اپنے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیے تاہم ان کے وکیل علی ظفر نے اس معاملہ میں الیکشن کمیشن کے اختیار کو چیلنج کرتے ہوئے کہا تھا کہ کمیشن کوئی عدالت نہیں ہے۔ اسے کسی جرم کا تعین کرنے اور سزا دینے کا حق حاصل نہیں ہے۔ تاہم اس سے پہلے الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف ہی کے رکن اسمبلی فیصل واوڈا کو غلط بیان حلفی جمع کروانے پر نا اہل قرار دیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ برقرار رکھا تھا۔ اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ اسی اپیل کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آئین کی شقات 62 اور 63 کے بارے میں سوال اٹھایا تھا اور کہا تھا کہ کسی شخص کو کیوں کر تاحیات نا اہل قرار دیا جاسکتا ہے۔ البتہ عمران خان کے معاملہ میں پابندی کی مدت کا تعین نہیں ہے۔ تاہم یہ پانچ سال سے زیادہ کا عرصہ نہیں ہو سکتا۔

توشہ خانہ میں وصول ہونے والے تحائف کی معلومات حاصل کرنے کے لئے ایک صحافی رانا ابرار خالد نے گزشتہ سال کیبنٹ ڈویژن سے رابطہ کیا تھا لیکن انہیں یہ معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔ جس کے بعد پاکستان انفارمیشن کمیشن نے کیبنٹ ڈویژن کو یہ معلومات فراہم کرنے کا حکم دیا لیکن حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کردی اور موقف اختیار کیا کہ ان معلومات سے دوسرے ملکوں کے ساتھ سفارتی تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔ البتہ اپریل میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیبنٹ ڈویژن کو توشہ خانہ کے بارے میں سب سوالوں کا جواب دینے کا حکم دیا۔ اس دوران تحریک انصاف کی حکومت ختم ہو گئی اور وہ ساری معلومات سامنے آ گئیں جو رانا ابرار خالد حاصل کرنا چاہتے تھے۔ بعد میں الیکشن کمیشن کو جواب دیتے ہوئے عمران خان نے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں 58 تحائف وصول کرنے کا اعتراف کیا۔

اس حد تک یہ ایک سادہ اور روٹین کا معاملہ ہے کہ رکن قومی اسمبلی کے طور پر عمران خان نے تحائف کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی کو گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا اور الیکشن کمیشن نے آئینی شق 63 پی کے تحت انہیں نا اہل قرار دیا اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا حکم دیا ہے۔ البتہ پاکستانی سیاست کے تناظر میں یہ معاملہ سادہ نہیں ہے اور نہ ہی اسے کسی قانون شکنی کے تناظر میں دیکھا جائے گا۔ یوں تو عمران خان سب کے لئے قانون کی مساوی حکمرانی کے جس اصول کا پرچار کرتے ہیں، اسے تسلیم کرتے ہوئے انہیں الیکشن کمیشن کے فیصلہ پر احتجاج کی اپیل کرنے اور الیکشن کمیشن پر الزامات کا طومار باندھنے کی بجائے، مان لینا چاہیے کہ پاکستانی قانون کسی لغزش پر یہی سزا تجویز کرتا ہے اور وہ اسے خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہیں۔ تاہم پاکستانی سیاست میں اداروں کی مداخلت اور بالادستی کی تاریخ کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ معاملہ قانون کی بالادستی سے زیادہ سیاسی انجینئرنگ کا پہلو لئے ہوئے ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف اسی بنیاد پر الیکشن کمیشن کی نیک نیتی پر شبہ کا اظہار کرتے رہے ہیں کیوں کہ انہیں یقین تھا کہ عمران خان کو نا اہل کرنے کے لئے الیکشن کمیشن کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔

پاکستان میں عدالتوں اور دیگر اداروں کے ذریعے سیاسی لیڈروں کو سیاست سے باہر کرنے کی تاریخ بہت تاریک ہے۔ لیکن بدقسمتی سے سیاست دانوں نے کبھی ان عوامل پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جن کی وجہ سے غیر منتخب ادارے اور عناصر اتنے طاقت ور ہو گئے ہیں کہ ملکی سیاست میں ان کی مرضی کو فیصلہ کن سمجھا جاتا ہے۔ پاک فوج کے سربراہ بار بار اعلان کر رہے ہیں کہ فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی لیکن دیکھا جائے تو عمران خان نے گزشتہ 6 ماہ کے دوران فوج کو رجھانے ہی کے لئے مہم جوئی کی ہے۔ گزشتہ دو روز کے دوران میں انہوں نے خود اور فواد چوہدری نے عسکری لیڈروں سے خفیہ ملاقاتوں کی تصدیق کی تھی۔ فواد چوہدری نے تو یہ بھی بتایا تھا کہ صدر صاحب کے ذریعے معاملات طے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

عمران خان کا یہ شکوہ تو بجا ہے کہ ان کی حکومت کو محض اس لئے عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ عسکری اداروں نے تحریک انصاف کی حکومت قائم رکھنے کے لئے چھتر چھایا فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کی یہ شکایت بھی قابل فہم ہے کہ شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان جمہوری تحریک اور پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بھی درپردہ قوتوں کی حمایت یا غیر جانبداری ہی کی وجہ سے قائم ہو سکی تھی۔ لیکن اس کے باوجود وہ سیاست میں عسکری اداروں کی مداخلت ختم کرنے کی بات نہیں کرتے بلکہ فوج کو خوشامد یا دباؤ کے ذریعے اس بات پر قائل کرنا چاہتے ہیں کہ وہ موجودہ حکومت کو نئے انتخابات پر مجبور کرے اور آئندہ انتخابات میں ایک بار پھر عمران خان کو اکثریت حاصل کر کے حکومت قائم کرنے کی سہولت فراہم کی جائے۔ عمران خان بدستور یہ سمجھنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں کہ فوج نے جب تحریک انصاف کی حکومت کے ون پیج سے علیحدہ رہنے کا فیصلہ کیا تھا تو اس کی کچھ وجوہات ہوں گی۔ ان وجوہات سے پیدا ہونے والی بداعتمادی کو نہ تو دھمکیوں اور عوامی دباؤ سے دور کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس طریقہ سے ملک میں جمہوری روایت و نظام کو مستحکم کیا جاسکتا ہے۔

تحریک انصاف اور عمران خان کو موجودہ صورت حال میں سیاسی قوتوں کے درمیان یک جہتی کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت تھی۔ انہیں جاننا چاہیے تھا کہ جسے وہ سیاست دانوں کی کرپشن اور چوری کے خلاف جد و جہد کہتے رہے ہیں، درحقیقت وہ سیاسی قیادت کو کمزور کرنے، جمہوری اداروں کے اختیارات کو محدود رکھنے اور ہر منتخب حکومت کو کسی نہ کسی طرح ایک خاص طرح کے دباؤ میں لانے کا طریقہ ہے۔ عمران خان اس وقت بھی اداروں کے تعاون سے موجودہ حکومت کو ناکام بنانے اور دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کا خواب دیکھتے رہے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے نئے آرمی چیف کی تقرری کو متنازعہ بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے۔ حالانکہ اس معاملہ میں انہیں سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرنے، دیگر سیاسی عناصر سے معاملات طے کر کے ملکی سیاست میں انتشار، بحران اور تصادم کی بجائے، ہم آہنگی، یک جہتی اور باہمی احترام کی فضا کو فروغ دینے کے لئے کام کرنا چاہیے تھا۔

بجا طور سے ملک میں ہر سیاسی قوت پر یہ الزام، عائد ہوتا ہے کہ اسے ایک خاص ماحول میں ملک کے عسکری اداروں نے لانچ کیا۔ تاہم مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر میثاق جمہوریت تک پہنچنے میں کامیاب ہوئیں۔ اس میثاق کو بھی اسی وقت دھچکا لگا جب ان دونوں پارٹیوں نے مل کر جمہوری و آئینی اصولوں کے مطابق کام کرنے کی بجائے اپنے اپنے طور پر عسکری قیادت سے ساز باز کے ذریعے اقتدار تک پہنچنے کی کوشش کی۔ عمران خان کے خلاف محاذ آرائی میں ان دونوں پارٹیوں نے مشترکہ منصوبے پر عمل کیا اور عسکری قیادت کی خوشنودی حاصل کرلی۔ عمران خان کو اسے اپنے خلاف سازش سے زیادہ ملکی جمہوری عمل کے لئے خطرہ کے طور پر دیکھنا چاہیے تھا۔ اگر وہ اس سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے تو تحریک انصاف قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کرنے کی بجائے اسمبلی میں اپنی سیاسی قوت کی بنیاد پر جمہوری بالادستی، قانونی عملداری اور عوامی مسائل کے حل کے لئے وسیع تر سیاسی اشتراک کی کوشش کرتی۔ عمران خان سیاست دانوں کو چور اچکے قرار دے کر خود اپنے راستے میں کانٹے نہ بچھاتے اور نہ ہی ملک میں جمہوری امکانات کو محدود کرتے۔

عمران خان کی نا اہلی کا فیصلہ قانونی طور سے درست ہونے کے باوجود ملکی سیاست کے لئے ایک نامناسب فیصلہ ہے۔ اس فیصلہ کو بھی نواز شریف کو تاحیات نا اہل قرار دینے کے فیصلہ کی طرح مسترد کرنے کی ضرورت ہے۔ ملکی پارلیمنٹ کو آئینی شقات 62 اور 63 پر نظر ثانی کرتے ہوئے ان میں سے وہ تمام غیرمناسب ترامیم نکالنی چاہئیں جو ایک آمر نے ملکی اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لئے آئین میں شامل کی تھیں۔ اس مقصد کے لئے تحریک انصاف کو احتجاج کرنے اور موجودہ حکومت کو دشمن کہنے کی بجائے تمام سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر پارلیمنٹ کے فورم سے عملی اقدامات کے لئے میدان ہموار کرنا چاہیے۔ اب بھی اگر تحریک انصاف نے ملکی سیاسی عمل میں غیر جمہوری اداروں کی بالادستی کے خطرے سے نمٹنے کے لئے وسیع تر سیاسی ہم آہنگی کے لئے کام کرنے کا عزم نہ کیا تو ملکی سیاست پر چھائی ہوئی تاریک شب کی صبح طلوع نہیں ہو سکے گی۔

تحریک انصاف کے لیڈر فواد چوہدری نے عمران خان کی نا اہلی پر فوری رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’الیکشن کمیشن کا فیصلہ بائیس کروڑ لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہے‘ ۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ یہ اور اس قسم کے سارے فیصلے عوام نہیں بلکہ ملکی سیاست دانوں کے منہ پر طمانچہ ہیں۔ سیاست دان جب تک اس سچائی کا سامنا نہیں کریں گے، نہ تو عوام کی درست رہنمائی ہو سکی گی اور نہ ہی ملک میں طاقت ور سول حکومت کا خواب پورا ہو سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments