ارشد شریف کا قتل سیاسی انتشار کا محرک؟


قومی تاریخ کے اس نازک مرحلہ پہ جب ہماری پاور پالیٹکس کے تمام اسٹیک ہولڈر سیاسی پولرآئزیشن میں الجھ کے قومی وجود کو نفرتوں اور تشدد کی طرف دھکیلتے میں مشغول ہوں تو ایسے میں معصوم انسانوں کے قتل جیسے المناک حادثات عوامی اذہان میں آتش فشاں بھڑکانے کا سبب بھی بن سکتے ہیں، جیسے 1971 مقبول سیاسی جماعت، عوامی لیگ، نے خواتین کی مبینہ آبرو ریزی اور تشدد زدہ نعشوں کی مبالغہ آمیز کہانیوں کے ذریعے بنگالی عوام کے تن بدن میں آگ لگا کر مملکت کو دولخت کر دیا تھا۔

شومئی قسمت آج پھر سوشل میڈیا جیسی طلسماتی ٹیکنالوجی سے لیس ایک مقبول سیاسی پارٹی فوج میں تعیناتیوں کے ایشو کو لے کر گھیراؤ جلاؤ کی حکمت عملی کے تحت قومی کو بے یقینی اور مملکت کو عدم استحکام میں مبتلا رکھنے کی خاطر پرتشدد تحریک برپا کر چکی ہے۔ پچھلے پچھتر سالوں میں پہلی بار سوشل میڈیا کے ذریعے دفاعی اداروں کی کمانڈ کی وطن سے وفاداری کو مشکوک بنانے کی خاطر وسیع پیمانہ پہ میرجعفر اور میر صادق جیسے منفی استعاروں کی تکرار کے ذریعے نوجوان نسل کے دل و دماغ میں زہریلے تصورات کاشت کیے جا رہے ہیں، چنانچہ التباسات سے لبریز ایسے پر آشوب ماحول میں کینیا کے شہر مگادی کے مضافات میں معروف صحافی ارشد شریف کے پراسرار قتل کو پاور پالیٹکس کی جدلیات کا محور بنانا خطرات سے خالی نہیں ہو گا۔

امر واقعہ بھی یہی ہے کہ اس اندوہناک واقعہ کی خبر ملتے ہی سابق وزیراعظم عمران خان نے بلا تحقیق نہایت عجلت میں ارشد شریف قتل کو ریاستی جبریت سے جوڑنے کا بیان جاری کر کے سب کو حیران کر دیا، انہی کی پیروی میں پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیموں نے مقتول صحافی کی حکومتی اعمال اور ریاستی مقتدرہ پہ معمول کی تنقید کے کلپ چلانے کے علاوہ اس المیہ میں غم و اندوہ کا رنگ بھرنے کی خاطر ارشد شریف کی مبینہ والدہ، بیٹی اور بچے کی آہ و فغاں پہ مبنی ویڈیوز شیئر کر کے اس تاثر کو زیادہ مضبوط بنانے کی مہم چلائی تاکہ غمزدہ خاندان کے حق میں اٹھنے والی ہمدردی کی لہر کو ریاست مخالف بیانیہ میں ڈھالا جا سکے۔

لہذا اسی مہلک پیش دستی کے تدارک کی خاطر ارشد شریف کے قتل سے جڑے واقعاتی شواہد کو لے کر پہلے پی ٹی آئی رہنما فیصل واوڈا کی انکشافات سے لبریز میڈیا ٹاک کے ذریعے ریاست مخالف بیانیہ کی رخ گرانی کی کوشش کی گئی، پھر ڈائریکٹر جنرل انٹر سروس انٹیلی جنس اور ڈی جی آئی ایس پی آرکی غیر معمولی پریس بریفنگ نے بھی نومبر دو ہزار چودہ میں جاوید ہاشمی کی اس پریس کانفرنس کی یاد تازہ کر دی جس میں ہاشمی نے نواز شریف گورنمنٹ کا تختہ الٹنے کی منصوبہ بندی کو طشت از بام کر کے چار مہینوں پہ محیط مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف عمرانی دھرنا کے چہرہ سے نقاب الٹ دیا تھا۔

فیصل واوڈا کی گفتگو کا لب و لباب یہی تھا کہ صحافی ارشد شریف کے قتل کی منصوبہ بندی اگرچہ پاکستان میں ہوئی لیکن ارشد شریف کو مقتدرہ یا سول گورنمنٹ نے نہیں بلکہ ایسے گروہ نے قتل کرایا جو مملکت کو منقسم دیکھنا چاہتا ہے، اسی تسلسل میں انہوں نے عمران خان کے مجوزہ لانگ مارچ کو خون کی ہولی سے تشبہ دیتے ہوئے بڑی تعداد میں اموات کی وعید بھی سنائی، اسی کاؤنٹر نیریٹو سے مربوط ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم اور ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کی پریس بریفنگ میں ڈپلومیٹک سائفر سے جڑی رجیم چینج سازش تھیوری، ارشد شریف کی غیر رسمی ملک بدری اور پراسرار موت کو تانے بانے کو ایک مقبول سیاسی لیڈر کی حصول اقتدار کی خاطر قومی سلامتی سے کھیلنے کی سوچ کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے اقتدار کی غلام گردشوں میں پنپنے والے کئی سربستہ رازوں سے پردہ بھی اٹھایا گیا، جس میں اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام بنانے کے صلہ میں سابق وزیراعظم کی طرف سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو مدت ملازمت میں غیر معینہ مدت کے لئے توسیع دینے کی پیشکش قابل ذکر تھی۔

عسکری ترجمان نے ارشد شریف کی المناک موت کا کھوج لگانے کے لئے اعلی سطحی تحقیقاتی کمشن بنانے کے مطالبہ کو دہرانے کے علاوہ اس کمشن میں دفاعی اداروں کی شمولیت سے احتراز کی خبر بھی سنائی۔ ارشد شریف کی ناگہانی موت کو لے کر وزیراعظم شہباز شریف نے بھی ٹویٹر پر کہا کہ عمران نیازی ارشد شریف کے المناک قتل کو قومی سیاست کو زہرآلود بنانے اور اداروں پہ الزام تراشی کے لئے استعمال کر کے خطرناک گیم کھیل رہے ہیں، بے بنیاد الزامات کا سہارا لے کر نفرتوں کو آگ بھڑکانے کی بجائے انہیں ارشد شریف قتل کیس کے تحقیقاتی کمیشن کی رپوٹ کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔

بہرحال، ہماری پاور پالیٹکس کے تناظر میں یہ بات نہایت اہم ہے کہ موجودہ چیف آف آرمی سٹاف کے 29 نومبر 2022 کو ریٹائر ہو جانے کے باعث اگلے چند دنوں میں اس منصب پہ نئی تعیناتی متوقع ہے، قومی امور میں فوج کے موثر کردار کے پیش نظر نئی تقرری بارے ملک بھر میں قیاس آرائیوں کے جلو میں پہلی بار اس تعیناتی کو سیاسی تنازعہ بنا دیا گیا، عمران خان نے نئے آرمی چیف کی تعیناتی بارے وزیراعظم کے مطلق اختیارات کو متنازعہ بناتے ہوئے اس اہم تقرری کے لئے ”میرٹ“ اور وسیع تر ”مشاورت“ کی تجویز دے کر آئینی اصولوں اور اداری جاتی روایت کو توڑنے کی تجویز دے ڈالی، شاید اسی لئے سابق وزیراعظم نواز شریف نے عمران خان کے حالیہ لانگ مارچ کو من مرضی کے آرمی چیف کی تعیناتی کی خواہش کا مظہر قرار دیا۔

عمران خان جمعہ کو لاہور سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا طبل جنگ بجا چکے ہیں، لانگ مارچ کے شرکاء 4 نومبر کو اسلام آباد پہنچنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن مقتدر عسکری کمانڈروں کی پریس کانفرنس کے ذریعے جب لانگ مارچ جیسی پرتشدد کارروائیوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا پیغام دیا گیا تو سیاسی ماحول میں تغیر و تبدل کے آثار نمایاں ہونے لگے، پنجاب سے تعلق رکھنے والے کئی ممبران صوبائی اسمبلی نے پی ٹی آئی سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا، قبل ازیں خان کے قریبی ساتھیوں میں سے فیصل واوڈا نے پرتشدد تحریک سے کنارہ کشی کرتے ہوئے اپنی ہنگامی پریس کانفرنس میں جاری پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کو خون آلود بتایا۔

دریں اثنا وفاقی حکومت نے اتوار کو صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لئے تین سینیئر سیکیورٹی افسران کو کینیا بھیجا تاکہ اس غیرمعمولی قتل سے جڑے حقائق کو غمزدہ خاندان اور پبلک تک پہنچا کر ڈیمج کنٹرول کیا جا سکے۔ تین رکنی تفتیشی ٹیم میں فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے کنٹری ڈائریکٹر اطہر وحید اور انٹیلی جنس بیورو کے ڈپٹی ڈائریکٹر عمر شاہد حامد شامل ہیں۔ ارشد شریف کی اتوار کی رات کینیا کی پولیس کے ہاتھوں مارے جانے کی خبر سب سے پہلے اے آر وائی نیوز نے نشر کی، جس میں کینیائی حکام کا یہ دعویٰ بھی شامل تھا کہ یہ حادثہ غلط شناخت کا شاخسانہ ہے لیکن بعد میں کئی واقعاتی شہادتوں نے اس دعوی کو مشکوک بنا دیا۔

تاہم صحافی کے قتل کے ابتدائی تاثر کے حوالہ سے وزیر اعظم شہباز شریف کی انتظامیہ کئی سازشی کہانیوں کے زد پر ہے، وزیراعظم نے پیر کو بتایا کہ کینیا کے صدر ولیم روٹو نے انہیں قتل کی شفاف تحقیقات کی یقین دہانی کرائی ہے۔ کینیا کی نیشنل پولیس سروس نے اپنے پہلے بیان میں کہا تھا کہ ماگدی شاہراہ پر روڈ بلاک کرنے والے افسران نے ارشد شریف اور اس کے ہمسفر خرم احمد کو دارالحکومت نیروبی میں سٹاریے سے بچے کے اغوا کاروں کے تعاقب میں غلط فہمی میں نشانہ بنایا۔

اگست 2022 میں مقتول صحافی نے اے آر وائی نیوز سے استعفیٰ دے دیا، جہاں وہ عرصہ سے سیاسی سرگرمیوں کے بارے میں مقبول ٹاک شو کی میزبانی کرتے رہے۔ خیبر پختون خوا گورنمنٹ کی طرف سے تھریٹ الرٹ جاری کرا کے پندرہ اگست کو پشاور سے انہیں اپنے آبائی ملک سے فرار ہونے کی سہولت فراہم کی گئی، انہیں پی ٹی آئی رہنما شہبازگل کے ساتھ شریک ملزم کے طور پر بغاوت سمیت متعدد الزامات کا سامنا تھا۔ ان کی موت کینیا میں اس وقت ہوئی جب وہ رات کے پچھلے پہر پاکستانیوں اور انڈین میں مقبول ایموڈمپ کلب سے نکل کر اپنی رہائشگاہ کی طرف پلٹ رہے تھے۔

اس سارے قضیہ میں کا اہم پہلو یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے بدقسمت صحافی کے بہیمانہ قتل کے محرکات کا رخ ریاستی اداروں کی طرف موڑ دیا گیا، جس کی سنگینی ایسے مقتدر لوگوں کو میڈیا کے سامنے لا کھڑا کیا جن کے منصب کے تقاضے انہیں خود نمائی سے روکتے ہیں، بلاشبہ سوشل میڈیا شہریوں کو باہم خبریں بانٹنے اور شیئر کرنے کی غیر معمولی قوت دیتا ہے چنانچہ اس تکنیکی تبدیلی نے فیک نیوز کو پھیلانا پہلے سے کہیں زیادہ آسان بنا دیا۔

یعنی ایسی من گھڑت سیاسی افواہیں جو سچائی سے کہیں زیادہ تیز، گہری اور وسیع پیمانے پر اثر ڈالنے والی ہوتی ہیں، مخالف سیاسی قوتوں اور ریاستی اعمال کی ساکھ کی منفی تصویر کشی کرتی ہیں، یہ منفی گروہی خبریں کم ثبوتی قدر رکھتی ہیں، ایسی ہی فیک نیوز سے ارشد شریف قتل کیس کے سازشی نظریات مربوط ہیں جو سیاسی اسکینڈلز اور منفی مہمات کے چرچے کا موثر وسیلہ بن گئی ہیں۔ اگرچہ مختلف اقسام کی یہ خبریں شکل اور زاویہ میں مختلف ہیں لیکن ان میں دو اہم خصوصیات مشترکہ ہیں، وہ دشمنی کو بھڑکانے کی قوت رکھتی ہیں، دوسرا مخصوص ہدف کی طرف ان کی یلغار کو غلط ثابت کرنا کافی مشکل ہوتا ہے۔ چھوٹے پیمانے کے اہم واقعات کو جنم دینے سے لے کر کافی طریقوں سے مطلوب سیاسی نتائج حاصل کرنا، بڑے پیمانے کا احتجاج اور سیاسی مخالفین کی سائبر دھونس پر سیاسی نتائج کو متاثر کرنے کا خطرناک ٹول ثابت ہوتی ہیں، ان میں پوشیدہ متعصبانہ عناد کسی بھی سچائی پر یقین کرنے کے امکان کو متزلزل کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments