ملک کے فیصلے ڈی چوک یا جی ایچ کیو میں نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں ہونا چاہئیں


جب تحریک انصاف کی حکومت تھی۔ اور ہم اس وقت فوج کے سیاسی کردار کے خلاف بولتے تھے لکھتے تھے تو ہمیں تحریک انصاف کے دوست غدار اور نہ جانے کیا کچھ القابات سے پکارتے تھے۔ آج وہی تحریک انصاف کے دوست کہتے ہیں کہ اپ اس وقت ٹھیک بات کرتے تھے ہم غلط تھے۔ ہمیں اب بات سمجھ آئی ہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف کے دوست اس وقت بھی غلط تھے اور آج بھی غلط ہیں۔ کیوں کہ تحریک انصاف آج بھی فوج کے سیاسی کردار کے خلاف بات نہیں کر رہی ہے بلکہ وہ تو فوج کے سیاسی کردار کو مزید بڑھانے کی بات کر رہی ہے۔ فوج کو نیوٹرل رہنے پر طعنہ دیا جا رہا ہے۔

عمران خان اس وقت احتجاج ہی اپنے پسند کا آرمی چیف لانے کے لئے کر رہا ہے۔ وہ شخص جو اس وقت صرف ایک بائیس گریڈ کے آرمی چیف کی تعیناتی کی وجہ سے احتجاج کر رہا ہو وہ سیاست سے فوج کا سیاسی کردار کیسے ختم کر سکتا ہے؟ وہ تو فوج کے سیاسی کردار کو مزید بڑھانے کی بات کر رہا ہے۔ اس کو ایک ایسا آرمی چیف چاہیے جو اس کو سپورٹ کرے جو اس کی حکومت کی حفاظت کرے اور اپوزیشن کو کنٹرول کرے۔

ہم کل بھی فوج کی سیاسی کردار کے خلاف تھے اور آج بھی خلاف ہیں۔ لیکن ہم فوج کے خلاف بالکل نہیں۔ فوج کے سیاسی کردار بارے سوال کرنا اور چیز ہے فوج کی مخالفت کرنا دوسری بات ہے۔ فوج اگر آج سیاسی طور پر طاقتور ہے تو اس کی وجہ بھی سیاستدان ہی ہوتے ہیں۔ سیاستدانوں کو سیاسی اختلاف پس پشت ڈال کر اپنے اپ کو مضبوط بنانا ہو گا۔ اپنے آپ کو مضبوط بنانے کے لئے پارلیمنٹ کو با اختیار بنانا ہو گا۔ پارلیمنٹ ایک ایسا ادارہ ہے جو اداروں کے درمیان پل کا کردار ادا سکتا ہے۔ جب پارلیمنٹ بیانیے کی تشکیل اور تنازعات کو سلجھانے میں اپنا قائدانہ کردار ادا نہیں کرتی تو پھر ایسا خلا جنم لیتا ہے جس سے کوئی بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

حالیہ سیاسی بحران سیاسی جماعتوں کے لیے اپنے افعال کا جائزہ لینے کا موقع ہے۔ خاص طور پر حکمران جماعتوں کو پارلیمنٹ کو کمزور رکھنے کی اپنی سوچ تبدیل کرنی چاہیے۔ ہمارے ہاں کہنے کو پارلیمنٹ ہی بالادست ہے مگر عملی طور پر دیکھا جائے تو سیاسی جماعتیں اسے اپنی قوت کا منبع بنانے سے گریز کرتی ہے۔ پارلیمنٹ اور جمہوری نظام کی مضبوطی سے سیاستدانوں کی عزت اور قوت بڑھے گی۔ ہمارے جو لیڈرز آج سویلین بالادستی تسلیم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ جب حکومت میں تھے تو سویلین بالادستی کی علامت پارلیمنٹ کو انہوں نے کتنی اہمیت دی؟ سیاستدانوں کو جمہوری اداروں کو مستحکم کرنے کے لئے وہاں مل بیٹھ کر کام کرنا چاہیے۔

اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کو اپنا سیاسی اختلاف پاس پشت ڈال کر ایک پوائنٹ پر اکٹھا ہونا چاہیے جو فوج کے سیاسی کردار کے خلاف پارلیمنٹ کی بالادستی ہے۔ موجودہ حکومت ہو یا سابقہ حکومتیں سیاسی انتشار اور مسائل میں ہی الجھی رہیں۔ مسلسل عدالتی مقدمات، احتجاجوں، دھرنوں جلسوں اور دیگر کارروائیوں میں ایسے غرق ہوئیں کہ عوامی مسائل کی فکر ہی نہ رہی۔

دھرنوں سے اقتصادی نقصانات تو ہوتے ہی ہیں لیکن ہر بار ہونے والا دھرنا ریاست کی عملداری کو بھی چیلنج کرتا ہے، جو کسی طور بھی معیشت کے لیے سود مند نہیں ہے۔ ہر قسم کا احتجاج چند شرائط سے مشروط ہوتا ہے، لیکن گزشتہ چند برس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ احتجاج کرنے والے ہر حدود و قیود کو عبور کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ تسلسل کے ساتھ ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں، جن کی بنیاد پر سماج کو تقسیم کیا جا رہا ہے، افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں، غلط فہمیاں قائم کی جا رہی ہیں اور پھوٹ ڈال کر ملک کی بقا و سالمیت کو حد درجہ خطرہ میں مبتلا کیا جا رہا ہے۔

ملکی سیاست میں انتہا پسندی اور شدت پسندی بڑھی ہے۔ شدت پسند کم و بیش دنیا کے ہر معاشرے، مذہب اور تہذیب میں پائے جاتے ہیں لیکن ان کی تعداد مٹھی بھر اور پورے معاشرے کے مقابلے میں انتہائی کم ہوتی ہے۔ تشویش ناک صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب یہ شدت پسند عناصر ریاست اور نظام پر اثر انداز ہو کر پورے معاشرے کو یرغمال بنا لیں اور معاشرے میں اپنے وجود سے متعلق ایک خوف اور دہشت پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ پاکستان گزشتہ چند سالوں سے اسی طرح کی صورتحال سے دوچار دکھائی دیتا ہے کہ یہاں شدت پسندی نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور وہ ریاست اور اس کے نظام کو چیلنج کر رہی ہے۔

موجودہ حالات میں ملک کسی انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ سیاست لڑنے جھگڑنے اور مرنے مارنے کا نام نہیں بلکہ مسائل کا حل جمہوری انداز میں گفت شنید سے کیا جانا ایک دوسرے کو برداشت کرنا ایک دوسرے کی بات سننا مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کرنا یہی سیاست ہے اور جمہوریت کا حسن بھی۔ جو قومیں اپنی نسلوں کو ورثے میں مقدمے اور مسئلے دیتی ہوں وہ قومیں ترقی کیسے کر سکتی ہیں۔ بدقسمتی سے حالیہ وقتوں میں جو سیاسی یا مذہبی تحریکیں چلیں ان میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ چند ہزار لوگ ہڑتال یا دھرنے سے پورے ملک کو ہائی جیک کر لیتے ہیں اور زبردستی اپنی مرضی کے فیصلے کرواتے ہیں جن سے خاموش اکثریت متفق نہیں ہوتی۔

ہڑتالیں اور دھرنے مسائل کا حل نہیں۔ ان سے نئے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ہماری تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ ہر اہم موڑ پر ہمیں یرغمال بنانے والے وہ ہوتے ہیں جن کا اس ملک کی تخلیق، تعمیر اور تزئین میں کوئی کردار نہیں۔ ملک میں ہمیشہ ان احتجاج اور تحریکوں کو غیر جمہوری قوتوں کی پشت پناہی ملتی رہی ہے۔ یہ غیر جمہوری قوتیں اپنے تھوڑے سے مفادات کے لئے ملک کا بہت زیادہ نقصان کرتی ہیں۔ کچھ لوگوں کے نزدیک موجودہ احتجاج اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہے لیکن میری رائے میں یہ احتجاج بھی اسٹیبلشمنٹ کے ایک گروپ کی مدد کے بغیر ممکن نہ ہو پاتا۔ میرے خیال میں ملک کے فیصلے ڈی چوک یا جی ایچ کیو میں نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں ہونا چاہئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments