کیپٹن کرنل شیر خان کے مزار سے نشان حیدر کے ماڈلز سمیت دیگر اشیا چرانے والے گرفتار


صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی کے علاقے چھوٹا لاہور میں پاکستان کے کارگل جنگ کے ہیرو اور نشان حیدر پانے والے کیپٹن کرنل شیر خان کے مزار سے نشان حیدر کی ماڈل سمیت دیگر اشیا چرانے والے مبینہ طور پر نشے کے عادی افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

کیپیٹن کرنل شیر خان کے بھتیجے نعمان شیر نے بتایا کہ اشیا چرانے والے نشے کے عادی تھے۔ ان کی شناخت سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے کی گئی ہے۔ پولیس کے مطابق یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ ان لوگوں نے کیپٹن کرنل شیر خان کے مزار سے اشیا چرائی ہیں۔ اس سے پہلے بھی وہ وارداتیں کرتے رہے تھے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے ہماری ذاتی چیزیں چرائی جاتی تھیں جس پر ہم نے زیادہ توجہ نہیں دی مگر جب کیپٹن کرنل شیر خان سے منسوب اشیا چرائی گئی تو میں نے فیصلہ کیا کہ یہ ناقابل معافی ہے۔ جس پر میں نے سی سی ٹی وے کیمرں کی فوٹیج کی مدد سے ملزماں کی شناخت کرکے مقدمہ درج کروایا ہے۔

کیپٹن کرنل شیر خان کے مزار سے کیا چرایا گیا؟

ضلع صوابی کے علاقے چھوٹا لاہور کے تھانہ میں درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ کیپٹین کرنل شیر خان کے مزار سے گیٹ پر نصب نشان حیدر کے تین میڈلز سمیت، موٹر سائیکل، چار عدد مارخور کے بیچز، ایک عدد یو پی ایس، جھنڈوں کے سٹیل کے پول، ایک عدد پنکھا، واٹر فلٹر کا پلانٹ اور دیگر اشیا چرائی گئی تھیں۔

درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ ملزماں کو تلاش کے بعد شناخت کر لیا گیا ہے۔

مقامی تھانے کے ڈیوٹی افسر نے بتایا ہے کہ ملزماں سے تفتیش جاری ہے۔ پولیس تمام چوری کیا گیا سامان برآمد کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ممکنہ طور پر ان افراد نے یہ سامان فروخت کر دیا تھا۔ جن کو یہ سامان فروخت کیا گیا اُن کو بھی تلاش کر کے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

نعمان شیر کہتے ہیں کہ کیپٹن شیر خان کو ملنے والا اصل نشان حیدر محفوظ ہے جو گھر میں موجود ہے۔ نشان حیدر ہمیں مزار پر لگانے کے لیے فوج کی یونٹ بارہ این ایل آئی نے تیار کر کے دیا تھا، جو سائز میں اصل نشان حیدر سے بڑے تھے۔

نعمان شیر کہتے ہیں منشیات کے عادی افراد اس نوعیت کی کاروائیاں کرتے ہیں۔ عموماً اس وقت یہ کاروائیاں اس وقت ہوتی تھیں جب ہم لوگ کہیں پر مصروف ہوتے تھے۔ حالیہ چوری بھی 16 اور 17 تاریخ کو ہوئی تھی جب ہم لوگ 19ویں لانگ کورس کی ری یونین تقریب کے لیے مری گئے ہوئے تھے۔

نعمان شیر کا کہنا تھا کہ اس موقع پر یہ چوری کی گئی تھی۔ اس سے پہلے ایک چوری چودہ اگست کو ہوئی تھی جب ہم مہمانوں کے ساتھ مصروف تھے۔ حالیہ واردات میں تو ان لوگوں نے گیٹ پر لگے بارہ این ایل آئی کے نشان حیدر کے تیار کردہ انتہائی قیمتی اور مہنگے ماڈل چرائے ہیں جو ہمیں اعزازی طور پر دیے گئے تھے۔

انھوں نے کہا کہ کیپٹن کرنل شیر خان صوبہ خیبر پختونخوا کے واحد افسر ہیں جنھیں نشان حیدر سے نوازا گیا۔ ہم تو اس مزار کا خیال رکھ ہی رہے ہیں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اس مزار کی حفاظت کے انتظامات کرئے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستانی فوجی جس کی بہادری کا دشمن بھی قائل ہوا

نشان حیدر: پاکستان کے سب سے بڑے فوجی اعزاز سے متعلق اہم سوالوں کے جواب

کارگل جنگ کے ’لاپتہ‘ پاکستانی فوجی جو برفانی بلندیوں میں کھو گئے

میجر عزیز بھٹی کا کردار نبھانے کے لیے ’برسوں انتظار کیا‘

کیپٹن کرنل شیر خان کون تھے؟

کیپٹن کرنل شیر خان پاکستان کے موجودہ صوبے خیبرپختونخوا کے گاؤں نواکلی میں پیدا ہوئے تھے۔

ان کے دادا نے کشمیر میں سنہ 1948 کی مہم میں حصہ لیا تھا۔ انھیں یونيفارم میں ملبوس فوجی اچھے لگتے تھے چنانچہ ان کے یہاں جب پوتا پیدا ہوا تو انھوں نے کرنل کا لفظ ان کے نام کا حصہ بنا دیا۔

تاہم اس وقت انھیں اندازہ نہیں تھا کہ اس نام کی وجہ سے ان کے پوتے کی زندگی میں مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔کارگل پر لکھی گئی کتاب ‘وٹنس ٹو بلنڈر-کارگل سٹوری انفولڈز’ کے مصنف اشفاق حسین بتاتے ہیں کہ ‘کرنل’ لفظ شیر خان کے نام کا حصہ تھا اور ‘وہ اسے بہت فخر سے استعمال کرتے تھے۔ کئی بار اس سے کافی مشکلیں پیدا ہو جاتی تھیں۔

‘جب وہ فون اٹھا کر کہتے تھے ‘لیفٹیننٹ کرنل شیر سپیکنگ’ تو فون کرنے والا سمجھتا تھا کہ وہ کمانڈنگ افسر سے بات کر رہا ہے اور وہ انھیں ‘سر’ کہنا شروع کر دیتا تھا۔ تب شیر مسکرا کر کہتے تھے کہ وہ لیفٹیننٹ شیر ہیں۔ میں ابھی آپ کی بات کمانڈنگ افسر کے ساتھ کرواتا ہوں۔’

کرنل شیر نے اکتوبر سنہ 1992 میں پاکستانی فوجی اکیڈمی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ جب وہ وہاں پہنچے تو انھوں نے داڑھی رکھی ہوئی تھی۔ انھیں داڑھی صاف کرنے کو کہا گیا تھا تو انھوں نے انکار کر دیا۔

ان کے آخری سیشن میں ان سے دوبارہ کہا گیا کہ آپ کی کارکردگی اچھی رہی ہے اگر آپ داڑھی صاف کر دیتے ہیں تو آپ کو اچھی پوسٹنگ مل سکتی ہے۔

لیکن انھوں نے دوبارہ انکار کر دیا۔ اس کے باوجود انھیں بٹالین کوراٹر ماسٹر کی پوزیشن دی گئی۔

پاکستانی فوجی اکیڈمی میں ان کے ایک سال جونيئر کیپٹن علی الحسین بتاتے ہیں: ‘ان کی انگلش بہت اچھی تھی وہ دوسرے افسروں کے ساتھ ‘سکریبل’ کھیلا کرتے تھے اور اکثر جیتتے تھے۔ جوانوں کے ساتھ بھی وہ آسانی سے گھل مل جاتے تھے اور ان کے ساتھ لڈو کھیلتے تھے۔’

سنہ 1999 کی کارگل جنگ میں انھیں بہادری سے لڑنے پر نشان حیدر دیا گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32557 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments