افغانستان: طالبان نے کابل کے پارکوں میں خواتین کے داخلے پر پابندی لگا دی
افغانستان میں طالبان نے دارالحکومت کابل کے تمام پارکوں میں خواتین کے داخلے پر پابندی لگا دی ہے جس سے خواتین گھر سے باہر کی زندگی سے مزید دور ہو گئی ہیں۔
طالبان حکومت کی وزارتِ امر بالمعروف و نہی المنکر کے ترجمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کابل کے پارکوں کی انتظامیہ کو بتا دیا گیا ہے کہ وہ عورتوں کو پارکوں میں آنے کی اجازت نہ دیں۔
طالبان کہتے ہیں کہ شہر کے پارکوں میں اسلامی قوانین پر عمل نہیں کیا جا رہا تھا۔
اگست 2021 میں جب سے متشدد خیالات کے حامل طالبان نے اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا تھا ملک میں خواتین کے حقوق اور ان کی آزادی پر شدید پابندیاں لگا دی گئی تھیں۔
قوانین کے مطابق خواتین کو ہفتے کے تین دن (اتوار، پیر، منگل) کو پارکوں میں آنے کی اجازت دی گئی تھی جبکہ ہفتے کے دیگر چار دن مردوں کے لیے مخصوص کر دیے گئے تھے۔
لیکن پارکوں کی انتظامیہ کو دی جانے والی نئی ہدایات کے مطابق اب خواتین کو مرد رشتہ داروں کے ہمراہ بھی پارکوں میں آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
ترجمان، محمد کیف کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نے (نئے اقدامات) اس لیے کیے ہیں کہ ہماری کوششوں کے باوجود گزشتہ 15 ماہ کے دوران لوگ شرعی قوانین کا احترام نہ کرتے ہوئے پارکوں میں آتے رہے ہیں۔‘
’اس پابندی کا اطلاق تمام خواتین پر ہوگا، چاہے ان کے ساتھ کوئی محرم موجود ہو یا نہ ہو۔‘
نئی پابندی کا دائرہ کار ایسے تفریحی پارکوں تک بڑھا دیا گیا جہاں لوگ اپنے بچوں کے ساتھ ڈاجم کار اور بڑے جھولوں ( فیرس وھیل) وغیرہ سے لطف اندوز ہونے آتے ہیں۔
لگتا ہے کہ فی الحال یہ پابندی صرف کابل کے پارکوں پر لگائی گئی ہے لیکن ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ آخر کار اس قسم کی پابندیوں کا اطلاق پورے ملک میں کر دیا جاتا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے نمائندے نے ایک ایسی ہی خاتون سے بات کی جو ایک پارک کے گیٹ سے اجازت نہ ملنے کے بعد مایوس لوٹ رہی تھیں۔
پکڑے جانے کے خوف سے اپنا آدھا نام بتانے والی خاتون، معصومہ کا کہنا تھا کہ ’اگر کوئی خاتون بچوں کے ساتھ آتی ہے تو اسے ہر صورت پارک میں آنے کی اجازت ہونا چاہیے، کیونکہ ان بچوں نے اپنی زندگی میں کوئی اچھی چیز نہیں دیکھی ہے۔۔۔ بچوں کو تو پارک میں کھیلنے اور لطف اٹھانے کی اجازت ہونی چاہیے۔‘
طالبان کے ماضی دور کی طرح اس مرتبہ بھی افغانستان میں خواتین کی آزادی پر قدغنوں کا سلسلہ جاری ہے اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والی کئی خواتین کو مار پیٹ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
کسی مرد کے بغیر خواتین کو ملک کے اندر بھی کسی طویل سفر پر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی اور طالبان کے اس دعوے کے باوجود کہ انھوں نے لڑکیوں کے سکول جانے پر کوئی پابندی نہیں لگائی، ملک کے بیشتر علاقوں میں بڑی عمر کی لڑکیاں ابھی تک سکولوں میں واپس نہیں آئی ہیں۔
اگرچہ صحت اور تعلیم کے شعبوں سے تعلق رکھنے والی خواتین میں سے کچھ ابھی تک کام پر آ رہی ہیں، لیکن جب سے طالبان نے اقتدار سنبھالا ہے اکثر خواتین سے کہہ دیا گیا ہے کہ وہ کام پر نہ جائیں۔
مئی میں طالبان کی جانب سے ایک فتویٰ بھی جاری کیا گیا تھا جس میں خواتین کے لیے چہرے کا پردہ بھی لازمی قرار دیا گیا تھا، تاہم شہری علاقوں میں اب بھی ایسی خواتین دکھائی دیتی ہیں جو اس حکم پر عمل نہیں کرتیں۔
طالبان کئی مرتبہ اس عہد کا اظہار کر چکے ہیں کہ 1990 کے عشرے کے بر عکس، اس مرتبہ خواتین کو دبانے کے لیے کسی قسم کی متشدد کارروائیاں نہیں کی جائیں گی۔
طالبان کے مطابق اب وہ خوتین کے ان حقوق کا احترام کرتے ہیں جو شریعت نے انھیں دیئے ہیں اور وہ خواتین کی تعلیم اور روزگار کے خلاف نہیں ہیں۔
دوسری جانب مغربی سفارتکاروں نے بھی طالبان کو بتایا ہے کہ شدید معاشی بحران کے شکار افغانستان کو امداد کی بحالی کا انحصار اس پر ہے کہ ملک میں خواتین سے سلوک میں بہتری آئی ہے یا نہیں۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).