سر جی زندہ باد


آنکھ کی پتلی پر کوئی عکس ٹھہر نہیں پاتا، منظر بگٹٹ بھاگ رہا ہے، جیسے ہم تیز رفتار ریل سے باہر جھانک رہے ہوں، سپہ سالار کی رخصتی پچیس دن کی دوری پر ہے، اور ان کے جانشین کا نام ابھی تک ایک سر بستہ راز ہے، لانگ مارچ لڑکھڑاتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے، علی امین گنڈاپور اسلحے سمیت اسلام آباد کی دہلیز پر آبیٹھے ہیں، عمران خان نے صدر عارف علوی کو حکومت سے مذاکرات کا اختیار دے دیا ہے ،سپریم کورٹ میں جونیئر جج لگا دیے گئے ہیں ، ارشد شریف کا حادثہ پرانی بات ہو چکی ہے،رپورٹر صدف نعیم کنٹینر کے نیچے آ کر کچلی گئی اور ان کے لواحقین نے ’بہ وجوہ‘ پرچہ درج کروانے سے انکار کر دیا، پنجاب اینٹی کرپشن نے دوست مزاری کو گرفتار کر لیا اور فرح گوگی کے خلاف کیس ختم کر دیا ، اور اس کے علاوہ بھی بہت سے طلسمِ زلیخا و دامِ بردہ فروش۔آنکھ کی پتلی پر کوئی عکس ٹھہر نہیں پاتا سو کئی منظر نظر انداز ہو گئے ہوں گے، یعنی ”ہم نے اس کو اتنا دیکھا جتنا دیکھا جا سکتا تھا…. لیکن پھر بھی دو آنکھوں سے کتنا دیکھا جا سکتا تھا“۔

خبر کشِ اعلیٰ کے ظہورِ اول سے بات آغاز کرتے ہیں، ڈی جی آئی ایس آئی نے فرمایا کہ ان کی رونمائی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جھوٹ دندناتا پھر رہا ہے اور اسے پٹہ ڈالنا مقصود ہے، اور پھر اگلی بات تو انہوں نے ایسی کی کہ شجرِ جاں چہچہا اٹھا، انہوں نے فرمایا کہ فوج نے خود کو اپنے آئینی کردار تک محدود کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور یہ کسی فردِ واحد کا فیصلہ نہیں ہے بلکہ ادارے کا متفقہ فیصلہ ہے، وہ کچھ اور بھی فرماتے رہے لیکن ہم سن نہیں سکے، کہ ان کے اسی فقرے کی باز گشت ہمارے کانوں میں موسیقی گھولتی رہی، اور دل سے بے اختیار پاک فوج زندہ باد کے نعرے بلند ہوتے رہے۔

اس ضمن میں چند عاقبت نا اندیش دوستوں کی نکتہ چینی سن کر دکھ ہوا، جو کہتے ہیں کہ جنرل صاحب کے اقرار کا معنیٰ تو یہ ہوا کہ پچھلے پچھتر سال آئینی دائرے سے باہر گزارے گئے ہیں، اس پر خفت کا اظہار کرنا چاہیے تھا، قوم سے معذرت کرنا چاہیے تھی۔ہمارے نزدیک یہ فروعی باتیں ہیں، یہ جلد بازی ہے، یہ تبصرے اس موقع پر غیر ضروری ہیں، یہ ’واہ واہ‘ کا وقت ہے، یہ پیچھے نہیں آگے دیکھنے کا وقت ہے، یہ وقتِ دعا ہے، یا اللہ، عساکر کو اپنے عزم میں استقامت عطا فرما (سب پڑھیں، آمین) اپنے بھائیوں کو ان کی خطائیں یاد کروا کے کون شرمندہ کرتا ہے اور پھر زبانی معافی تلافی کا کچھ مطلب نہیں ہوتا، ماضی کی کوتاہیوں کا ازالہ تو مسلسل عمل سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ ڈی جی صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ وہ پروجیکٹ عمران پر پھر کبھی ”سیر حاصل“ گفتگو فرمائیں گے، ہمارے خیال میں تو اس کی بھی ضرورت نہیں، بلا شبہ پروجیکٹ عمران اسٹیبلشمنٹ کا ہی منصوبہ تھا، مگر صدقِ دل سے توبہ کی جائے تو گناہِ کبیرہ بھی معاف ہو جاتے ہیں، اور پھر پروجیکٹ عمران ایسا کوئی خفیہ مشن تو تھا نہیں کہ اس پر مزید’ ’سیر حاصل“ بحث کی جائے، عمران خان کو اقتدارکی مسند پر ایک برہنہ سازش کےذریعے بٹھایا گیا تھا، یہ کوئی راز تو نہیں ہے، جسٹس شوکت صدیقی نے سارا پروجیکٹ بے لباس کر تو دیا تھا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کیس میں گناہ گاروں کو (عمران خان کی زبان میں) ننگا کر تو دیا تھا، ’وتعزو من تشا‘ والی باوردی ٹویٹ ساری قوم نے پڑھ تو لی تھی، اب اور اس پر کیا بات کریں؟ اور اگر اس پروجیکٹ کا کوئی گوشہ مہین سی چادر میں لپٹا رہ بھی گیا تھا تو خان صاحب نے وہ بھی تارتار کر دیا ہے، فرماتے ہیں کہ مجھے اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف اور زرداری کی کرپشن کی فائلیں دکھائی تھیں، اور میں نے انہیں اپنے ایمان کا جز بنا لیا، ویسے اسی اسٹیبلشمنٹ نے جب خان صاحب کو بشریٰ بی بی اور فرح گوگی کی کرپشن کی فائلیں دکھائیں تو خان صاحب نے معلومات اکھٹی کرنے والے افسر کا ہی تبادلہ فرما دیا تھا۔

”اٹھتے ہیں بگولے سے بیابان سے اب تک…. جاتا ہی نہیں ہے وہ مرے دھیان سے اب تک“، یعنی رہ رہ کے ڈی جی صاحب کی آئینی دائرے میں لوٹ جانے والی خوش خبری کی مہک مشامِ جاں میں پھیلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، ہوں گرمی نشاطِ تصور سے نغمہ سنج، کیا واقعی پاکستان اپنے سنہری دور کی طرف بڑھ رہا ہے، کیوں کہ ہماری سوچی سمجھی رائے میں پاکستان کے بیشتر مسائل کی جڑ یہی بے راہ روی ہے، یعنی مختلف اداروں کا آئین میں متعین اپنی راہ سے بھٹک جانا۔ اب آپ ذرا تصور کیجیے کہ اسی نوع کی ایک پریس کانفرنس عدلیہ کا کوئی نمائندہ بھی کر دے تو ہم تو”جس کو دیکھا اسی کو چوم لیا“ والی کیفیت سے دوچار ہو جائیں گے، عدلیہ کے سرخیل بھی اعلان کر دیں کہ ہم آج سے آئین کے تحت اپنے فرائض انجام دیں گے اور از سرِ نو آئین لکھنے سے گریز کریں گے، وزیرِ اعظم کو گھر بھیجنے کے بجائے اپنی توانائیاں ہزار ہا زیرِ التوا کیسز کو حل کرنے پر مرتکز کریں گے، اور آج سے نہال ہاشمی اور عمران خان پر ایک ہی قانون لاگو کریں گے۔ اندیشہ ہے کہ اس اعلان کے بعد بھی آوازیں اٹھیں گی کہ عدلیہ کو جسٹس منیر، انوار الحق، ارشاد حسن خان سے ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ تک سب کےاعمال پر معافی مانگنی چاہیے، ہم اس وقت بھی یہی مشورہ دیں گے کہ چھوڑئیے، آگے چلتے ہیں، دست افشاں، مست و رقصاں۔ منزل کب سے ہمارا انتظار کر رہی ہے۔.

(بشکریہ روزنامہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments