ماحولیاتی تبدیلی اور کوپ 27 کانفرنس


عالمی ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے دنیا کی قدیم تہذیب مصر میں شیخ الشرم انٹرنیشنل سینٹر میں گزشتہ کچھ دنوں سے دو سو کے قریب ممالک کی سیاسی قیادتوں سمیت، پالیسی ساز ادارے، معاشی اور ماحولیاتی ماہر سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی، گلوبل وارمنگ، خوراک کی کمی، توانائی کے مسائل، صحت کے مسائل سے بچنے کے لئے 6 نومبر سے شروع ہونے والی اس کانفرنس میں دنیا بھر کے سیاسی رہنما ان مسائل پر سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں کے قدرتی آفات سے کیسے بچا جائے، اور آخر اس تباہی کا کون ذمے دار ہے، دیکھا جائے تو زیادہ تر امیر ممالک اور دولتمند قومیں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ذمے دار ہیں، اور ترقی پذیر ممالک موسمیاتی تبدیلیوں کا زیادہ شکار ہو رہے ہیں۔

پاکستان میں حالیہ سیلاب اور اور ایشیا میں گرمی کی لہروں یا سمندر کے بڑھتے ہوئے پانی سے جزیروں کو لاحق خطرات سامنے آئے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کا یہ کہنا ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے میں امیر ممالک سے ملنے والی رقم موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے خرچ کی جائے۔

اکنامک کو آپریشن اور ڈیویلپمنٹ تنظیم کے مطابق امیر ممالک نے ترقی پذیر ممالک کے فنڈز میں اضافہ کیا ہے، یہ رقم 2020 میں 83 بلین ڈالرز مقرر کی گئی تھی۔ پھر بھی یہ رقم 100 بلین ڈالر کے ہدف سے کچھ کم ہے۔

ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے دنیا بھر میں خوراک کی کمی کا بحران پیدا ہوا ہے، کیوں کے گلوبل وارمنگ سے نہ صرف انسانی آبادیاں سخت متاثر ہو رہی ہیں بلکہ عالمی منڈیوں کو بھی کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے۔ حال ہی میں پاکستان میں مون سون کے بارشیں ماحولیاتی تبدیلی کا ثبوت ہے۔ پیرس معاہدہ جو 2015 میں ہوا تھا، اس معاہدے کے تحت مسائل کا حل تلاش کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلی کے بڑی وجہ گرین ہاؤس گیسز کا خارج ہونا مانا جاتا ہے۔

اور اس کے علاوہ روس اور یوکرین جنگ کی وجہ سے خوراک کی قلت کا بحران کا دنیا بھر کے ممالک سامنا کر رہے ہیں۔ اور رواں سال کے دوراں افریقہ میں سیلاب اور طوفان کی وجہ سے سیکڑوں لوگ مر گئے۔ کوپ 27 کا مقصد افریقہ سمیت دنیا بھر میں پیدا ہونے والے بحران سے نمٹنے کے لئے اور افریقہ کے غریب ممالک کو اس بحران سے نکالنے کے لئے مصر میں یہ کانفرنس منعقد کی گئی ہے۔ یہ عالمی کانفرنس 6 نومبر کو شروع ہوئے ہے، جو 18 نومبر کو اختتام پذیر ہوگی۔

کوپ 27 میں 192 ممالک کی رکنیت ہے اس اجلاس کا مقصد قدرتی آفات کو روکنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر حکمت عملی کی جائے۔ اور گرین ہاؤسز گیسز کے استعمال کو کم کیا جائے، اور ان کے اثرات کو روکا جائے، جس کی بڑی وجہ پرائیویٹ سیکٹر اور لوکل گورنمنٹ کو پابند بنایا جائے کے وہ اس بحران سے نمٹنے کے لئے تیار رہیں۔ کوئلے، تیل، اور گیس سے آلودگی پھیلانے والے ممالک ماحول دوست پروگرامز کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔ اس کانفرنس میں پانچ نکاتی ایجنڈے پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ جو کہ 2021 میں گلاسگو میں دنیا کے طے پائے گئے تھے۔

دولتمند ممالک اپنے اس کیے گئے وعدے کو پورا کریں گے۔ ان نقاط میں دولتمند ممالک سالانہ 100 بلین امریکی ڈالرز کو پبلک اور پرائیویٹ سطح پر خرچ کریں گے۔ اور اس بجٹ کو برابری کے بنیاد پر گرین ہاؤس گیسز کے اثرات کو کم کرنے میں خرچ کریں گے۔

٭دوسرا ان گیسز کے استعمال سے پیدا ہونے والے اثرات کو 5۔ 1 تک کم کیا جائے گا۔ اور جو ممالک ماحول کو زیادہ آلودہ کرتے ہیں وہ وسط صدی تک اس درجہ حرارت کو صفر تک لے کر جائیں گے۔

٭ان ممالک کو مالی امداد فراہم کرنے کی ضرورت ہے، جو ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں زیادہ متاثر اور خوراک کی قلت کا سامنا اور فوسل فیول کی قیمتوں میں اضافے کو برداشت کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ترقی پذیر ممالک اور ابھرتی ہوئی معیشتیں بڑھتے ہوئے قرضوں کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی سا لاحق خطرات کا سامنا کر رہے ہیں۔

٭دنیا کی بڑی معیشتوں اور مالیاتی اداروں نے، ٹرانسپورٹ، توانائی، میتھین، جنگلات کی کٹائی اور دیگر شعبوں کا احاطہ کرنے والے وعدوں پر عمل کیا جائے گا۔ پہلے گلوبل معاہدہ جو کہ پیرس میں

ہوا، اس پانچ سالہ منصوبے پر عمل درآمد کرنے کے لئے کوپ 27 کو شفاف اور ایماندارانہ عالمی تشخیصی عمل کی ضرورت ہے۔ جس میں نجی شعبے، علاقوں، شہروں، سول سوسائٹی اور نوجوان شامل ہوں گے ۔ کانفرنس میں افریقی ممالک جہ کہ موسمیاتی تبدیلی کے فرنٹ لائن پر ہیں، خراب موسم اور قدرتی آفات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اور اس کے علاوہ خوراک کی کمی، سماجی اور معاشی زندگی میں بھی مصیبتوں کا سامنا کرتے ہیں۔ ورلڈ میٹرولاجیکل آرگنائیزیشن کی شایع کردہ 2019 کی رپورٹ کے مطابق 2019 اور 2021 کے درمیاں صحرا افریقہ میں غذائی قلت کے شکار لوگوں میں 45 فیصد اضافہ ہوا۔

اگر عالمی درجہ حرارت 1 فیصد اور 4 فیصد تک جاتا ہے تو افریقہ کی جی ڈی پی 2 سے 12 فیصد کے درمیاں کمی کا امکان ہے۔ کانفرنس میں اس بات پر بحث کی گئی کہ امیر ممالک زیادہ مقدار میں گرین ہاؤس گیس خارج کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ہے ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں دنیا بھر میں قدرتی آفات کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ جرمن ایلچی مورگن کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اس قدر تیزی سے ہو رے ہیں کہ ان کو روکنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ یہ کافی سنجیدہ معاملہ ہے، اور یہ وقت ہے کہ اس ماحولیاتی تبدیلی کو روکا جائے۔ ماحولیاتی تبدیلی کی وزیر شیری رحمٰن کا کہنا ہے کہ بھیک مانگنے کے لئے دنیا کا چکر لگانا ہو گا، انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ممالک جن کی وجہ سے گلوبل وارمنگ ہوئی ہے، انھیں نہ صرف ادائیگی کرنے ہوگی، پر ذمے داری قبول کرنی ہوگی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ 2030 تک ترقی پذیر ممالک کی نقصان کی مالیاتی ضروریات 290 بلین ڈالر سے 580 بلین ڈالرز تک پہنچ سکتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments