مارٹن لوتھر، معاہدہ ویسٹ فیلیا اور جی سیون


قرون وسطی کا دور تھا، عام لوگوں کی زندگی مشکل سہی مگر جیسے تیسے گزر رہی تھی، یورپ میں بادشاہ اور چرچ مل کر امن کے شادیانے بجا رہے تھے۔ بیماریوں اور ناگہانی آفات نے صرف غریبوں کا گھر دیکھ لیا تھا۔ بادشاہ ہوں یا ریاستوں کے والی ہوں، امراہ ہوں یا پھر چرچ کے پادری، رہی سہی کسر یہ مل کر نکال لیتے تھے۔

تاہم کرنا ایسا ہوا کہ انہی پادریوں میں سے ایک نے بغاوت کردی اور ایک بڑے پمفلٹ کی صورت میں وہ کچھ لکھ ڈالا کہ جس نے شمالی یورپ سے روم تک سب کو ہلا کر دیا۔ چہار سو اس پمفلٹ کی بازگشت سنائی دینی لگی اور اس پادری کو پکڑ کر اس پر مقدمہ چلانے، توہین مذہب کی پاداش میں زندہ جلانے کی باتیں ہونے لگیں۔

یہ واقعہ آج سے ٹھیک پانچ سو پانچ سال اور پانچ دن قبل موجودہ جرمنی کے شہر وٹن برگ میں پیش آیا۔ اس پمفلٹ کو لکھنے والا کوئی اور نہیں بلکہ پروٹسٹنٹ فرقے کا بانی اور تھیولوجی کا پروفیسر ڈاکٹر مارٹن لوتھر تھا۔

مارٹن لوتھر نے اپنے معروف 95 تھیسز، جو اصل میں اس کے اعتراضات اور احتجاج کا مجموعہ تھے، مائنز شہر کے آرچ بشپ کے توسط سے پاپائے روم کو پیش کیے ۔ تھیسز کی زبان لاطینی تھی تاہم اس نے ان تھیسز کو اس نے نہایت چالاکی کے ساتھ جرمن زبان میں بھی عام لوگوں کی عدالت میں پیش کر دیا۔ پرنٹنگ پریس کی ایجاد نے اس عمل پر سونے پر سہاگے کا کام کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ اعتراضات عام لوگوں کی اپنی زبان میں ان کی دسترس میں تھے۔

ان دنوں چرچ اور انجیل کی زبان لاطینی تھی اور پاپائے روم بھی اسی زبان میں مخاطب ہوتا ہے۔ اسی لیے پوپ کے کہے کو حرف آخر سمجھا جاتا تھا۔ مارٹن لوتھر نے کہنا تھا کہ گناہ اور ثواب کا تعلق براہ راست خدا اور مخلوق کے درمیان ہوتا ہے۔ لہذا چرچ ( پوپ ) کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ پیسے لے کر کسی کے گناہ معاف کر دیے جائیں۔ اس بات پر بھی انہیں اعتراض تھا کہ صرف پادریوں کو ہی انجیل کو پڑھنے اور اس کی تعلیم دینے کی اجازت تھی۔

ان اعتراضات نے یورپ بھر میں انقلاب برپا کر دیا۔ عام لوگوں میں یہ جرآت پیدا ہوئی کہ وہ بھی ناپسندیدہ اور غلط توجیحات پر سوال اٹھائیں۔ دوسری جانب مارٹن لوتھر نے اپنے اعتراضات کو عوامی زبان دینے کے لیے میوزک، تھیٹر سمیت تمام میڈیمز کا سہارا لیا اور ساتھ ساتھ قرب و جوار اور دور دراز کے والیاں ریاست، امراہ کو خطوط بھی لکھے اور ان کے علاقوں کے دورے کر کے عام لوگوں سے بھی براہ راست رابطہ رکھا۔

دیکھتے ہی دیکھتے عام لوگوں نے اس کی آواز پر لبیک کہنا شروع کر دیا اور یوں ایک احتجاجی طبقہ وجود میں آیا جسے عیسائیت میں پروٹسٹنٹ فرقہ کہا جاتا ہے۔

عیسائیت کے دونوں فرقوں کے ماننے والوں کے درمیان یہ کشمکش تقریباً ایک سو سال جاری اور بعد ازاں یہ ایک خون ریز جنگ کی شکل اختیار کر گئی۔ 1618 سے 1648 تک جاری رہنے والی یہ جنگ یورپ کے بیشتر علاقوں میں لڑی گئی تاہم اس کا مرکز موجود جرمنی اور اس کے قرب و جوار کے علاقے

علاقے تھے۔ اس جنگ میں فرانس، اسپین، سویڈن کے ممالک سمیت کئی چھوٹی بڑی ریاستوں کی افواج اور عام لوگوں نے شرکت کی۔ ایک اندازے کے مطابق اس جنگ کے نتیجے میں پچاس سے اسی لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ تباہ کاریوں کے پیش نظر دونوں فرقوں نے اس نہ ختم ہونے والی جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کا آغاز کیا ہو دو سال تک جاری رہے معاہدے پر 1648 کو جرمنی کے شہر منسٹر میں دستخط ہوئے جسے معاہدہ ویسٹ فیلیا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

جی سیون ممالک کے وزرائے خارجہ کے اہم اجلاس کے میزبان کے طور جرمنی نے منسٹر شہر کے اسی ٹاؤن ہال کا انتخاب کیا گیا جہاں آج سے 374 سال قبل امن معاہدے کے لئے مذاکرات ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).