دودھ کی نہر ہے خرافاتی


چائے کی نہر کھودتا فرہاد

کسی ارسطو سے سن لیا کہ چائے اور دودھ دونوں کی افادیت ان کو تنہا پینے میں ہے۔ اب یا چائے چھوڑیں گے یا ارسطو۔

جب سے انگریز نے ہمارے آبا و اجداد کو چائے کی پتی والا نشہ لگایا۔ ہمارے بڑوں نے انگریز کی غلامی سے انکار کا یہ طریقہ ایجاد کیا کہ پیتے ضرور تھے لیکن دودھ میں پتی اور گڑ ڈال کر۔ اس مشروب پر اکثر بالائی کی تہہ بھی جمائی جاتی تاکہ حقیقی آزادی کا مکمل اظہار ممکن ہو بلکہ مزا لیا جاسکتا۔

وقت بدلا۔ طور بدلے۔ ہمارے ابا اماں کے وقت تک دودھ میں بالائی کا رواج ضرور رہا لیکن انہوں نے ادھیڑ عمری کو چھوتے ہی سادہ چائے پر اکتفا کیا اور ابو کیونکہ غالب کی طرح انگریز کے بنائے سسٹم و قوانین کے معترف ہیں وہ گورے سے اظہار یک جہتی کے لئے کالی کافی بھی پیتے ہیں۔

بہر حال ہمیں تو بارہویں جماعت تک اماں نے کبھی چائے یا کافی پینے دی نہ ہی ان سے انس پیدا ہونے دیا۔ روز رات کو گرم دودھ پی کر سوتے اور سمجھتے اسی دودھ کے گرم گلاس سے رنگ گورا ہو گا، سبق یاد ہو گا، امتحان میں اول آئیں گے، دل و دماغ صراط مستقیم پر رہیں گے، ہڈی مضبوط ہوگی اور دشمن کمزور۔

بارہویں جماعت میں مطلوبہ نتائج نہ لانے پر پاکستان کے تعلیمی سسٹم اور دودھ کی افادیت دونوں پر سے ایمان اٹھ گیا۔ ہم نے بچپن کے تعارف کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور رات کو دودھ میں چھپ کر آدھا چمچ پتی ڈالنے لگے۔

انہی دنوں ایک ہم جماعت لڑکی نے بتایا کہ بھینس کا دودھ انسان کو ڈفر بنا دیتا ہے۔ ہمیں یک دم اپنی ساری ناکامیوں کی وجہ سمجھ آ گئی۔

یونیورسٹی میں داخلہ ہوا تو دیکھا کہ ہماری جماعت و کمرے کی ساتھی لڑکیاں سارا دن چائے کا بھرا کپ ہاتھ میں لے کر گھومتیں۔ ہم نے زندگی میں پہلی بار لوٹے اور بالٹی کے سائز کا چائے کا کپ دیکھا۔ بس جیسے لڑکے ایک دوجے کو سگریٹ کی لت لگاتے ہیں۔ ویسے ہی۔

ہمیں بھی پہلے ایک بالٹی نما کپ تحفے میں ملا۔ اس کپ میں چند ایک دن مختلف جگہوں سے فری چائے بھی انڈیلی گئی، بعد میں چائے ادھار ملنے لگی، کب تک چچا کی طرح قرض کی مے پیتے، بالآخر ہم اپنی پتی، خشک دودھ اور چینی کا ڈبہ خرید لائے۔ پھر کیا تھا۔ دو مہینے چائے کی مختلف اقسام پر ریسرچ ہوتی رہی اور طے یہ ہوا کہ ہائی وے پر بنے ڈھابے والے کی چائے کی طرح دودھ پتی کڑھا کے یک جان کر کے ڈبل میٹھے کے ساتھ جو چائے وجود میں آتی ہے وہی اول درجے کی چائے ہے۔

سارا سارا دن چائے کی افادیت پر بات ہوتی، اور ہمیں بتایا جاتا کہ ہاسٹل میں مقیم فلاں لڑکی دن میں 10 کپ چائے پیتی تھی اس بار اسی کی اول پوزیشن آئی۔ ہم خوش ہوئے کہ اب دوائے دماغ ہاتھ آئی ہے، چائے ہمارے اندھیر ذہن کی بتی روشن کرے گی۔ کیمسٹری کے جو فارمولہ دماغ سے سلپ ہونے لگیں گے جھٹ سے ان کو پکڑ کر دماغ کے ڈبے میں ڈال کر تالا لگا کر ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لے گی۔ کرشماتی مشروب کہا کرتے تھے ہم اسے۔

اگرچہ ہم فارمیسی کی ڈگری کر رہے تھے لیکن بغیر تحقیق کے، سنی سنائی حکمت کی باتوں، تھرڈ کلاس ٹوٹکوں اور افواہوں پر یقین کرنا بہت اچھا لگتا تھا جیسے کہ اکثریت کو لگتا ہے۔

شعور کی اگلی منزل پر خشک دودھ کی چائے پینے لگے کہ یہی فیشن تھا۔ چائے کاڑھنے والے کام پر سب ہمارا مذاق بناتے۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ دوست ہمارے پیشۂ آبا پر شک کریں جو کہ واقعی کم از کم دو پشت تو سپہ گری رہا۔

پھر کسی نے کہا کہ یہ خشک دودھ نہیں زہر ہے۔ اس کے ذرات خون میں پھرتے رہیں گے، حل نہیں ہو گے اور اندر سے شریانوں کی سفیدی کر دیں گے۔ یعنی دل کی شریان وغیرہ بلاک ہو جائے گی۔ ہم نے بغیر تحقیق یقین کرنا مناسب سمجھا اور فوراً ڈبے کے دودھ والی چائے شروع کی۔

اکثر خیال آتا کہ بالائی کے بغیر اتنا گاڑھا دودھ؟
ظالم نے کچھ ملا نہ دیا ہو ”شراب“ میں

جب سرکاری نوکری لگ گئی، سوچا کہ اب تو ڈفر ہونے سے نقصان نہیں الٹا فائدہ ہو گا چنانچہ ایک عرصہ بھینس کے دودھ کی چائے کا مزہ لیا۔ اور افسران سے شاباش بھی۔

ہماری زندگی میں ارسطوؤں کی کمی نہیں۔ ہمیں بھینس کے بجائے گائے کے دودھ کے استعمال کا مشورہ دیا گیا کہ ہلکا، زود ہضم اور صحت بخش ہوتا ہے۔ ان دنوں ہم مہا بھارت کا ترجمہ پڑھ رہے تھے۔ سوچا 5 ہزار سالہ تہذیب نے بھینس کو کبھی عزت نہ دی لیکن گائے کے سر پر پوری دنیا ٹکا دی۔ کچھ فائدہ ضرور ہے اس کے دودھ میں۔

سو ایک عدد گائے ہی خرید ڈالی اور لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے چھپا کر رکھنے میں کامیاب بھی رہے۔ دو سال اس کے دودھ کی چائے پی۔ ہمارا نہ کچھ بھلا ہوا نہ برا۔ البتہ اس کے بچھا ہوا جس پر سب کو صدمہ ہوا، وہ بیمار ہو گئی اور ہمارا دل اچاٹ ہو گیا۔

پھر دودھ کے نام پر جو ہاتھ لگا چائے میں شامل کیا۔ سوائے ناریل کے دودھ کے۔

چند سال پہلے انکشاف ہوا کہ چائے تو دودھ کے بغیر پی جانی چاہیے۔ یعنی نئی ترکیب کے مطابق دودھ الگ، پانی الگ اور چائے الگ۔ ہم اس پر کسی قسم کی سائنسی تحقیق کے موڈ میں نہیں۔ مبادا یہ بات سچ ہی ثابت نہ ہو جائے۔ اس کی رد میں دلیل تو یہ بھی ہے کہ پیٹ میں جا کر مل جائے گی۔ دنیا میں ان تین کو جدا رکھنا سوائے ظلم کے اور کیا ہے؟

بہر حال دن میں ایک وقت ان تینوں کو الگ پی کر بھی دیکھ رہے ہیں کہ یہ نئی ترکیب زندگی میں کیا انقلاب برپا کرتی ہے۔

اگر پھر بھی انقلاب نہ آیا تو کیا کرنا چاہیے؟
مشورہ دیں
قرت العین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments