نواز شریف تھک گئے، ڈر گئے یا بھاگ گئے؟


پاکستان میں شدید سیاسی بحران، آرمی چیف کی تعیناتی کے سوال پر پیدا ہونے والی بے یقینی، شکوک و شبہات اور ملک کو درپیش سنگین اندرونی و بیرونی خطرات کے عین بیچ خبر آئی ہے کہ نواز شریف اپنی صاحبزادی مریم نواز اور دیگر اہل خانہ کے ہمراہ یورپی ممالک کے تفریحی دورہ پر روانہ ہو گئے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب مسائل کا سامنا کرنے اور قوم کی رہنمائی کے لئے نواز شریف جیسے لیڈر کو ملک میں ہونا چاہیے تھا، برطانیہ سے ان کی پراسرار روانگی نے متعدد نئے سوال پیدا کر دیے ہیں۔

یوں تو یہ کوئی قابل ذکر وقوعہ نہیں ہے کہ کوئی شخص اپنے اہل خانہ کے ساتھ سیر و تفریح کے لئے دوسرے ممالک کا دورہ کرتا ہے لیکن جب اس شخص کا نام نواز شریف ہو اور وہ ملکی سیاست میں بدستور کلیدی کردار ادا کرنے پر مصر ہو تو یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ کہ برطانیہ سے اس اچانک روانگی کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سوال کو لے کر سوشل میڈیا پر نت نئی کہانیاں دہرائی جا رہی ہیں اور یہ قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ وہ کس ملک میں گئے ہوں گے اور وہاں سے وہ ’فرار‘ ہو کر کہاں جائیں گے۔

نواز شریف کا یہ دورہ اول تو پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں بے وقت اور غیر متوقع ہے۔ اس خبر سے ایک روز پہلے ہی تسنیم حیدر شاہ نامی شخص نے نواز شریف پر عمران خان پر حملے اور صحافی ارشد شریف کے قتل میں ملوث ہونے کے سنگین الزامات عائد کیے تھے۔ ان الزامات کو اے آر وائی سے نشر کیا گیا تھا تاہم یہ انٹرویو اے آر وائی کی برطانیہ میں ہونے والی نشریات میں شامل نہیں تھا۔ اس لئے انہیں کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی حالانکہ تحریک انصاف کے لیڈروں نے فوری طور سے اس انٹرویو کو سوشل اکاؤنٹس پر شیئر کر کے عمران خان کو سچا ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اب وزیر آباد سانحہ کے بارے میں پرویز الہیٰ کے تعاون سے قائم ہونے والی جے آئی ٹی کے سربراہ اور سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر نے تسنیم شاہ سے رابطہ کیا ہے اور انہیں جے آئی ٹی کو باقاعدہ بیان دینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

ان حالات میں لندن سے نواز شریف کی اچانک روانگی نے یہ شبہ ضرور پیدا کیا ہے کہ کیا نواز شریف برطانوی پولیس کی کسی غیر مناسب پیش رفت کے اندیشے کی وجہ سے لندن چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ تسنیم حیدر شاہ کا انٹرویو اور الزامات دیگر متعدد واقعات کی طرح کوئی پلانٹڈ ایونٹ ہو جس کے ذریعے پاکستان کی موجودہ صورت حال میں بے یقینی میں اضافہ کرنا مطلوب ہو۔ تاہم عین اس موقع پر شریف فیملی کا تفریحی دورہ کے نام پر لندن چھوڑنا شکوک کو پختہ کرے گا اور شریف خاندان کے علاوہ پاکستانی حکومت کے بارے میں الزام تراشی اور قیاس آرائیوں میں اضافہ ہو گا۔

یوں بھی یہ بات عام طور سے مشاہدہ کی جا رہی ہے کہ پاکستان میں اگرچہ شہباز شریف وزیر اعظم ہیں لیکن درحقیقت لندن سے نواز شریف تمام اہم فیصلے کرتے ہیں۔ انہوں نے خاص طور سے اسحاق ڈار کو اپنے ’نمائندہ خصوصی‘ کے طور پر وزیر خزانہ بنوا کر پاکستان بھیجا ہے۔ یوں حکومتی فیصلوں پر ان کی گرفت مضبوط ہو گئی ہے۔ حکومت ابھی تک نئے آرمی چیف کے نام کا فیصلہ نہیں کر سکی۔ ملک کے اہم وزیر اس حوالے سے ایک کے بعد دوسری تاریخ دے کر بے یقینی میں اضافہ کا سبب بن رہے ہیں۔ اس تقرری کے حوالے سے اگرچہ عمران خان نے اب ہمت ہار دی ہے اور کہا ہے کہ جو بھی نیا آرمی چیف بنے گا، وہ اسے قبول کر لیں گے لیکن اخباری کالموں اور ٹی وی ٹاک شوز میں یہ تبصرے سامنے آرہے ہیں کہ اس معاملہ پر فوج اور حکومت میں اتفاق رائے نہیں ہے جس کی وجہ سے جی ایچ کیو نے ایک روز پہلے تک نئے آرمی چیف کی تقرری کے لئے مجوزہ امیدواروں کے ناموں کی سمری وزیر اعظم ہاؤس نہیں بھجوائی تھی۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ کسی قسم کی کوئی پیچیدگی نہیں ہے اور معاملہ آئین کے مطابق بروقت طے کر لیا جائے گا۔ تاہم دیکھا جاسکتا ہے کہ ویک اینڈ سے پہلے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے اطلاع دی تھی ایک آدھ دن میں نام سامنے آ جائے گا۔ پھر وزیر دفاع خواجہ آصف نے خود کہا کہ منگل بدھ تک نئے آرمی چیف کے نام کا اعلان ہو جائے گا۔ اب وہ خود ہی اس معاملہ کو کھینچ کر جمعہ یا ہفتہ تک لے گئے ہیں۔ ایک معمول کی تعیناتی کے بارے میں، حکومت ہی کی طرف سے ایسی بدحواسی بے سبب نہیں ہو سکتی۔ خاص طور سے جب عمران خان جمعہ ہی کے روز راولپنڈی میں ’لاکھوں‘ لوگ جمع کر کے حکومت مخالف احتجاج منظم کرنے کا اعلان کرچکے ہیں تو حکومت کو اس اہم اعلان کے لئے اسی دن کا انتخاب نہیں کرنا چاہیے تھا۔

یہ واضح ہونے کے بعد کہ عمران خان جمعہ کو احتجاج کے لئے فیض آباد میں لوگوں کو جمع کرنا چاہتے ہیں اور ان کے بنیادی مقاصد میں آرمی چیف کے بارے میں حکومتی فیصلہ پر اثر انداز ہونا بھی شامل ہے تو حکومت کو فوری طور سے نئے آرمی چیف کا اعلان کر کے اس غیر ضروری ہیجان کو ختم کرنا چاہیے تھا۔ لیکن دیکھا جاسکتا ہے کہ حکومت اختیار اور آئینی استحقاق کے تمام تر دعوؤں کے باوجود فوری طور سے نئے آرمی چیف کی تقرری کا اعلان نہیں کر سکی۔

اب نواز شریف نے لندن چھوڑ دیا ہے۔ یا تو وہ سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتے۔ اس مقصد کے لئے وہ اپنی بیماری کو عذر بھی بنا سکتے تھے۔ دنیا بھر میں ایک خاص عمر کے بعد سیاست دان متحرک سیاسی زندگی ترک کر کے یادداشتیں لکھنے اور اپنے تجربات اور مشاہدات کو اگلی نسل تک پہنچانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں ایسی کوئی روایت مستحکم نہیں ہو سکی۔ جو شخص ایک بار کسی جماعت کے کسی عہدے پر قابض ہو گیا، پھر وہ اسے چھوڑنے کا نام نہیں لیتا۔ نواز شریف کو بھی سپریم کورٹ کے یک طرفہ اور کسی حد تک ظالمانہ حکم کے بعد ہی مسلم لیگ (ن) کی صدارت چھوڑ کر اپنے بھائی شہباز شریف کو یہ عہدہ دینا پڑا تھا۔ لیکن عملی طور سے دیکھا گیا ہے کہ پارٹی پر حقیقی کنٹرول نواز شریف ہی کا رہا ہے۔

شہباز شریف نے پارٹی میں اپنے ہمدردوں کا گروپ بنانے کی کوشش کی تھی لیکن اس سال کے شروع میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد لانے کے لئے انہیں بہر حال نواز شریف کی مکمل اطاعت کی تجدید کرنا پڑی تاکہ وہ خود کسی بھی طرح وزیر اعظم بن سکیں۔ شہباز شریف کا یہ شوق تو پورا ہو گیا لیکن دیکھا گیا ہے کہ ان سے پہلے آنے والے وزیر اعظم تو صرف اسٹبلشمنٹ کی خوشنودی کے محتاج ہوتے تھے لیکن شہباز شریف کو اسٹبلشمنٹ کے علاوہ بھائی کو بھی راضی رکھنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ گزشتہ ہفتہ کے دوران پانچ روز لندن میں نواز شریف سے مشاورت کے لئے موجود رہے تاکہ مستقبل کے آرمی چیف کے سوال پر دونوں بھائی ’ایک پیج‘ پر آ سکیں۔ تاحال کچھ کہنا ممکن نہیں ہے کہ یہ اتفاق رائے پیدا ہوسکا یا نہیں۔ اور حکومت اس وقت اس اہم تقرری کے حوالے سے جس مشکل کا شکار ہے، کیا وہ نواز شریف کی پیدا کردہ ہے یا اس کی کچھ دوسری وجوہات بھی ہیں۔

ملکی سیاست اور حکومتی معاملات پر اس حد تک دسترس رکھنے والے سیاسی لیڈر کو اول تو ایسے موقع پر ملک سے دور نہیں رہنا چاہیے تھا۔ یہ درست ہے کہ پاکستان میں نواز شریف کے خلاف متعدد مقدمات ہیں اور عدالتوں سے کوئی ریلیف لئے بغیر پاکستان آنے کی صورت میں انہیں جیل جانا پڑے گا۔ لیکن 2019 کے مقابلے میں ان کی پارٹی برسراقتدار ہے اور ان کے بھائی وزیر اعظم ہیں۔ جیل جانے کے باوجود ان کی صحت کو ویسے اندیشے لاحق نہیں ہوں گے، جن کا انہیں تحریک انصاف کی حکومت میں سامنا تھا۔ نواز شریف نے البتہ پاکستان واپس آنے کا حوصلہ نہیں کیا بلکہ کسی بھی طرح طاقت ور حلقوں کے ساتھ معاملات طے کر کے سہولت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے بارے میں ہونے والی کھینچا تانی میں یہ بنیادی نکتہ بھی شامل ہو کہ نئے آرمی چیف کی سربراہی میں نواز شریف اور ان کے دیگر اہل خاندان کو کتنی رعایت مل سکتی ہے۔

اس دوران ممتاز سیاستدان اور مسلم لیگ (ن) کے لیڈر جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ نواز شریف کو مزید وقت ضائع کیے بغیر فوری طور سے وطن واپس آنا چاہیے تاکہ ملک میں اسٹبلشمنٹ کے خلاف عوامی سیاسی جد جہد کو مستحکم کیا جا سکے۔ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسی کو تو اسٹبلشمنٹ کے سامنے کھڑا ہو کر ملک کے لیے قربانی دینی چاہیے۔ البتہ نواز شریف نے اپنے دیرینہ ساتھی اور آمریت کے خلاف جد و جہد کرنے والے ایک دلیر سیاست دان کی باتوں پر کان دھرنے کی بجائے یورپ کے تفریحی دورے پر روانہ ہونے کو ترجیح دی ہے۔ ایسے میں دشمن کھل کر اور دوست دبے لفظوں میں ضرور پوچھیں گے کیا نواز شریف تھک گئے، ڈر گئے یا بھاگ گئے۔

آخر کیا وجہ ہے کہ جس وقت ملک و قوم کو ایک ایسے قائد کی ضرورت ہے جو سیاست میں فوجی اثر و رسوخ کی کوششوں کے خلاف دیوار بن سکے، نواز شریف نہ صرف خاموش ہیں بلکہ لندن بھی چھوڑ چکے ہیں۔ حالانکہ اب تو ’ووٹ کو عزت دو‘ کے اصول کو منوانے اور اس سیاسی نعرے کے لئے سینہ سپر ہونے کا وقت ہے۔ یہ بھی نوشتہ دیوار ہے کہ وہی لیڈر مستقبل میں عوام کو قبول ہو گا جو اسٹبلشمنٹ کی سیاسی بازی گری کے خلاف کھل کر بات کرسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments