حضرت خضر علیہ السلام


حضرت ابراہیم بن ادہم ایک دن دریا کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے۔ کہ ان کا ایک سابقہ مصاحب وہاں سے گزرا۔ آپ کبھی عظیم الشان سلطنت کے بادشاہ تھے۔ مگر نور حق کی شمع نے آپ کے قلب مضطر پر جب اپنی تجلی ڈالی تو آپ کے باطن کی کایا پلٹ گئی۔ وہ ہی دنیا جو کبھی مرغوب ہوتی تھی۔ اب اس کی حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی دل اس دنیا سے ایسا اچاٹ ہوا کہ دنیا کی ہما ہمی سے دوری اور کنارہ کشی اختیار کر لی، تو میں عرض کر رہا تھا۔ آپ کے سابقہ مصاحب نے جب آپ کی گدڑی پوشی اور فقیرانہ کیفیت دیکھی تو اس کے دل میں آپ کے بارے میں وسوسہ پیدا ہواء آپ کا دل تو نور مبین کی روشنی کی معرفت سے قلب صمیم بن چکا تھا۔ آپ نے نور بصیرت سے اس کی باطنی کیفیت کا ادراک فرما لیا۔

پھر آپ نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی سوئی دریا میں ڈال دی اور مچھلیوں سے مخاطب ہو کر فرمایا، میری سوئی لے کر آؤ آپ کی بات سن کثیر تعداد میں مچھلیاں اپنے منہ میں سونے کی سوئیاں لے کر دریا سے برآمد ہوئیں۔ آپ نے فرمایا مجھ کو تو اپنی سوئی واپس چاہیے، ان کی بات سن کر پھر ایک مچھلی ان کی سوئی لے آئی، اس کے بعد آپ نے اپنے سابقہ مصاحب یعنی امیر کو اپنے قریب بلا لیا اور اس کو کہا دنیاوی حکومت کی بجائے روحانیت طلب کیا کرو کیونکہ دنیا کی حقیقت اللہ تبارک و تعالی کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں، آپ کی یہ کرامت دیکھ کر اس امیر نے آپ سے اپنی بدگمانی پر معذرت کی اور آپ کے ہاتھ پر سچے دل سے توبہ کر کے عبادت الہی میں مشغول ہو گیا۔

اب یہاں میں اپنے قارئین کی نذر ایک بات کرتا چلوں کہ بزرگوں کی کرامات ہوتی ہیں اور انبیاء کرام کے معجزات، یہ سب کچھ عطا ربی ہوتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالی جس کو جو چاہے عطا کر دے نہ اس کے خزانوں میں کمی ہوتی ہے۔ نہ کسی کی مجال اس سے اس بابت کچھ پوچھ سکے، اولیاء کرام عبادالرحمن ہوتے ہیں۔ وہ اعلی مراتب تک ایسے ہی نہیں پہنچ جاتے اس کے پیچھے ان کے مجاہدات اور عبادات ہوتے ہیں اور اس لئے بھی کہ وہ اپنے آپ کو ریاضت کی بھٹی میں تپا کر کندن کر لیتے ہیں۔

جب کوئی اللہ کا بن جاتا ہے تو اس کے بگڑے ہوئے کام سنوارنے کی ذمہ داری اللہ تعالی اپنے ذمہ لے لیتے ہیں۔ اس تمہید کے بعد آج میں اپنے موضوع کی طرف آتا ہوں، آج میرا موضوع سخن جو ہستی ہے۔ ان کا نام مبارک حضرت خضر ہے۔ آپ کی ہستی کے بارے میں تفصیلات سے کماحقہ آگہی بہت کم اشخاص کو ہے۔ ایک قول ہے کہ آپ بنی اسرائیل میں سے ہیں۔ اور بعض روایات میں ہے کہ آپ شہزادے ہیں۔ آپ کی بابت یہ بات پایہ ثبوت تک ہے کہ یہ ولی کامل ہیں۔ ایک اختلافی روایات ہے کہ آپ شاید نبی ہیں۔ مگر یہ بات صرف قیاس ہے۔ حقیقت نہیں، واللہ و اعلم بالصواب۔

آپ کے لقب خضر کے بارے میں یہ بات بیان کی جاتی ہے کہ آپ جس جگہ بیٹھیں یا نماز پڑھیں اس جگہ اگر گھاس خشک ہو تو سرسبز ہو جاتی ہے۔ آپ کا زمانہ ذوالقرنین بادشاہ کا ہے جن کو سکندر ذوالقرنین بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا یعنی حضرت ذوالقرنین کا ذکر قرآن کریم کی سورہ کہف میں آیا ہے۔ بعض راوی یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ حضرت ذوالقرنین کے خالہ کے بیٹے تھے۔ حضرت ذوالقرنین نے سکندریہ شہر بسایا اور اس کا نام اپنے نام پر رکھا، حضرت خضر ان کے یعنی حضرت ذوالقرنین کے وزیر تھے۔

دنیا میں 4 ایسے بادشاہ ہوئے ہیں جنہوں نے تمام دنیا پر حکومت کی تھی۔ ان میں سے 2 مومن ہوئے جن میں ایک حضرت ذوالقرنین تھے اور دوسرے حضرت سلیمان جو کہ بادشاہ ہونے کے ساتھ اللہ تبارک و تعالی کے برگزیدہ نبی حضرت داود کے بیٹے اور خود جلیل القدر نبی تھے۔ آپ نے تمام دنیا پر حکومت کی مگر اللہ تعالی کی آپ پر یہ بھی عطا ء تھی کہ آپ کی حکومت انسانوں کے ساتھ جنوں پر بھی تھی اور ان کے ساتھ ساتھ اللہ پاک نے پرندوں اور ہوا پر بھی آپ کو حکومت عطا ء فرمائی تھی اور آپ کے تخت کو آپ کے حسب حکم ہوا جدھر آپ حکم دیتے اٹھا کر لے جاتی تھی۔ الغرض جیسا کہ یہ مذکورہ بالا دونوں بادشاہ مومنین میں تھے۔ بعین ہی 2 کافر بادشاہ ہوئے جنہوں نے تمام دنیا پر حکومت کی تھی۔ ان میں سے ایک نمرود تھا اور دوسرا بخت نصر۔

اب ایک پانچویں بادشاہ اس نبی آخر الزماں ﷺ کی امت سے ہونے والے ہیں جو تمام روئے زمین پر حکومت کریں گے اور ان کا نام مبارک حضرت امام مہدی ہو گا اور یہ بہت بڑی شان کے حامل ہوں گے۔ اب یہاں یہ ذکر کرتا چلوں کہ حضرت ذوالقرنین کے بارے میں حضرت مولا علی کرم اللہ وجہ نے فرمایا تھا کہ حضرت ذوالقرنین نہ نبی تھے۔ نہ فرشتے مگر اللہ جل شانہ سے محبت کرنے والے بندے تھے اور اللہ کا خصوصی فضل تھا۔ ان پر کہ اللہ پاک نے ان کو اپنا محبوب بنا لیا تھا اور ہر وہ اسباب جو بادشاہوں کو اپنی حکومت قائم رکھنے کے لیے اور نئے ممالک کے فتح کرنے کے لئے درکار ہوتے ہیں وہ تمام وسائل اللہ پاک نے ان کو عطا ء فرما دیے تھے۔

حضرت ذوالقرنین نے پرانی کتابوں میں یہ پڑھا تھا کہ اولاد سام میں ایک شخص ہو گا جو کہ چشمہ حیات جس کو آب حیات کہتے ہیں۔ اس کا پانی پئے گا تو اللہ پاک اس کو عمر جاودانی عطاء فرما دیں گے۔ یعنی اس کو موت نہ آئے گی تو حضرت خضر کو اپنے ہمراہ لے کر حضرت ذوالقرنین مغرب کو روانہ ہو گئے۔ واقعہ اصل میں یہ ہواء تھا کہ حضرت ذوالقرنین نے ایک دن اپنے دربار میں اہل علم اور حکماء سے پوچھا کہ کیا کچھ ایسا ہو سکتا ہے جس تم نے کوئی ایسا نسخہ دیکھا ہے کہ جس کے استعمال کرنے سے آدمی کی عمر لمبی ہو جائے تو ان حکماء سے ایک عمر رسیدہ حکیم نے بتایا میں نے ایک کتاب جس کا نام وصیت نامہ آدم ہے۔

اس میں لکھا دیکھا ہے کہ اللہ نے ایک چشمہ جانب کوہ قاف ایسا پیدا فرمایا ہے کہ جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید، برف سے زیادہ ٹھنڈا، شہد سے زیادہ شیریں یعنی میٹھا مکھن سے زیادہ نرم اور مشک سے زیادہ خوشبودار ہے۔ اس پانی کو جو پی لے گا۔ اس کو قیامت تک زندگی ملے گی۔ یہ باتیں سن کر حضرت ذوالقرنین کے دل میں شوق پیدا ہواء اس کے بعد حضرت ذوالقرنین نے ان علماء اور حکماء کو فرمایا کہ آپ بھی ہمارے ہمراہ چلیں، پھر ان حکماء سے پوچھا کہ آپ بتائیں کہ اس سفر میں جو دشوار گزار بھی ہو گا ہم کون سی سواری استعمال کریں جو چست و چالاک ہو۔

انہوں نے عرض کیا کہ ایسی اچھی نسل کی گھوڑی ہونی چاہیے جس نے بچہ نہ جنا ہو۔ یہ بات سن کر حضرت ذوالقرنین نے ایسی 1000 گھوڑیاں منگوائیں اور اس کے بعد حضرت ذوالقرنین نے اپنے مصاحبین سے پوچھا کہ اگر ہم وہاں پہنچ گئے اور اس جگہ اندھیرا ہواء تو اس کا کیا ہو، ان لوگوں نے عرض کیا کہ آپ اپنے ساتھ لعل و جواہر رکھیں جن کی روشنی راستہ دکھائے گی تو حکم دیا کہ خزانہ عامرہ سے اچھی قسم کے لعل و جواہر لائے جائیں پھر آنکھوں کو خیرہ کرنے والی روشنی والے لعل و جواہر حضرت خضر کے حوالے کیے اور ان کو قافلے کا رہبر کیا کیوں کہ بادشاہ ان کی ذہانت اور علم و تقوی کا بہت قائل تھا۔

پھر حضرت ذوالقرنین نے تخت و تاج ایک دانا اور وفا دار ملازم کے سپرد 12 سال کے وعدے پر کیا اور یوں یہ قافلہ رخصت ہوا ء اپنی منزل کی جانب، چلتے چلتے جب کوہ قاف پہنچے تو راستہ بھول کر ایک سال تک ایک جگہ سرگرداں اور پریشان رہے، یعنی بھول بھلیوں میں پھنسے رہے کہ سمجھ نہیں آتی تھی کہ منزل تک کیسے پہنچا جائے، پھر ایک دن حضرت خضر قافلے سے جدا ہو کر آب حیات کے چشمے کو تلاش کرتے ہوئے آگے روانہ ہوئے تو مغرب کے وقت ان کو سورج غروب کے وقت ایسا نظر آیا جیسے کسی چشمے میں ڈوبتا ہے جس طرح سمندر میں سفر کرنے والوں کو نظر آتا ہے۔

آپ حیران ہو کر آگے بڑھے تو اندھیرا اتنا تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔ آپ کو یکایک خیال آیا تو آپ نے اپنی جیب سے قیمتی لعل و جواہر نکالا جس کی روشنی نے اطراف و کنار کو روشن کر دیا، جب اندھیر ا چھٹا تو آپ کو اللہ پاک کی کرم نوازی سے چشمہ آب حیات نظر آیا جو اپنی تمام نشانیوں کے ساتھ موجود تھا۔ آپ نے اس پانی کو لے کر وضو کیا اور کچھ پانی پی لیا، اللہ کے کرم سے اس پانی کے پی لینے سے آپ کی عمر اللہ پاک نے دراز فرما دی۔ (جاری ہے۔ ) ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments