اے 39: انگلینڈ کی ’مہلک ترین‘ مگر پوشیدہ شاہراہ ’اٹلانٹک ہائی وے‘


مقامی افراد شاید انگلینڈ کی جنوب مغربی شاہراہ کو بالکل رومانوی نہ کہیں۔ اکثر کے لیے تو یہ بس سہولت کی ایک چیز ہے، اور کئی ایک کے لیے وہ شاہراہ جہاں بہت حادثات ہوتے ہیں۔ اتنے حادثات کے حقیقت میں بدقسمتی سے اسے کورنوال کی مہلک ترین شاہراہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ شاید اس لیے کہ کئی جگہ سے یہ بہت ہی پتلی ہے، یکدم موڑ اور بہت ہی مشکل جنکشن آ جاتے ہیں۔   

 لیکن اے 39 خاص طور پر اس کے وہ حصے کو جسے ’اٹلانٹک ہائی وے‘ کا نام دیا گیا ہے، ایک 70 میل کی پٹی ہے جو بارنسٹیپل، ڈیون سے نیوکوے، کورنوال تک جاتی ہے، صرف ایک اور راستہ نہیں کہا جا سکتا، یہ اس سے کچھ زیادہ ہے۔ یہ ان واحد شریانوں میں سے ایک ہے جو ایک دور دراز خطے کے منقطع حصے کو جوڑتی ہے۔

دوری کا مطلب دو چیزیں ہیں۔ ایک تو اس سے علاقہ نسبتاً سنسان اور جنگل نما لگتا ہے ۔ یہ واضح ہو کہ شمالی کورنوال کوئی چھپا ہوا راز نہیں۔

گرمیوں میں سیاحوں کا ہجوم ہر جگہ محسوس کیا جاتا ہے، علاقے کے کار پارکس، ساحل اور پب  سیاحوں سے بھرے رہتے ہیں لیکن یہ تقریباً ہمیشہ ممکن ہوتا ہے کہ کوئی پرسکون کھاڑی یا مقامی لوگوں سے بھرا ہوا کیفے تلاش کیا جائے۔

آف سیزن میں یہاں کے سب سے زیادہ مقبول مقامات بھی خالی ہو سکتے ہیں اور کنگ آرتھر کی شہرت رکھنے والے ٹنٹیگل کاسٹل کے علاوہ کورنوال کے سب سے سے زیادہ مشہور پرکشش مقامات میں سے کوئی بھی یہاں نہیں ہے۔  

 دور دراز ہونے کا، خاص طور پر علاقے میں ٹرین سٹیشنوں کی کمی کے پیش نظر، یہ مطلب بھی ہے کہ علاقے کو دیکھنے کے چند اچھے طریقے بھی موجود ہیں۔

میں اس علاقے میں اپنے خاندان کے ساتھ دو سال تک رہی۔ اس دوران مجھے شمالی کورنوال کے سمندری نظارے، گھومتے کھیتوں اور ڈرامائی چٹانوں سے پیار ہو گیا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے کم معروف پرکشش مقامات کے ساتھ بھی۔ اپنی دور دراز اور دیہی نوعیت کے باوجود، شمالی کورنوال میں ہر چیز موجود ہے، کھیت، سمندر، آرٹ گیلریاں اور منفرد عجائب گھر جو جادو ٹونے سے لے کر فوجی تاریخ تک کی ہر چیز کے لیے وقف ہیں۔

یہ کورنیوال کی ہنر مند اور فنی ورثے کو ساتھ لے کر چلنے والی نسلوں کا نتیجہ ہے، جو دیہی زندگی کے خواہاں نئے آنے والوں کی کے ساتھ گھل مل جاتے ہیں۔

جب میرا خاندان ملازمت کے مواقع کی لالچ میں انگلینڈ سے باہر جانے لگا تو میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے آخری بار اس خاص علاقے کو دیکھنا ضروری ہے۔

اور اس کا مطلب ایک چیز تھا: سڑکوں پر نکلنا، خاص طور پر اے 39 پر۔ اس میں سب شامل تھا، اچانک سامنے آنے والے موڑ اور بل کھاتے راستے۔ لیکن پھر بھی یہ بہت سی چھوٹی، سنگل ٹریک سڑکوں کے مقابلے میں ایک آسان ڈرائیو تھی جو اے 39 سے منسلک ہیں۔ اس کے علاوہ مرکزی شاہراہ استعمال کرنے کے فوائد بھی تھے: اس کی سہولت اپنی جگہ لیکن اس کے علاوہ حیرت انگیز طور پر اس کی خوبصورتی کے لمحات۔

اپنے نام کے باوجود، اٹلانٹک ہائی وے زیادہ تر کھیتوں، خوبصورت دیہاتوں اور زمرد جیسے سبز جنگل سے گزرتی ہے، جس میں کبھی کبھار سمندر کے حصے بھی دور سے نظر آتے ہیں۔ تکنیکی طور پر، یہ نیوکوے سے سات میل اندر شروع ہوتی ہے، جہاں کورنوال کا واحد عوامی ہوائی اڈہ ہے۔

اس کا پہلا حصہ پولڈارک کے علاقے سے ہو کر گذرتا ہے جہاں ٹیلی ویژن کے شوز کے لیے سرسبز مناظر کو فلمایا گیا ہے، جس میں پارک ہیڈ اور پورٹ کوتھن بھی شامل ہیں۔ میں پہلے وہاں گئی۔

یہ کورنوال کا سب سے زیادہ ڈرامائی اور حیرت انگیز لینڈ سکیپ ہے، جنگلی پھولوں سے ڈھکی چٹانیں نیلے سبز پانی سے لپٹے ہوئے ریتلی کھاڑیوں میں ڈوب رہی ہیں۔ ساؤتھ ویسٹ کوسٹ پاتھ کے میں اوپر چڑھی اور مجھے بھوک لگنے لگی۔

خوش قسمتی سے، انگلینڈ کے اہم ’خوراک کے دارالحکومتوں‘ میں سے ایک، پیڈسٹو، اس کے صرف آٹھ میل دور شمال میں ہے۔ کبھی یہ ماہی گیروں کا ایک خوبصورت گاؤں ہوا کرتا تھا، آج پیڈسٹو اپنے ریستورانوں کے لیے مشہور ہے۔ ریک سٹین نے یہیں سے اپنے ریستورانوں کا آغاز کیا تھا، جبکہ ٹرپ ایڈوائز پر مسافروں نے حال ہی میں پیڈسٹو کو دنیا میں مشیلین معیار کے کھانوں کے لیے بہترین جگہ قرار دیا۔

لہٰذا، یہ مناسب تھا کہ مشیلن کے ستاروں والے پال آئنس ورتھ ایٹ نمبر 6 ریستوراں پر کھانا کھانے جاتی، جو بہت منفرد سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ نمبر 6 علاقے کے ماہی گیری کے ورثے کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے، یہ کورنوال کی زمین سے جڑی پیشکشوں کو بھی نظر انداز نہیں کرتا۔

ریستوران کے شیف کرس میک کلرگ  کہتے ہیں کہ ’یہ ضروری ہے کہ ہمیں ناقابل یقین مچھلی اور شیلفش ملے۔ ’لیکن جس چیز کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے وہ ہے کورنوال میں جانور پالنے اور کاشتکاری کی کوالٹی اور سٹینڈرڈ۔‘

مثال کے طور پر، ان کے سب سے پسندیدہ پکوانوں میں سے ایک اہم کورس ہے جسے ’آل دی پیجن‘ کہا جاتا ہے۔ اس میں پرندے کے ہر حصے کو بڑی ہوشیاری سے استعمال کیا جاتا ہے۔ اروسٹ ٹانگ کو کاتافی پیسٹری میں لپیٹا جاتا ہے اور پھر اسے تلا جاتا ہے۔ جگر کو ایک پھینٹ کر ایک طرح کی کریم والی ڈیزرٹ بنائی جاتی ہے؛ آفل یا جانور کے باقی اندرونی حصوں کو ڈارک چاکلیٹ کے ساتھ ملا کر ’پین آو چاکلیٹ‘ میں تبدیل کیا جاتا ہے اور جاپانی کھٹے آلو بخاروں سے بنے ’کیچ اپ‘ میں ڈبو کر کھایا جاتا ہے۔ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ کبوتر کو میٹھے اور کھٹے لذیذ اور چرمرے لیکن متوازن مرکب میں بدلا جا سکتا ہے۔

لیکن میرے پسندیدہ پکوانوں میں سے ایک بہت سادہ ہے: مکھن والا اسکون۔ اسکون بذاتِ خود ہی ایک منفرد چیز تھی۔ پھر بیرا ایک چمکتی ہوئی پیلی چیز لایا۔ اس نے ایک چاقو پکڑا اور پھر اسے موم بتی کے شعلے پر گرم کیا، پھر ایک بڑی سرعت کے ساتھ پیلی چیز میں سرکایا۔ مکھن کا ذائقہ بہت زیادہ اچھا لگ رہا تھا، کریم والا اور بھرپور، اور اس کے اوپر بہت مناسب مقدار میں کورنوال کا سمندری نمک۔

اپنی ساکھ کے باوجود، پیڈسٹو صرف واحد قریبی جگہ نہیں، جہاں اچھا کھانا ملتا ہے۔ پر اے 39 پر واپس میں 10 میل  شمال سینٹ کیو کی طرف گئی۔

میں ابھی بھی اپنے میکلین ستارے والے تجربے کے خمار میں تھی لیکن اگر میں نہ بھی ہوتی  تو شاہراہ کے بالکل قریب علاقے کی بہترین فارم شاپس میں سے ایک سینٹ کیو فارم شاپ اینڈ کیفے ہے، جو بدلتے ہوئے خصوصی چیزوں کا ایک مختصر مینو پیش کر رہا ہے اور اس کے علاوہ اعلی درجے کی کافی، اور ساتھ ہی اس علاقے میں میرا پسندیدہ گرل کا ہوا پنیر کا سینڈویچ بیچ رہا ہے۔ یا پھر مقامی طور پر مشہور آنٹ ایوائسز کی پیسٹی شاپ ہے، جس کی گرم، تازہ بیک کی ہوئی کارنش پیسٹیاں اکثر دن کے اوائل میں ہی بک جاتی ہیں۔

سینٹ کیو کے عجیب گاؤں سے مڑتے ہوئے میں ساحل کی طرف چھوٹی بی سڑکوں میں سے ایک کے ساتھ ساتھ چلتی رہی۔ کچھ ہی دیر میں سنگل ٹریک سڑک، جس کے دونوں طرف اونچی باڑ تھی نیلے سمندر کی طرف نکل گئی۔

اپنے پڑوسیوں کے مقابلے میں، پورٹ کوئین ایک پوشیدہ موتی ہے۔ یہاں صرف کیاکی کرنے والوں کا ایک چھوٹا گروپ تھا جو پانی پر تفریح کر رہا تھا۔ کار پارک میں پارکنگ کے لیے سکے ڈالنے کے بعد میں ساحلی راستے کی طرف بڑھی۔

ساحلی سڑک پر ذرا آگے پورٹ آئزک ہے۔ یہ ایک منفرد کارنش ساحلی شہر ہے: سفید کاٹیجز، چھوٹی بندرگاہ، تنگ گلیاں، اور دونوں طرف، کھڑی پہاڑیوں پر چارہ کھاتی گائیں اور نیلے سمندر کے نظارے۔ اپنے پڑوسی ٹنٹیجل  کی طرح، یہ شمالی کورنوال کے معروف مقامات میں سے ایک ہے۔

تاہم کچھ کم معروف جگہوں میں سے ایک سینٹ نیکٹنز گلین کو میں ترجیح دیتی ہوں، جہاں تھوڑی دور جانے آپ ایک قدیم جنگل سے ہو کر ایک بلند آبشار کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ، سیاح ارد گرد کے درختوں کی چھال پر دعائیہ کلمات، جھنڈے اور ربن باندھ دیتے ہیں۔ یہ عمل اکثر کورنوال کے مقدس مقامات پر دیکھا جاتا ہے۔

گلین کے اوپری حصے میں ایک پرانی خانقاہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ چھٹی صدی کے ولی نیکٹن کی رہائش گاہ تھی۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جو کسی بھی  کنگ آرتھر کیسل کی طرح صوفیانہ محسوس ہوتی ہے۔

فی الحال میں مزید شمال میں بوس کاسل کی طرف جا رہی ہوں۔ کورنوال کے سب سے زیادہ غیر معمولی قصبوں میں سے ایک، یہ میوزیم آف وچکرافٹ اینڈ میجک کی نرالی عمارت کے علاوہ باورچیوں، کاریگروں اور فنکاروں کے لیے بھی جانا جاتا ہے جو اس کی خوبصورتی اور سیاحت کی صنعت جو مختلف مواقع فراہم کرتی ہے، اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ جیسا کہ نیا اپ سٹارٹ دی راکٹ سٹور، جہاں وائلڈ سی باس سشمی ادرک اور ٹیراگن کے ساتھ پیش کی جاتی ہے۔

صدیوں پرانی لوہار کی دکان اولڈ فورج گیلری میں، میں نے پرنٹس اور پینٹنگز کے ذریعے علاقے کے حیرت انگیز مناظر کی عکاسی دیکھی۔ آرٹسٹ ہیلن سیٹرنگٹن 16 سال قبل یارکشائر سے یہاں منتقل ہوئی تھیں۔

انھوں نے کہا کہ ہم اس لیے آئے تھے کہ میں سمندر کا مطالعہ کر سکوں اور ناہموار رنگین اور ڈرامائی شمالی ساحل کو پینٹ کر سکوں۔ ’ایک دن پرسکون، اگلے دن لہروں کا ایک طوفان۔ خوبصورت اور بہت متاثر کن۔‘

پھر اے 39 پر واپس آنے کے بعد میں ایک ایسی جگہ پر رکی جس نے علاقے کا ایک مختلف رخ ظاہر کیا: یہ تھا کورنوال ایٹ وار میوزیم۔ شمالی کورنوال نے دور دراز ہونے کے باوجود، ماضی کی جنگوں میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران، ساحل کو جرمن یو بوٹس سے بہت محنت سے بچایا گیا۔

دوسری عالمی جنگ عظیم میں، اس خطے نے آر اے ایف کو فراہم کیے، اور نارمنڈی میں ڈی ڈے لینڈنگ کے لیے ایک لانچنگ پوائنٹ کے طور پر کام کیا۔ متعدد مرتبہ یہ بمباری کی زد میں بھی رہا تھا۔ آج بھی، یہ علاقہ برطانیہ کی قومی سلامتی میں جی سی ایچ کیو بیوڈ کی بدولت ایک کردار ادا کرتا ہے، جو برطانیہ کی حکومت کے اہم انٹیلیجنس اور سیکورٹی اداروں میں سے ایک ہے۔ کسی بھی صاف دن آپ میلوں دور سے ساحلی پٹی پر بنے ہوئے اڈے کے پر لگی ہوئی سفید سیٹلائٹ ڈشز دیکھ سکتے ہیں، جو عجیب سا منظر پیش کرتی ہیں۔

ہائی وے سے ہٹ کر، ڈیوڈسٹو کریمری کے سامنے، میوزیم منسوخ شدہ ایئر فیلڈ کے تین ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ مقامی جوڑے سٹیو اور شیلا پیری کا پرجوش پراجیکٹ ہے۔

سٹیو مجھے بحریہ کے نوادرات سے بھرے کمرے میں لے جاتے ہوئے  کہتے ہیں کہ ’لوگ (یہاں) گھنٹوں گھومتے پھرتے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ وہی چہرے بار بار آتے ہیں۔‘

میں بالکل محسوس کر سکتی تھی کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ سٹیو اور شیلا نے جو کچھ بھی جمع کیا، اسے حاصل کرنے میں ایک زندگی لگ جاتی ہے: تمغے، وردی پہنے ہوئے مینیکونز (پتلے)، سینکڑوں تصاویر اور دستاویزات، حتیٰ کہ ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں بھی۔

اے 39 پر مزید 15 میل شمال میں آپ بیوڈ کی طرف مڑتے ہیں، جو تقریباً 10,000 رہائشیوں کا ایک بڑا علاقہ ہے۔ یہ ساحلی شہر کچھ چیزوں کے لیے جانا جاتا ہے: اس کا 19 ویں صدی کا قلعہ اور ہیریٹیج سینٹر، اس کا حیرت انگیز سمندری تالاب، اس کی سرفنگ (یہاں برطانیہ کا سب سے پہلا سرف لائف سیونگ کلب بنایا گیا تھا)۔

یہ خطے کے بہترین کیفے اور بیکریوں میں سے ایک ، الیکٹرک بیکری، کے لیے بھی جانا جاتا ہے، جس کا نام سابق ’ویسٹرن پاور‘ الیکٹرک ڈپو کے نام پر رکھا گیا ہے جس میں یہ بنایا گیا ہے۔

سنہ 2019 میں کھولی جانے والی اس بیکری نے بہت تیزی سے نام کمایا، حالانکہ اس کا کبھی اشتہار نہیں دیا گیا۔ بیکری کے چار ڈائریکٹروں میں سے ایک کرسٹین اپیو جو شیف بھی ہیں، کہا کہ ’یہ کافی منظم طور پر بڑھی کیونکہ ہم پہلے مقامی تھے۔‘

یہ بھی پڑھیے

درّہِ ہارڈ ناٹ: برطانیہ کی وہ پرخطر سڑک جس کے پرپیچ موڑوں پر ایک غلطی بھی جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے

’صحرائی پتنگ‘: تین ملکوں میں پھیلا ایک قدیم اور پراسرار معمہ

خشک سالی: برطانیہ کے علاقے ویلز میں قدیم رومی دور کے قلعوں اور سڑکوں کا انکشاف

آج، یہ اس قسم کی جگہ ہے جہاں عملہ ہر ایک کے نام جانتا ہے، یہ ناممکن ہے کہ آپ ہفتے کے اختتام پر نہ ملتے ہوں یا نہ جانتے ہوں، اور جہاں گاہک خوشی سے اچار اور لیمون گراس میئونیز کے ساتھ ٹافی ایپل بنس یا فرائیڈ چکن کی خاص بریڈ میں تیار کردہ ڈش کے لیے قطار میں کھڑے ہیں۔

ایک پہلو جو الیکٹرک بیکری کو الگ کرتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کا مشن صرف اعلیٰ درجے کی کافی اور بیکڈ اشیا فراہم کرنا نہیں ہے، بلکہ مقامی لوگوں کی ہر ممکن مدد کرنا ہے۔ اس میں عملہ شامل ہے، جن میں سے کوئی بھی خاص موسم یا گھنٹوں کی شرط والے معاہدے سے آزاد ہیں۔

اس میں خوراک تیار کرنے والے بھی شامل ہیں۔ پنیر سڑک سے تین میل اوپر ایک چھوٹی ڈیری شاپ سے منگوائی جاتی ہے، سبزیاں زیادہ تر بیوڈ کے ڈیڑھ ایکڑ مارکیٹ گارڈن سے ملی جاتی ہیں، اور انھوں نے اس فارم میں اپنی گندم بھی اگانا شروع کر دی ہے، جس کے ڈائریکٹر ایلکس بلوٹ کے بھی حصص ہیں۔

نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مقامی لوگ اس بیکری کے اتنے شیدائی ہیں کہ بیوڈ کی رئیل اسٹیٹ ایجنسیاں اب کوئی چیزز فروخت کرنے پر یہ بھی بتاتی ہیں کہ اس جگہ کا اس الیکٹرک بیکری سے کتنا فاصلہ ہے۔

اے 39 کی بات کریں تو میں قرون وسطیٰ کے گاؤں سٹارٹن سے گزرا – جسے میں جلد ہی چھوڑ دوں گا – جو کبھی انگریزوں کی خانہ جنگی میں اپنے اہم کردار کے لیے جانا جاتا تھا، لیکن آج بیوڈ کا ایک خاموش کونا ہے۔

سڑک مڑتے ہوئے اور سبز درختوں کے بیچ میں نکل گئی، سڑک کے اتنے قریب کہ ان کی شاخیں سر کے اوپر آ گئیں، اور مجھے لٹل پگ فارم شاپ کے پاس لے گئی، جہاں ناشتہ، لنچ اور برنچ ملتا ہے اور وہ بھی ان چیزوں پر مشتمل کھانا جو محض جو 30 میل کے اندر ہی جن کی تمام مصنوعات کی پیداوار کی جاتی ہے۔

مرکزی سڑک سے ہٹ کر، میں ساحل کی طرف اپنے پسندیدہ مقامات میں سے ایک کی طرف چلا گیا: ریکٹری فارم ٹیرومز، ریکٹری فارم الیکٹرک بیکری یا راکٹ سٹور کی طرح ’ہاٹ سپاٹ‘ نہیں ہے۔

یہ ایک ادارہ ہے، جو سنہ 1950 میں کھولا گیا تھا اور اس کے بعد سے میگزینوں میں، ٹی وی پروگراموں میں اور یہاں تک کہ اسے ’گیورنسے لٹریری‘ اور ’پٹیٹو پیل پائی سوسائٹی‘ جیسی فلموں کے سیٹ کے طور پر بھی دکھایا گیا ہے۔

’ٹی روم‘ کے باغ میں بیٹھ کر، میں نے اپنے آپ کو یاد دلایا کہ پہلے اپنے ’اسکون‘ پر جام لگاؤں – سرحد عبور کر کے ڈیون تک، جو دو میل سے بھی کم فاصلے پر ہے، اور میں یہاں جام کے بجائے کریم لگانے کا پابند ہوں گا۔ اب یہ سبق بھولنا نہیں ہے۔

اب اس کا ایک ٹکڑا کاٹتے ہوئے، پھولوں کے موٹے برتنوں کے ارد گرد شہد کی مکھیوں کی گونج کو دیکھتے ہوئے، جنوبی مغربی ساحل کے راستے پر پیدل سفر کرنے والوں کو ان کے وقت کی تجارت کی کہانیاں سنتے ہوئے، صرف دس منٹ کی دوری پر، میں نے اپنے آپ کو محسوس کیا، پہلے سے ہی، دنیا کے اس حصے سے محروم: اس کے مناظر، اس کے لوگ، اس کی تاریخ، اس کے ذائقے، اور ہاں، اس کی شاہراہ بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 30520 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments