دو نہیں ایک قانون


<

p dir=”rtl”>

عمران خان پاکستان کے مقبول ترین اور طاقت ور ترین لیڈر ہیں۔ ان کی خوبیاں گنوانا گویا سورج کو چراغ دکھانے کے برابر ہے۔ کون نہیں جانتا کہ کپتان نے ہمارے لیے ورلڈ کپ جیت کر ہمارا سر فخر سے بلند کیا۔ ساری دنیا سے چیریٹی اکٹھی کی اور پاکستان میں تین ہسپتال بنائے۔ ایک یونیورسٹی بھی بنائی۔ سیاسی پارٹی بنائی اور اس کا نام تحریک انصاف رکھا۔ وہ ہمیں اچھا مسلمان بننے کا درس دیتے ہیں اور ملک کے لاکھوں نوجوان ان کی باتیں دھیان سے سنتے ہیں اور اسے من و عن درست تسلیم کرتے ہیں۔

کون نہیں جانتا کہ کپتان ملک میں قانون کی حکمرانی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قانون کے سامنے سب برابر ہیں۔ کوئی بڑا چھوٹا نہیں۔ ان کے پسندیدہ نعرے ”دو نہیں ایک پاکستان“ اور ”دو نہیں ایک قانون“ ہیں۔ ظاہر ہے ایک سچے مومن، نیک مسلمان اور عالم اسلام کے مقبول ترین لیڈر ہونے کے ناتے وہ جو تبلیغ کرتے ہیں اس پر خود بھی عمل کرتے ہیں۔ اپنے اوپر ہونے والا حالیہ حملے میں بھی وہ اسی پر عمل کر کے اپنی قوم کو سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں۔

ابھی تین دن قبل وزیر آباد میں ایک انتہائی قابل افسوس اور قابل مذمت سانحہ پیش آیا۔ پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے دوران میں وزیر آباد میں عمران خان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ اس حملے میں عمران خان اپنے کچھ قریبی ساتھیوں سمیت زخمی ہوئے۔ ان کی پارٹی کا ایک حامی جان کی بازی بھی ہار گیا۔ ظاہر ہے کہ ایک بھیانک جرم سر زد ہوا اور کپتان اپنے لیے اور اپنے ساتھیوں کے لیے انصاف چاہتے ہیں۔ یہ ان کا بنیادی حق ہے۔

عمران خان چونکہ ایک بہت پڑھے لکھے آدمی ہیں اور اس ملک کے وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں اس لیے وہ قانونی تقاضوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ انہیں بخوبی علم ہے کہ اگر کسی عام پاکستانی شہری پر وزیر آباد میں قاتلانہ حملہ ہو جس میں وہ زخمی ہو جائے تو انصاف حاصل کرنے کے لیے اسے کون سے قانونی تقاضے پورے کرنے ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ زخمی شخص کو وزیر آباد ہی کے مجاز سرکاری ہسپتال اور میڈیکولیگل افسر کے پاس حاضر ہو کر اپنا تفصیلی طبی معائنہ کرانا ہو گا۔ مجاز ڈاکٹر یعنی سرکاری میڈیکولیگل افسر معائنہ کرنے کے بعد سرٹیفیکیٹ جاری کرے گا اور اس قانونی طبی دستاویز کی روشنی میں پولیس مقدمہ درج کرے گی۔ مقدمہ درج ہونے کے بعد پولیس اپنی کارروائی شروع کرے گی۔

زخمی ہونے والی پارٹی، جو کہ اس کیس میں عمران خان اور ان کے ساتھی ہیں، اگر حملہ آور کو جانتے ہیں تو وہ پولیس کو اس کا نام پتہ بتاتے ہیں تاکہ پولیس اپنا فرض انجام دے سکے۔ اگر حملہ آور کو کوئی نہ جانتا ہو تو پھر پولیس کو ان لوگوں کی لسٹ دی جاتی ہے جن پر آپ کو شک ہے۔ پولیس تفتیش کرتی ہے اور اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ آپ کا شک درست ہے یا نہیں۔ یہ بہت نازک کام ہے کیونکہ ایک پرامن معاشرے میں مدعی پارٹی اور پولیس دونوں ہی کسی بے گناہ کو سزا نہیں دلانا چاہتے۔

آپ نے دیکھا کہ عمران خان ایک دفعہ پھر سرخرو ہوئے۔ عمران نے تمام قانونی تقاضے ایسے پورے کیے جیسے ایک عام پاکستانی کو پورے کرنے پڑتے ہیں۔ پی ٹی آئی کارکنان کو بجا طور پر فخر ہے کہ ان کا کپتان جس چیز کی تبلیغ کرتا ہے اس پر خود بھی عمل کرتا ہے۔ بے شک ”دو نہیں ایک پاکستان“ اور ”دو نہیں ایک قانون“

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments