جمہوری نظام یا آمریت؟


ہم گزشتہ پچھتر سال سے اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ ہم ایک جمہوری ریاست کے باسی ہیں ہمارے حکمران عوام کے ووٹ کی طاقت سے برسر اقتدار آتے ہیں اور عوام کی خوشحالی ہی ان کی بنیادی توجہ کا مرکز ہے مگر آج کی تازہ صورت حال نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ یہ محض ایک خام خیالی ہے۔ بائیس کروڑ عوام کے اس ملک میں تمام تر توجہ کا مرکز ایک بائیسویں گریڈ کے افسر کی تعیناتی ہے۔ کوئی بھی سیاستدان ہو اسے اس وقت صرف اور صرف ایک ہی خواہش ہے کہ آئندہ آنے والا آرمی چیف اس کی مرضی کا ہو۔

خدا جانے ایک سرکاری افسر کی تعیناتی کو اتنا گمبھیر اور انا کا مسئلہ کیوں بنا دیا گیا ہے۔ اس صورتحال میں بہت سے سوال جنم لیتے ہیں۔ کیا آرمی چیف ہی پاکستان میں کسی بھی سیاسی پارٹی کے اقتدار میں آنے یا نا آنے کا ذمہ دار ہے؟ کیا عوام کے ووٹ کی طاقت پہ کسی کو بھی اعتبار نہیں؟ کیا کسی بھی حکومت کو اپنی مدت مکمل کرنے کے لئے ایک سرکاری افسر سے مضبوط اور گہرے تعلقات قائم رکھنا ضروری ہے؟ کیا عسکری قیادت کے سپہ سالار سے اختلاف رائے کسی بھی منتخب وزیراعظم کو کرسی سے ہٹانے کے لئے کافی ہے جو بظاہر عوام کے ووٹ کی طاقت سے مسند پر براجمان ہوتا ہے؟

مگر معصوم پبلک یہ سمجھنے سے آج بھی قاصر ہے کہ انہیں محض اپنے سیاسی اور ذاتی مفاد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے کبھی مذہبی رنگ دے کر کبھی جذبات کے سمندر میں ڈبو کر اور کبھی شخصیت کے سحر میں مبتلا کر کہ محض ان کو پیادوں کی صورت استعمال کیا جاتا ہے جن کی قربانی کسی بھی نا مناسب صورت حال سے بچنے کے لئے دینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ یہ عوام اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہو کر بھی کٹھ پتلیوں کی طرح ایسے عناصر کے ہاتھوں استعمال ہونا اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں۔

یوں تو سرکاری افسر کی تعیناتی وزیراعظم کی صوابدید ہوتا ہے مگر موجودہ حالات میں وزیراعظم شہباز شریف کی بے بسی دیکھ کر لگتا ہے جیسے یہ دستخط بھی محض رسمی کارروائی ہو اور اصل میں فیصلے کا اختیار وزیراعظم کے پاس ہو ہی نا۔ ایسی صورتحال میں جہاں وزیراعظم اتنا بے بس اور مجبور ہو وہاں سویلین بالادستی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ نومبر کا مہینہ اپنے اختتام کے آخری مراحل میں ہے مگر تاحال وزیراعظم پاکستان جی ایچ کیو سے ایک سمری تک منگوانے سے قاصر ہیں۔

محض ایک معمولی سی تعیناتی اس ملک کے لئے بقا اور فنا کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں جہاں یہ تعیناتی ایک عام سی بات ہے وہاں پاکستان میں یہ شہ رگ کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ کیا ہم واقعی جمہوری ملک کے باسی ہیں یا ہم ڈکٹیٹر شپ میں زندگی گزار رہے ہیں آج تک اس بات کا فیصلہ کرنا ممکن نہیں ہو سکا۔

آئین کے راگ الاپنے والے بھی اس بات سے نالاں ہیں کہ آخر اس تعیناتی کو اتنا اہم مسئلہ کوں بنا دیا گیا ہے کیا آئین بھی محض لکھے ہوئے چند کاغذات ہیں جن کی کوئی اصولی حیثیت نہیں جب چاہا اپنے مقصد کے لئے اس کو بھی فراموش کر دیا۔

آج تک دنیا کے کسی ملک میں اس ایک تعیناتی پر اتنی بحث نہیں کی گئی جتنا پاکستان میں گزشتہ دو ماہ سے یہ مسئلہ طول اختیار کر چکا ہے۔

عوامی نمائندوں کی تمام تر توجہ اس ایک سرکاری افسر پر مبذول ہے اور باقی معیشت اور عوام کے مسائل سے کسی کو کوئی سروکار نہیں۔ پاکستان اس وقت ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا ہے زرمبادلہ کے ذخائر دن بدن ختم ہو رہے ہیں دوست ممالک نے مزید امداد سے انکار کر دیا ہے غریب کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے لیکن خبر رساں اداروں سے لے کر ایوان بالا تک ہر طرف صرف ایک ہی چمہ گوئی اور ایک ہی ہلچل ہے کہ اگلا آرمی چیف آخر کون ہو گا؟

نا جانے ہم کب اس بے یقینی کی کیفیت سے نکلیں گے کب ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر مستقبل کے لئے مناسب لائحہ عمل تیار کریں گے اور نا جانے کب یہ ملک صحیح معنوں میں عوامی جمہوریہ پاکستان بنے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments