حضرت خضر ؑ (حصہ دوم)


حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری فرماتے ہیں۔کہ ایک دفعہ میں حج کرنے گیا وہاں منیٰ اور عرفات کے میدان میں ایک شخص کو میں نے دیکھا جو بلند آواز کے ساتھ پکار رہا تھا۔ لبیک لبیک اور اس کی لبیک کے جواب میں غیب سے ایک ندا آئی لا لبیک لا لبیک۔ حضرت چشتی فرماتے ہیں کہ یہ ماجرہ دیکھ کر میں نے اس شخص کو بازو سے پکڑا اور مجمعے سے باہر لے گیا۔ اس شخص کو بولا بھلے مانس تجھ کو پتا ہے کہ تو جب پکارتا ہے اے اللہ میں حاضر ہوں۔ تو عالم غیب سے آواز آتی ہے کہ نہیں تو حاضر نہیں ہے۔ تو وہ شخص بولا جی معین الدین میں جانتا ہوں کہ ایسا ہی ہے اور یہ سلسہ پچھلے چوبیس سال سے جاری ہے۔ یہ میر ا چوبیسواں حج ہے۔ وہ بہت بڑا غفور الرحیم رب ہے۔ میں ہر سال اس انتظار میں آتا ہوں کہ اس سال دریائے رحمت جوش میں آئے گا اور میری حاضری قبول ہو جائے گی مگر میں ہر دفعہ ناکام ہو کر لوٹ جاتا ہوں۔ کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے میری رحمت سے مایوس نہ ہو۔ صرف یہی وجہ ہے جو میری امید کو برقرار رکھے ہوئے ہے کہ جب کرم ہوتا ہے حالات بدل جاتے ہیں۔ حضرت معین الدین چشتی فرماتے ہیں کہ بندہ خدا جب ہر دفعہ ناکامی اور مایوسی کا منہ تو دیکھتا ہے تو پھر کیوں چلا آتا ہے۔ ولی کامل کی یہ بات سن کر اس شخص کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ شخص رندھی ہوئی آواز میں بولا۔ کہ اے معین الدین تو بتا میں یہاں نہ آؤں تو کہاں جاؤں۔ اس کے سوا کون ہے جو میری دعائیں سنے۔
اب میرا ایمان ہے یہ اگرچہ لکھا ہوا کہیں نہیں ہے ہو سکتا ہے اس شخص نے کہا ہو حضرت معین الدین چشتی سے اس رب رحیم کے علاوہ کون ہے جو میرے دل میں اٹھنے والی خواہشوں اور باتوں کو سمجھے۔ کون ہے اس رب کے علاوہ جو میرے گناہوں کی معافی دے۔ کون ہے جو 70 ماؤں سے زیادہ مہربان ہے۔ کون ہے جو میرے عیبوں کی پردہ پوشی کرے۔ اور اس رب رحمان کے علاوہ کوئی ایسا نہیں جو مجھ گناہگار کی بخش کرے۔ وہ ایسی زات جو قادر مطلق ہے جو مائل بہ کرم ہو تو ساری دنیا مل کر بھی کچھ برا نہیں کر سکتی۔ میں اس لئے اس بارگاہ بے کس پناہ میں آتا ہوں کہ جب اس کی رحمت دستگیری کرنے اور عطا پر راضی ہوگئی تو بھنور میں ڈوبی کشتی کنارے لگ جائے گی۔ صرف وہ ہی ذات باری ہے جو بیماری میں شفاء دیتی ہے۔ گناہوں کے باوجود بدنام نہیں ہونے دیتی نہ رزق روکتی ہے اور نہ کرم نوازی میں کمی کرتی ہے۔ پھر بولا اللہ کے علاوہ کوئی اور الہٰ بھی تو نہیں کہ جس کی عبادت کی جائے جس کے سامنے سر جھکایا جائے۔ اس لئے میں اس در کرم کے کہیں اور جا کر ماتھا نہیں ٹیک سکتا۔ حضرت معین الدین چشتی کو اس شخص کی حالت زار پر بہت ترس آیا۔ مصلیٰ بچھا کر سر بسجود ہو گئے کہ مالک اب آپ کرم کردیں۔ فرماتے ہیں میں نے ابھی اللہ کریم کا نام  لے کر مناجات شروع ہی کی تھی کہ غیب سے آواز آئی اے معین الدین تو پیچھے ہٹ جا۔ یہ ہمارا اور ہمارے بندے کا معاملہ ہے۔ تم نہیں جانتے کہ مجھ کو اپنے بندے کی فریاد اور گڑگڑانا کتنا پسند ہے جب یہ میرا نام  لے کر لبیک لبیک کہتا ہے تو مجھ کو بہت اچھا لگتا ہے۔ میں اپنے بندے کے لبیک کے جواب میں اگر ایک دفعہ لبیک کہ دوں تو یہ سمجھ لے گا کہ میرا حج قبول ہو جائے گا اور اس کے بعد یہ پھر آئندہ سال حج کرنے نہیں آئے گا۔ حالانکہ پچھلے 23 سال سے جتنے لوگوں کے حج قبول ہوئے ہیں وہ اسی کے لبیک لبیک کہنے کی وجہ سے ہوئے ہیں۔
قارئین اب خود اندازہ لگا لیں ہمارے لئے یہ بات کتنی بڑی سعادت اولیٰ ہے کہ ہمارا رب اتنا کریم اور رحیم ہے کہ اس کو اپنے بندوں کی چھوٹی سی ادا پسند آ جائے تو ان کی وجہ سے کتنوں کے مقدر کو سنوار دیتا ہے۔ تمہید تھوڑی لمبی ہو گئی مگر میرا دل چاہا کہ میں اپنے رب مہربان کی کرم نوازیوں کو بیان کروں تو آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف یعنی حضرت خضر ؑ کے حصہ دوم کی جانب۔ تو میں عرض کر رہا تھا کہ جیسے ہی حضرت خضر ؑ نے آب حیات پیا۔ اللہ کے کرم سے آپ کو عمر جاوداں نصیب ہوگئی۔ تو اس کے بعد حضرت خضر ؑ دوبارہ وہاں سے لشکر کی تلاش میں نکلے تو آگے بہت زیادہ گہرا اندھیرا دیکھا تو پھر قیمتی لعل کو اپنی پوشاک سے نکالا تاکہ راستہ دیکھ سکیں۔ لشکریوں نے جب لعل کی روشنی اور حضرت خضر ؑ کو دیکھا تو آپ کے گرد اکھٹے ہوگئے۔ کہ سب لشکری اور حضرت خضر ؑ مل کر حضرت زوالقرنین کے پاس پہنچے اور حضرت خضر ؑ نے ماجرہ بیا ن کیا۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت زوالقرنین نے لشکر اور حضرت خضر ؑ کے ساتھ پھر اس مقام یعنی آب حیات کے چشمے کی طرف سفر شروع کر دیا۔ کہتے ہیں کہ جب اس چشمے کے قریب پہنچے تو کیا ماجرہ دیکھتے ہیں کہ چشمے کا پانی زمین کے اندر جذب ہو کر چشمہ سوکھ چکا ہے اور صرف کیچڑ سا باقی ہے۔ اس ناکامی کے بعد حضرت زوالقرنین نے لشکر کی کثیر تعداد کو اپنے پاس سے ان کے گھروں کی طرف رخصت کیا اور اسی آب حیات کے چشمے والی جگہ پر رک کر مصروف عبادت ہوگئے ۔ کچھ عرصے کے بعد انتقال کیا اور اسی جگہ مدفون ہوئے۔ حضرت خضر ؑ کے بارے میں مذکور ہے کہ آپ بھٹکے ہوئے لوگوں کی رہنمائی فرماتے ہیں۔ اور پریشان حال لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ البتہ موسیٰ ؑ کو نبوت عطا ہونے کے بعد اور فرعون کے غرق ہونے کے بعد آپ کی اور حضرت موسیٰ ؑ کی ملاقات کا واقعہ تو قرآن کریم میں بھی اس کا زکر موجود ہے۔ روایت ہے کہ حضرت موسی ٰ ؑ ایک دن اپنی مجلس میں بیٹھ کر وعظ فرما رہے تھے کہ ایک شخص حاضر ہواء اور سوال کیا کہ آپ سے زیادہ بھی کوئی علم والا اس دنیا میں موجود ہے تو حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا کہ نہیں کوئی نہیں۔ کیونکہ توریت شریف جو اس وقت تقریباٗ 40 اونٹوں پر لادی جاتی تھی آپ کو زبانی یاد تھی۔ دوسرا آپ کلیم اللہ بھی تھے یعنی آپ ؑ کو اللہ تبارک و تعالی ٰ سے ہمکلامی کا شرف بھی حاصل تھا۔ تو جب آپ ؑ نے یہ بات فرمائی کہ میرے سے زیادہ علم والا کوئی نہیں تو اس بات پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی کہ اے موسی ٰ ؑ تو یہ خیال نہ کر کہ تجھ سے زیادہ علم والا کوئی نہیں۔ میرے کئی بندے تجھ سے زیادہ علم والے ہیں اور تو نہیں جانتا کہ میں نے مخلوق میں کس کو زیادہ علم دیا ہے۔ حضرت موسی ٰ ؑ نے جواب دیا کہ اے باری تعالیٰ میں تیرے اس مقبول بارگاہ اور اہل علم بندے سے کہاں ملاقات کر سکتا ہوں ارشاد باری تعالیٰ ہوا کہ ان سے تو مجمع البحرین کے پاس ایک میدان میں رہتے ہیں اور ان کا کام ہی بھٹکے ہوؤں کو راستہ دکھانا ہے۔ بلکہ اور بھی کئی کام ہیں اور ان کا نام خضر ہے۔ مجمع البحرین بحر فارس اور بحر روم میں مشرق کی جانب اس مقام کا نام ہے جہاں دونوں سمندر آپس میں ملتے ہیں۔ حکم ربی ہوا کہ تم ایک خادم کو ساتھ لے کر مجمع البحرین پر ایک بھنی ہوئی مچھلی لے کر جاؤ۔ جہاں وہ مچھلی زندہ ہو جائے گی وہیں پر میرے اس بندے حضرت خضر ؑ سے تمہاری ملاقات ہوجائے گی۔
حضرت موسی ٰ ؑ نے اپنے ساتھ حضرت یوشع بن نون کو ساتھ لے لیا۔ یہ حضرت موسیٰ ؑ کی صحبت میں رہتے تھے۔ اور آپ سے علم بھی سیکھتے تھے اور بعض روایا ت میں یہ بھی آیا ہے کہ یہ حضرت موسی ٰ ؑ کے بعد آپ کے نائب ہوئے اور روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ یہ آپ کے بھانجے تھے۔ حضرت یوشع بن نون کو ساتھ لے کر مجمع البحرین کی جانب چلے آپ کے ساتھ ایک تھیلی بھی تھی جس میں ایک تلی ہوئی نمکین مچھلی رکھی تھی۔ آپ نے یوشع بن نون کو فرمایا کہ مجھ کو مجمع البحرین پر جانا ہے ہمارے سفر کا اختتام مجمع البحرین پر ہوگا۔ اور قرآن کریم اس گفتگو کے بارے میں یوں فرماتا ہے۔ ترجمعہ کنز الایمان۔ اور یاد کرو موسیٰ ؑ نے اپنے خادم سے کہا کہ میں باز نہ رہوں گا جب تک وہاں نہ پہنچوں۔ جہاں دو سمندر ملتے ہیں یا قرنوں چلتا جاؤں۔ (یعنی چاہے جتنی مدت چلنا پڑے میں چلتا جاؤں گا چاہے جتنا وقت لگے)۔ جب وہ دونوں یعنی حضرت موسی ٰ ؑ اور ان کے غلام یوشع بن نون ان دونوں سمندروں کے ملنے کی جگہ پہنچے جہاں پر ایک پتھر کی چٹان تھی اور اس کے قریب ایک چشمہ بھی تھا۔ تو وہاں دونوں نے آرام کیا اور حضرت موسیٰ ؑ کی آنکھ لگ گئی۔ آپ کے غلام یوشع بن نون نے وضو کیا تو ایک قطرہ پانی کا ان کی انگلی سے نیچے مچھلی پر گرا جس سے مچھلی زندہ ہو گئی اور تڑپ تڑپ کر دریا میں جا گری۔ اس مچھلی کے پانی میں گرنے سے پانی رک گیا اور دریا میں اللہ کے حکم سے ایک محراب سی بن گئی۔ حضرت موسی ٰ ؑ کے جاگنے کے بعد یوشع بن نون کو کو ان کو بتانا یاد نہ رہا کہ یہ واقعہ آپ کو بتائیں۔ (جاری ہے)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments