عوام جو ذہن بنا لیں وہ راتوں رات تبدیل نہیں ہوتا


تاریخ کی معمولی سمجھ بوجھ رکھنے شخص والا بھی جانتا ہے کہ جب ایک فضا بن جائے، عوام اپنا ذہن بنا لیں یا وہ کسی ایک خاص شخص کو اپنا رہنما مان لیں تو مخالفت میں آپ دلائل کے ڈھیر لگا دیں، فرانزک سائنسدان بن کے ٹل کا زور لگا لیں، بات نہیں بنتی۔ عام آدمی آپ کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتا۔ عوام جو ذہن بنا لیں وہ چند ’عقل مندوں‘ کے دلائل سے راتوں رات تبدیل نہیں ہوتا۔ عمران کو کوئی گولی لگی یا نہیں، لگی تو کتنی لگیں، خود ماریں یا کسی اور نے چلائیں، ان سب باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پاکستانیوں کی اکثریت اس وقت ذہن بنا چکی ہے کہ ملک پر امپورٹڈ حکومت مسلط ہے اور یہ کہ اس ٹولے کو چند طاقتوروں نے ہی ان پر مسلط کیا ہے۔ اور یہ کہ یہ سب اکٹھے ہو کر عمران کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ چنانچہ عوام کی ہمدردی اس ایک شخص کے ساتھ وابستہ ہو چکی۔

سال 2007 میں مشرف کے خلاف بھی فضا بن گئی تھی۔ قوم نے جب اسے ہٹانے کا ذہن بنا لیا تو نہ امریکی حمایت کام آئی نہ فوج کی تائید۔ مجھے یاد ہے آخری دنوں میں کور کمانڈرز کانفرنس میں فوجی صدر کی غیر متزلزل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے شرپسندوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا تھا۔ لیکن کیا ہوا؟ اس دور میں ہمارے جو دوست اہم عہدوں پر فائز تھے، اس بات کی گواہی دیں گے کہ اس وقت حکومت کی حمایت میں جو چال بھی چلی جاتی تھی وہ الٹی پڑتی تھی۔ آج عمران کے باب میں یہی ہو رہا ہے۔

چالیس سال پہلے بھٹو کے خلاف امریکی ایما اور مذہب کے نام پر ایک موثر تحریک چلی تھی۔ لیکن عوام کی ایک بڑی تعداد اس کے باوجود بھٹو کے ساتھ کھڑی رہی جو اس کے تمام تر شخصی نقائص اور ناکامیوں کے باوجود اسے ہی اپنا رہنما مانتے تھے۔ اگر دوبارہ الیکشن ہوتے تو بھٹو آسانی سے جیت جاتا۔ پی این اے کی تحریک زوروں پر تھی تو بھی پیپلز پارٹی کے جیالوں کو جب بھٹو کی ہزار خرابیاں گنوائی جاتیں تو وہ کئی ایک کو سن کر لاجواب ہو جاتے۔ جواب مگر ان کا یہی ہوتا، ”ساڈا پٹو شیر اے“  (ہمارا بھٹو شیر ہے)۔

عمران کو اگر منظر سے ہٹانا لازم ہے تو اس کے ساتھ وہی کرنا ہو گا جو بھٹو کے ساتھ کیا گیا تھا۔ تاہم یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ پینتالیس سال قبل موت کے گھاٹ اتارا گیا بھٹو آج بھی زندہ ہوتا اگر معاملہ ’ساڈا پٹو شیر اے‘ سے ’جئے بھٹو‘ تک نہ پہنچ جاتا۔

آج آپ پاکستانیوں کو عمران خان کی لاکھ خامیاں بتائیں، فرح گوگی، بزدار، توشہ خانہ۔ گولیوں کا فرانزک کر کے ایک ایک بات کھول کر رکھ دیں، جواب ایک ہی ملے گا۔
کہنا صرف یہ تھا کہ اگر آپ کو عمران پسند نہیں تو فی الحال صبر شکر سے کام لیں۔ باقی ساری کہانی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments