مزدور کا بیٹا


میں سکول سے گھر واپس پہنچا تو معمول سے کچھ دیر ہو گئی ہوئی تھی۔ میری ماں دروازے میں کھڑی میرا ہی انتظار کر رہی تھی۔ میرا باپ مزدوری پہ جایا کرتا تھا اور اسے دوپہر کو کھانا دے کر آنا ہوتا تھا۔ ماں نے مجھے دیکھا تو فوراً باندھ کر رکھا ہوا کھانا تھما دیا کہ جاؤ اپنے ابا کو دے آؤ۔ لیکن میں کسی اور ہی ہوا میں تھا ، میں غصہ کرنے لگا کہ میں بھی تو سارا دن پڑھائی کر کے آیا ہوں مجھے تو کھانا دے لو، پھر ابے کو بھی دے آؤں گا۔

“سکول ہی گئے تھے نا، ہل تو نہیں چلاتے رہے۔ جو نواب بنے پھر رہے ہو” میری ماں بھی غصے سے دھاڑی۔
میری ماں غصہ کم ہی کرتی تھی لیکن اس دن اس نے مجھ سے بھی بڑھ کر غصیلا جواب دیا تھا۔میں پھر بھی جانے کو تیار نہیں ہوا تو وہ غصے میں خود ہی کھانا لے کر باہر دروازے کی طرف چل پڑی۔ میں نے بھاگ کر رستہ روکا اور کہا پہلے مجھے کھانا ڈال کر دو پھر جانا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میں بھی سارا دن سکول میں گزار کر آیا ہوں تو میری بھی خدمت ہونی چاہیے۔
ماں کا بس نہیں چل رہا تھا کہ مجھے جوتے سے پیٹنا شروع کر دے لیکن اس نے بس یہی کہا کہ کھانا بنا پڑا ہے ڈال کر کھا لو
میں نے بھی قسم کھا کر کہا کہ ڈال کر دو گی تو کھاؤں گا ورنہ بھوکا ہی مروں گا۔
ماں تھی ، بیٹے کو بھوکا کیسے دیکھ سکتی تھی ، پگھل گئی۔ مجھے صلواتیں سناتی ہوئی کچن کی طرف گئی اور کھانا ڈال کر میرے سامنے زور سے پٹخ دیا اور ابے کا کھانا لے کر باہر نکل گئی۔

ہم ہسپتال کے لیے کچھ ضروری سامان لینے قریبی شہر میں آئے ہوئے تھے۔ جب سامان خرید کر واپس جانے لگے تو میرے ساتھ آئے ہوئے دوست کو کرائے کی گاڑی چلاتا اپنا ایک جاننے والا مل گیا۔ دوست نے بتایا کہ اس جاننے والے نے بچپن میں ہی سکول چھوڑ دیا تھا۔ ہم نے اس کی گاڑی کرائے پہ لے لی اور سامان رکھ کر اس کے ساتھ واپسی کا سفر شروع کیا۔

میں اس کے ساتھ فرنٹ سیٹ پہ بیٹھا ہوا تھا۔ باتیں کرتے کرتے میں نے پوچھ لیا کہ سکول کیوں چھوڑ دیا تھا۔ کوئی جواب دینے سے پہلے کچھ لمحے وہ بالکل چپ رہا تھا اور پھر جب اس نے بولنا شروع کیا تو ہم چپ چاپ سننے لگے تھے۔

“کچھ دن ہوتے ہیں زندگی کا رخ بدل دینے والے، وہ بھی ایسا ہی ایک دن تھا۔ ماں کے جانے کے بعد میں نے کھانا شروع کر دیا تھا لیکن دو تین نوالوں کے بعد ہی بے چینی ہونے لگی۔ میرا غصہ ختم ہو گیا ہوا تھا اور اب اس کی جگہ پشیمانی نے لے لی تھی۔ میں نے کھانا وہیں چھوڑا اور اٹھ کر باہر کی طرف بھاگا۔ ابا جہاں مزدوری کرتا تھا وہ جگہ گھر سے تقریباً دو کلومیٹر دور تھی۔ میں نے آدھے رستے میں ہی ماں کو جا لیا۔ ان سے کھانا لیا کہ میں دے آتا ہوں آپ واپس گھر جاؤ مگر وہ اتنے غصے میں تھیں کہ مجھے کھانا دینے کے بجائے وہیں باتیں سنانے لگیں۔ لیکن میں نے کسی طرح ان سے زبردستی کھانا لے کر انھیں گھر واپس بھیج ہی دیا۔

ڈاکٹر صاحب !
میرا ابا جہاں مزدوری کرتا تھا، وہاں کا ٹھیکہ میرے تایا نے لیا ہوا تھا۔ جب میں وہاں پہنچا تو میرا تایا اور اس کا بیٹا چھاؤں میں بیٹھے ہوئے تھے اور میرا ابا سر پہ بجری اٹھائے مستری کو دینے جا رہا تھا۔ اس کی قمیض گیلی ہو کر جسم سے چپکی ہوئی تھی ، اور سارے بدن سے پسینہ نچڑ رہا تھا۔ مستری نے مجھے دیکھا تو آواز لگائی کہ باپ کی سفید داڑھی دیکھو اور اس کی حالت دیکھو۔ یہ بجری خود لا کر پکڑا دو مجھے۔ بس وہ آواز مجھے گولی کی طرح لگی۔ میں نے سوچا میں کیا کر رہا ہوں ، سکول کیوں جا رہا ہوں۔ میں نے وہیں کھڑے کھڑے فیصلہ کیا کہ آج کے بعد مجھے سکول نہیں جانا۔

اگلے دن میں گھر سے تو سکول کی وردی پہن کر نکل آیا لیکن سکول نہیں گیا۔ اپنا بستہ کسی عزیز کے گھر رکھا اور سارا دن ادھر اُدھر پھرتے ہوئے گزار دیا۔ تین دن تک یہی چلتا رہا ، میں گھر سے سکول کے لیے نکلتا لیکن سکول جانے کے بجائے سارا دن ضائع کر کے گھر واپس آ جاتا۔ مجھے سمجھ نہیں لگ رہی تھی کہ کیا کروں۔ پھر انھی دنوں میری خالہ کا بیٹا جو لاہور میں کام کیا کرتا تھا، وہ گاؤں واپس آ گیا۔ میں نے اسے جا پکڑا اور اس کی منت کی کہ مجھے لاہور میں کام دلوا دو۔ اس نے کہا کہ نہیں تم پڑھائی کر رہے ہو ، وہی جاری رکھو۔ لیکن میں اس کی منت کرتا رہا کہ مجھے اب کام کرنا ہے، اس لیے میری مدد کرو۔ وہ بالآخر راضی ہو گیا لیکن اس نے صاف کہا کہ میں تمھیں ساتھ نہیں لے کر جا سکتا ، تم فلاں دن اس جگہ پہ آ جانا تو میں وہاں سے تمھیں اپنے ساتھ لاہور لے جاؤں گا۔

بس ڈاکٹر صاحب میں نے اس دن ابے کی الماری سے نو سو روپے چوری کیے اور گھر سے نکل پڑا۔ اس خالہ زاد سے ملا اور اس کے ساتھ لاہور چلا گیا۔ میرے بعد گھر میں بڑی پریشانی ہوئی ، مجھے خوب برا بھلا بھی کہا گیا۔ وہی تایا زاد جو چھاؤں میں بیٹھ کر میرے باپ کے پسینے سے نچڑے ہوئے جسم کو دیکھ رہا تھا، اس نے قسم کھائی تھی کہ میں جب بھی اسے ملا ، وہ میری چمڑی ادھیڑ دے گا کہ میں نے اس کے چاچا کو اتنا پریشان کیا ہے۔ بہت سے لوگ ابے کو دلاسا دیتے رہے کہ ماں کے ہاتھ کی بنی روٹیاں کھانے کا عادی ہے ، زیادہ دن باہر نہیں گزار سکے گا۔ جلدی گھر واپس آ جائے گا۔

لیکن میں گھر واپس آنے کے لیے نہیں نکلا تھا۔ میں نے مہینے بعد انھیں اطلاع بھیجی تھی کہ میں لاہور میں ہوں ، خیریت سے ہوں اور کام کر رہا ہوں۔ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ اب ابے کو کام پہ جانے کی ضرورت نہیں ، میں گھر کا خرچہ خود چلاؤں گا۔
میں گیارہ مہینے تک گھر واپس نہیں گیا تھا اور جب گیارہ مہینے بعد گھر واپس گیا تو جاتے ہی یہی بات یقینی بنائی کہ ابا اب مزدوری پہ نہیں جائے گا۔

بس ڈاکٹر صاحب وہ دن اور آج کا دن میں نے ابے کو کام پہ نہیں جانے دیا۔ جو بھی حالات ہوئے ، جیسے بھی معاملات رہے میں گھر کا خرچہ چلاتا رہا اور خدا کا شکر ہے کہ اس نے میری عزت رکھی ، کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلانے دیا۔ لاہور میں کام کرنے سے لے کر یہ کرائے کی گاڑی چلانے تک میں نے کبھی کسی بھی طرح کی محنت کرنے میں عار محسوس نہیں کیا اور رب نے کبھی مجھے بے آسرا نہیں ہونے دیا۔ اب میرے ابے کی عمر ایک سو تین سال ہو چکی ہے اور اس کی صحت آج بھی ماشاءاللہ بہت سے لوگوں سے اچھی ہے۔

بس ڈاکٹر صاحب !
میں نے پڑھائی اپنے ابے کے لیے چھوڑی تھی ۔ اس دن اسے کام کرتے ہوئے دیکھ کر میں اندر سے ہل گیا تھا۔ میں اس کو ایسی حالت میں نہیں دیکھ سکتا تھا۔ میں اسے آرام دینا چاہتا تھا اور اللہ کا شکر ہے کہ میں نے اسے آرام دیا۔”

ہمارا ہسپتال آ چکا تھا ، اس کی کہانی بھی ختم ہو چکی تھی۔ لیکن اس کہانی نے اس عام سے نظر آنے والے انسان کی عظمت ہمارے سامنے کھول کر رکھ دی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments