انگکور: وہ شہر جس کا ’مقدس‘ پانی، اس کے عروج کے ساتھ زوال کا بھی باعث بنا


انگکور واٹ
انگکور واٹ ہر سال لاکھوں زائرین کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے لیکن زیادہ تر لوگ اس کے پیچیدہ اور وسیع آبی نظام کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں جو کہ ایک سلطنت کے عروج اور زوال کی وجہ رہا ہے۔

ہر سال اپریل میں خمیر کے نئے سال کی تقریبات کے دوران سوفی پینگ، ان کے چار بہن بھائی اور والدین کمبوڈیا کے سب سے مقدس پہاڑ فنوم کولن کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ 

قدیم طاقتور انگکور سلطنت کی جائے پیدائش کے طور پر اس پراسرار پہاڑ کی نرم ڈھلوانیں مقامی لوگوں کے دلوں میں ایک خاص مقام رکھتی ہیں۔

مذہبی تہواروں کے دوران کمبوڈیا کے باشندے اس کی چوٹی پر پہنچ کر اسی پانی سے برکت حاصل کرتے ہیں جو سنہ 802 عیسوی سے بادشاہوں کی تاجپوشی کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ 

اس سلطنت کا قیام اس وقت عمل میں آيا جب سلطنت کے بانی جے ورمن دوم کو اس مقدس پانی سے غسل دیا گیا اور انھیں دیو راجہ یعنی دیوتا کی اہمیت والا راجہ کہا گيا۔ ان کی سلطنت جدید دور کے کمبوڈیا، لاؤس، تھائی لینڈ اور ویتنام پر پھیلی ہوئی تھی اور صنعتی انقلاب سے قبل انگکور شہر دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا۔

اس مقدس مقام کو امر کرنے کے لیے کبال سپین کے دریا کے کنارے 1,000 شیو لِنگ (ہندو دیوتا شیو کا ایک علامتی اوتار) کو تراش کر ابھارا گیا جہاں سے پانی انگکور کے میدانی علاقوں میں بہتا ہوا گزرتا ہے اور ٹونلے سیپ جھیل میں گرتا ہے۔

آج بھی اس پانی کو مقدس سمجھا جاتا ہے اور اس کی طاقت کو بیماریوں سے شفایابی اور خوش قسمتی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔

پینگ کا کہنا ہے کہ ’یہ کمبوڈیا کے باشندوں کے لیے ایک بہت ہی خاص جگہ ہے، یہ ہماری تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ ہر سال ہم اپنے خاندان کے ساتھ خمیر کے نئے سال کی رسومات کے حصے کے طور پر کولن پہاڑ کا دورہ کرتے ہیں۔ ہم مندر میں چڑھانے (نذرانے) کے لیے کھانے کا عطیہ لاتے ہیں اور اچھی قسمت کے لیے کبل سپین سے پانی لا کر اس پر ڈالتے ہیں۔‘

انگکور واٹ

جے ورمن دوم کے روحانی آشیرباد نے انگکور سلطنت کا پانی کے ساتھ قریبی تعلق کا آغاز کیا تاہم یہ اس وقت تک نہیں تھا جب تک دارالحکومت کو جنوب کی طرف رولوس اور پھر انگکور نہیں منتقل کر دیا گیا جہاں یہ سلطنت پانچ صدیوں سے زائد عرصے تک قائم و دائم رہی۔

سلطنت کے ماہر انجینیئر اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے پانی کا ایک ایسا پیچیدہ نظام بنانے میں کامیاب ہو گئے جو جہاں سلطنت کے عروج کا ضامن بنا وہیں زوال کا باعث بھی بنا۔

سڈنی یونیورسٹی کے شعبہ ارضیات کے ایک محقق ڈین پینی نے وضاحت کی کہ ’انگکور کے میدانی علاقے ایک سلطنت کے پھلنے پھولنے کے لیے مثالی ہیں۔‘

انھوں نے انگکور کا وسیع مطالعہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’وہاں کافی وسائل ہیں، مثال کے طور پر ٹونلے سیپ جھیل کے قریب چاول کے لیے اچھی مٹی ہے۔ یہ جھیل دنیا کی سب سے زیادہ اندرون ملک ماہی گیری کی پیداوار والے مقامات میں سے ایک ہے جبکہ انگکور خوراک پیدا کرنے والے اس بہت بڑے پیالے کے بالکل شمالی کنارے پر ہے۔ انگکور ان وسائل کی بنیاد پر کامیابی کی طرف بڑھتا چلا گیا۔‘

سنہ 1950 اور 60 کی دہائیوں میں فرانسیسی ماہر آثار قدیمہ برنارڈ فلپ گروسلیئر نے انگکور کے قدیم شہروں کی ترتیب کو جاننے اور اس کی از سر نو تعمیر کے لیے اس شہر کا فضائی جائزہ لیا۔ اس سے انھیں اس شہر کی وسعت اور اس کے پانی کے وسیع نظام کی پیچیدگی کا پتا چلا اور اس سے متاثر ہوکر انھوں نے انگکور کو ’ہائیڈرالک سٹی‘ یعنی آبی نظام والے شہر کا نام دیا۔

تب سے ماہرین آثار قدیمہ نے پانی کے نیٹ ورک اور اس کے اہم کردار پر وسیع تحقیق کی ہے۔ سنہ 2012 میں ہائیڈرالک نظام کی اصل حدود کا انکشاف ہوا جو کہ 1,000 مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے۔  

فضا سے لیزر سکیننگ ٹیکنالوجی (LiDAR) کے ذریعے ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر ڈیمین ایوانز نے اس کا پتا چلایا۔ 

ڈاکٹر ایوانز نے کہا کہ ’پزل کے گمشدہ ٹکڑے تیزی سے توجہ میں آنے لگے۔ ہم اب ایک کاغذ پر کام کر رہے ہیں جو انگکور کا حتمی نقشہ ہے اور اصل تصویر دکھاتا ہے، اس میں ہائیڈرالک نظام دکھایا گیا ہے جو کہ سلطنت کی کامیابی کے رازوں میں سے ایک تھا۔‘

انگکور واٹ

اس وسیع سائز کا شہر بنانے کے لیے انسانی ہاتھوں سے بنائی جانے والی نہریں انتہائی اہمیت کی حامل تھیں جو کہ فنوم کولن سے انگکور کے میدانی علاقوں تک پانی کو لانے کے لیے بنائی گئی تھیں۔ ان نہروں کا استعمال اندازاً ایک کروڑ ریت کے پتھر کی اینٹوں کو منتقل کرنے کے لیے کیا گیا تھا اور ہر ایک اینٹ کا وزن 1,500 کلوگرام تھا جس سے انگکور کی تعمیر ہوئی تھی۔

شہر کی آبادی، زراعت اور مویشیوں کو سہارا دینے کے لیے مون سون کے موسم میں سال بھر پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ یہ ہائیڈرالک نظام ان بنیادی ضرورتوں کو پورا کرتا رہا جس نے مندروں کو صدیوں سے قائم رکھا ہوا ہے۔ یہاں کی ریتیلی مٹی تنہا ان پتھروں کے وزن کو برداشت کرنے کے لیے کافی نہیں۔

اس لیے ماہر انجینیئروں نے دریافت کر لیا تھا کہ ریت اور پانی کے اختلاط سے مستحکم بنیادیں بنتی ہیں، اس لیے ہر مندر کے ارد گرد اس طرح سے خندقیں کھودی گئی تھیں تاکہ اسے زمینی پانی کی مستقل فراہمی جاری رہے۔ اس نے مندروں کو مستحکم رکھنے اور ان تمام صدیوں کے بعد بھی انھیں ٹوٹنے سے روکنے کے لیے کافی مضبوط بنیادیں فراہم کی ہیں۔

سلطنت کی پوری تاریخ میں یکے بعد دیگرے بادشاہوں نے انگکور کے پیچیدہ پانی کے نیٹ ورک کو فروغ دیا، بحال کیا اور اسے بہتر بنایا۔ ان میں نہروں، کھائیوں، بیریز (آبی ذخائر) کا ایک متاثر کن جال شامل ہے۔

’ویسٹ بیرے‘ قدیم ترین اور انسانوں کا بنایا ہوا سب سے بڑا ڈھانچہ ہے جسے خلا سے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ 7.8 کلومیٹر لمبا اور 2.1 کلومیٹر چوڑا ہے جسے پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے بھی بنایا گیا تھا۔

پینی نے کہا کہ ’انگکور کا ہائیڈرالک نظام اپنے پیمانے کی وجہ سے بہت منفرد ہے۔ پانی کے واضح انتظام کے نظام والے تاریخی شہروں کی بہت سی مثالیں ہیں لیکن کو اس سطح کا نہیں۔ مثال کے طور پر اتنے زیادہ آبی ذخائر کہیں نظر نہیں آتے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’ویسٹ بیرے میں پانی کی مقدار کو رکھنے کی ناقابل یقین حد تک صلاحیت نظر آتی ہے۔ جب اسے بنایا گا تھا بہت سے یورپی شہر اس کے اندر آرام سے سما سکتے تھے۔ یہ ذہن کو ہلا دینے والا ہے، یہ ایک سمندر کی طرح ہے۔‘

بہرحال اگرچہ پانی نے ہی انگکور سلطنت کے عروج میں حصہ ڈالا تھا لیکن یہ پانی ہی تھا جس نے اس کے خاتمے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

پینی نے کہا کہ ’یہ واضح ہے کہ پانی کے انتظام کا نیٹ ورک شہر کی ترقی میں واقعی اہم تھا اور یہ اس کی دولت اور طاقت کا باعث بنا لیکن جیسے جیسے یہ زیادہ پیچیدہ، بڑا اور مزید بڑا ہوتا گیا یہ شہر کے لیے کمزوری بن گيا۔‘

انگکور واٹ

تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ 14ویں صدی کے اواخر اور 15ویں صدی کے اوائل میں آب و ہوا میں ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہوئیں جس کے سبب مون سون کی طویل بارشوں کے بعد شدید خشک سالی ہونے لگی۔ آب و ہوا کی ان تبدیلیوں نے پانی کے انتظام کے نیٹ ورک کو متاثر کیا جو کہ طاقتور سلطنت کے حتمی زوال کی وجوہات میں شامل تھا۔

پینی نے کہا کہ ’پورا شہر موسم کی ان بڑی تبدیلیوں کی زد میں آیا۔ نیٹ ورک کے پیمانے اور اس پر باہمی انحصار کا مطلب تھا کہ خشک سالی کے سبب لوگوں کو اس سے مطابقت رکھنے کے لیے اسے بدلنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور جس سال زیادہ پانی برسا اس سے نمٹنے کے لیے بھی انھیں تبدیلی کی ضرورت پیش آئی جس سے نیٹ ورک ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا اور یہ ناقابل استعمال ہو گیا۔‘

مزید تحقیق سے اندازہ ہوتا ہے کہ موسموں کی تبدیلی سمیت ہائیڈرالک سسٹم کی خرابی اور پڑوسی سیامی لوگوں کی جانب سے حملوں کے باعث دارالحکومت کو جنوب میں اوڈونگ منتقل کرنا پڑا۔ 

ڈاکٹر ڈیمیان کہتے ہیں کہ ’تاریخ کی کتابیں بتاتی ہیں کہ انگکور کا اختتام 1431 میں سیامی لوگوں کے حملوں کے باعث ہوا مگر مجھے نہیں لگتا کہ ایسا ہوا۔ ہمارے پاس موجود ثبوتوں سے پتا چلتا ہے کہ یہ زیادہ طویل مدت میں ہوا تھا۔ بڑے قحطوں کے باعث دباؤ، پانی کے نظام کی تباہی، سیامی لوگوں کے مسلسل حملے اور بحری راستوں کے بڑھنے سمیت تمام چیزوں نے اس میں کردار ادا کیا تھا۔‘

مگر جب انگکور لاوارث ہو گیا تو فطرت نے یہاں واپس اپنی جگہ بنا لی۔ مقامی افراد ان قدیم یادگاروں سے واقف تھے مگر جنگل نے انھیں سنہ 1860 تک اپنے اندر چھپائے رکھا جب فرانسیسی مہم جو ہینری موہوت نے انھیں ’دوبارہ دریافت‘ کیا۔ یہاں سے بحالی کے زبردست منصوبوں کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہیں۔ 

گذشتہ دو دہائیوں میں کمبوڈیا میں انگکور واٹ آرکیالوجیکل پارک دیکھنے کے لیے سیاحوں کی آمد میں اضافہ ہوا ہے۔

سنہ 2019 میں 22 لاکھ لوگوں نے اس مقام کا دورہ کیا۔ ہوٹلوں اور ریستورانوں سمیت سیاحوں کی تعداد میں اضافے سے پانی کی طلب میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے پانی کی فراہمی میں کمی آئی ہے۔ چونکہ یہ مندر کھڑے رہنے کے لیے زیرِ زمین پانی کی مسلسل فراہمی پر منحصر ہیں اس لیے یونیسکو کی عالمی ورثے کی فہرست میں شامل اس سائٹ کے تحفظ کے حوالے سے سنگین خدشات نے جنم لیا۔ 

انگکور واٹ

پانی کی طلب میں اضافے کے ساتھ ساتھ سنہ 2009 سے 2011 کے درمیان مون سون کے موسموں میں شدید سیلابی صورتحال بھی پیدا ہوئی جس کی وجہ سے اس قدیم آبی نظام کی بھرپور بحالی کا کام شروع کیا گیا۔ 

ایک گیسٹ ہاؤس کی مالک سوچیاتا ہینگ نے سنہ 2011 کے سیلاب کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس سے بہت زیادہ تباہی آئی تھی۔ فصلیں تباہ ہوئیں، لوگوں کو گھر خالی کرنے پڑے اور پانی میرے گیسٹ ہاؤس میں آ گیا۔ یہ تباہ کن تھا۔‘

یہ سیلاب اس صوبے میں 50 برسوں میں آنے والا بدترین سیلاب تھا۔ 

انگکور سائٹ کے تحفظ اور انتظام کی ذمہ دار اپسرا نیشنل اتھارٹی کی زیرِ سربراہی اس بحالی پراجیکٹ میں انگکور تھوم کی 12 کلومیٹر طویل آبی فصیل اور 10 ویں صدی کے شاہی حمام سراہ سرانگ سمیت کئی آبی گزرگاہیں اور ہائیڈرالک سسٹم بحال کیے گئے ہیں۔

ان کوششوں کی وجہ سے سیاحوں کی تعداد میں اضافے کے باعث پیدا ہونے والی پانی کی قلت سے نمٹنے میں اور سنہ 2009 سے 2011 کے درمیان صوبے میں آنے والے سیلابوں کو دوبارہ آنے سے روکنے میں بھی مدد ملی ہے۔ 

اس کا مطلب ہے کہ صدیوں پرانا وسیع و عریض یہ نظام آج بھی مسلسل پانی فراہم کر رہا ہے، تباہ کن سیلابوں کو روک رہا ہے اور انگکور کے مقدس مندروں کو وہ بنیادیں فراہم کر رہا ہے جو اسے مستقبل میں بھی قائم رکھیں گے۔ 

ڈاکٹر ایوانز نے کہا کہ ’آبی نظام کی بحالی سے آبپاشی کے لیے پانی دستیاب ہوتا ہے چنانچہ یہ مندروں کے استحکام کے ساتھ ساتھ آج کے زرعی لینڈ سکیپ کا بھی حصہ بن گئے ہیں۔ یہ حیران کن ہے کہ یہ آبی نظام اب بھی خدمت کر رہا ہے۔‘ 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments