مشاورت اور اجتماعی تعاون کی شاندار روایات


جماعت اسلامی کو سیاست میں حصہ لینے سے قابل ذکر انتخابی کامیابیاں تو حاصل نہیں ہوئیں، لیکن اس کے سیاسی وزن میں    معتد بہ اضافہ ہوا اور اس کی اعتدال پسندی اور قانون کے ساتھ وابستگی نے مکالمے اور مفاہمت کی ثقافت کو فروغ دیا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے جماعت اسلامی کی غرض و غایت کے بارے میں فرمایا ”خدا کی قسم ہے، اور میں قسم بہت کم کھاتا ہوں کہ جماعت نے جو مسلک اختیار کیا ہے، وہ کسی قسم کے تشدد کے ذریعے سے یا کسی قسم کی دہشت پسندانہ تحریک کے ذریعے سے یا کسی قسم کی خفیہ تحریک کی مدد سے یا کسی قسم کی سازشوں کے ذریعے سے انقلاب برپا نہیں کرنا چاہتی۔“

سید ابوالاعلیٰ مودودی عمر بھر اسی فلسفۂ حیات پر قائم رہے اور پاکستان کو مختلف نوعیت کی شورشوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنا وقت، اپنی توانائیاں اور اپنی صلاحیتیں بروئے کار لاتے رہے۔ انہوں نے یہ اعلیٰ مثال بھی قائم کی کہ بڑے مقصد کے لیے مختلف نظریات کی حامل جماعتوں اور تنظیموں کے ساتھ عملی تعاون بھی کیا جا سکتا ہے۔ حکومت پنجاب نے 1948 ء سیفٹی ایکٹ نافذ کیا جو آغاز سفر ہی میں انسانی بنیادی حقوق کے لیے ایک بڑے خطرے کی علامت تھا۔

اس کے تحت مختلف سیاسی راہنما گرفتار کیے گئے جس میں حکومت کو ہر چھ ماہ بعد نظربندی میں توسیع کا اختیار حاصل تھا۔ پاکستان کے معروف قانون دان جناب محمود علی قصوری جو شہری آزادیوں کے زبردست حامی تھے، انہوں نے سید ابوالاعلیٰ مودودی سے جیل میں رابطہ قائم کیا اور یہ پیغام دیا کہ ”ہمیں مل جل کر فسطائیت کے سیلاب کے آگے بند باندھنا چاہیے۔“ مولانا نے خوش دلی سے آمادگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ”انسانی بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے یہ ایک ضروری کام ہے۔“ یوں ’سول لبرٹی یونین‘ وجود میں آئی۔

اس یونین میں مختلف سیاسی جماعتوں کے علاوہ صحافیوں، وکیلوں اور طالب علموں کی تنظیموں نے بھی حصہ لیا۔ مسلم لیگ سے علامہ علا الدین صدیقی اور اقبال احمد چیمہ پیش پیش تھے۔ سوشلسٹ پارٹی سے کامریڈ محمد یوسف، صحافیوں کی تنظیموں کی طرف سے جناب فیض احمد فیضؔ اور میم شین بڑے متحرک رہے۔ وکلا میں سے محمود علی قصوری اور احمد سعید کرمانی بہت فعال تھے۔ جماعت اسلامی سے ملک نصراللہ خان عزیز اور علی تقی بہت سرگرم رہے۔ دائیں اور بائیں بازو کی مشترکہ جدوجہد سے عدالت عالیہ نے سیفٹی ایکٹ کے استعمال پہ کڑی پابندیاں عائد کر دیں اور یوں حکومت کو اپنی روش میں تبدیلی لانا پڑی۔

12 مارچ 1949 ء کو دستور ساز اسمبلی نے قرارداد مقاصد منظور کی جو وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان نے پیش کی تھی۔ قرارداد مقاصد منظور تو ہو گئی جو اسلامی اور جمہوری تصورات کا ایک حسین امتزاج تھی، مگر منظوری کے وقت اور منظوری کے بعد اس کے بارے میں طرح طرح کے مغالطے پیدا کیے جاتے رہے۔ یہ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ پاکستان میں کٹر ملاؤں کی حکومت قائم ہو جائے گی جس میں اقلیتوں پر ہر نوع کا تشدد کیا جائے گا۔ اس کیفیت کے پیش نظر یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ تمام فرقوں کے چیدہ چیدہ معتمد علما کی ایک مجلس منعقد کی جائے جس میں کامل اتفاق سے اسلامی دستور کے بنیادی اصول طے کیے جائیں۔

اس عظیم الشان مقصد کے لیے مولانا ظفر احمد انصاری، امیر جماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی راہنمائی میں سرگرم عمل ہو گئے۔ انہوں نے ہر مکتبۂ فکر کے علما سے رابطہ قائم کیا، چنانچہ سید سلیمان ندوی کی صدارت میں مختلف عقائد و مسالک کے 31 علما کراچی میں جمع ہوئے اور 21 تا 24 جنوری 1951 ء عصری تقاضوں کے مطابق اسلام کا دستوری خاکہ مرتب کرتے رہے۔ ان کا یہ نادر کارنامہ ہماری دستور سازی کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ اس اجتماع سے قرارداد مقاصد کو پوری ملت کی تائید حاصل ہو گئی۔

ہم یہاں 22 نکات کا خلاصہ درج کرتے ہیں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ ان میں کس قدر گہرائی اور بلند نگاہی کارفرما ہے۔ اللہ کی حاکمیت اور قرآن و سنت کی رو سے قانون سازی اور صدر مملکت کے لیے مسلمان ہونے کی شرط کے ساتھ چند عظیم الشان اصول وضع کیے گئے ( 1 ) مملکت بلا امتیاز مذہب و نسل تمام ایسے لوگوں کی انسانی ضروریات، یعنی غذا، لباس، رہائش، معالجہ اور تعلیم کی کفیل ہو گی جو روزی کمانے کے قابل نہ ہوں۔ ( 2 ) باشندگان ملک کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو شریعت اسلامی نے انہیں عطا کیے ہیں یعنی قانون کے تحت تحفظ جان و مال اور آبرو، آزادی مذہب و مسلک، آزادی اظہار رائے، آزادی نقل و حرکت، آزادی اجتماع، آزادی حصول رزق، ترقی کے مواقع میں یکسانی اور فلاحی اداروں سے استفادے کا حق۔

( 3 ) کسی جرم کے الزام میں کسی کو صفائی کا موقع فراہم کیے بغیر سزا نہیں دی جا سکے گی۔ ( 4 ) مسلمہ اسلامی فرقوں کی قانونی حدود کے اندر پوری مذہبی آزادی حاصل ہو گی۔ ان کے شخصی معاملات کے فیصلے ان کے اپنے فقہی مذہب کے مطابق ہوں گے۔ ( 5 ) شہری حقوق میں غیر مسلم برابر کے شریک ہوں گے۔ ( 6 ) صدر مملکت کو یہ حق حاصل نہیں ہو گا کہ وہ دستور کو مکمل یا جزوی طور پر معطل کر دے۔ ( 7 ) وہ جماعت جو صدر کو منتخب کر سکے گی، وہ اسے معزول کرنے کی بھی مجاز ہو گی۔ ( 8 ) صدر کی حکومت شورائی ہو گی۔ ( 9 ) صدر شہری حقوق میں عام شہری کے برابر ہو گا۔ ( 10 ) عدلیہ، انتظامیہ سے آزاد ہو گی۔

ہم 31 علما میں سے چند علمائے گرامی کے نام بھی درج کر رہے ہیں جن سے اندازہ ہو سکے گا کہ وہ کس مرتبے اور کس عظمت کے لوگ تھے۔ سید سلیمان ندوی، سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا احتشام الحق تھانوی، مولانا محمد عبدالحامد قادری بدایونی، مفتی محمد شفیع، مولانا مفتی محمد حسن، پیر صاحب محمد امین الحسنات، مولانا محمد یوسف بنوری، مولانا محمد علی جالندھری، مولانا محمد داؤد غزنوی، مجتہد جعفر حسین، مجتہد حافظ کفایت حسین، مولانا احمد علی لاہوری اور مولانا ظفر احمد انصاری۔ مشرقی پاکستان سے مولانا شمس الحق فرید پوری، مولانا راغب احسن، مولانا اطہر علی اور مولانا محمد حبیب الرحمٰن شریک ہوئے۔ یہ علمائے کرام بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث، اہل تشیع، اہل طریقت اور معروف دارالعلوم کی نمائندگی کرتے تھے۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی آگے چل کر بھی ایسے ہی بڑے کام سرانجام دیتے رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments