ملک میں کون کس کے خلاف ہے؟


پاکستان میں 21 ویں صدی کا آغاز براہ راست قائم فوجی آمریت سے شروع ہوا۔ 21 ویں صدی کے تیسرے عشرے کا منظر نامہ فوج کی ’ہائبرڈ‘ حاکمیت کا منظر نامہ پیش کر رہی ہے۔ کہنے کو سول پارلیمنٹ، سول حکومت، عدلیہ موجود ہوتی ہے لیکن پس پردہ فوجی ہدایات کی ہر سطح پہ تعظیم ہی نہیں بلکہ یقینی تعمیل کی مستقل صورتحال درپیش ہے۔ حکومت میں موجود اور حکومت میں آنے کو بے تاب اپوزیشن کا ملک میں قائم ’ہائبرڈ‘ حاکمیت کے نظام پہ کوئی اعتراض نہیں ہوتا، اعتراض، کشمکش صرف خود کو ’ہائبرڈ‘ حاکمیت کا نظام چلانے کے لئے ”اچھا منیجر“ ثابت کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ حکومت، اپوزیشن، ہائبرڈ نظام کی تمام سرگرمیاں ایک دوسرے کے خلاف ظاہر کی جاتی ہیں لیکن دراصل یہ ایک دوسرے کے خلاف ہر گز نہیں بلکہ یہ مفادات کے حصول کے لئے ”صحت مندانہ“ مقابلے کی کشمکش کے طور پر ظاہر ہوتی ہے۔

آٹھویں عشرے سے گزرتے ملک کی تاریخ اور بالخصوص گزشتہ نصف صدی کے احوال کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ملک کو سنبھالنے اور چلانے کا تمام عمل اگر کسی کے خلاف ہے تو وہ صرف اور صرف عوام ہیں۔ عوام کے ذریعے قائم اس ملک میں عوام کو قابو بلکہ نچلی سطح کی اوقات میں رکھنے کے انتظامات ”فول پروف“ ہیں۔ ملک کے انتظامی امور کو دیکھیں، فراہمی انصاف کے شعبہ جات کا جائزہ لیں، عوام کے حق میں امن و امان کی صورتحال کو دیکھیں، عوامی مفاد میں معیشت کی پالیسیاں اور حالت دیکھیں تو عوام کو بتانے کے لئے ایک صفحے کا مستقل بیان تیا ر ہوتا ہے کہ کسی بھی شعبے میں عوام کو سہولیات کی فراہم کے لئے وسائل نہیں ہیں۔

تاہم اگر عوام کے لئے قائم ملک کے تمام شعبے چلانے والوں کی آن بان اور شان دیکھیں تو ان پہ رشک آتا ہے۔ کاروبار مملکت چلانے والوں کے لئے عالمی سطح کے بہترین معیار کا صحت، تعلیم، شاندار سماجی زندگی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ کاروبار ملک چلانے والوں کی اپنی زندگیاں ہی شاندار نہیں بلکہ ان کی اولادوں، ان کی نسلوں کے مستقبل بھی محفوظ اور تابناک ہیں۔

بات اگر عوام کی ہو تو عوام مشکوک بھی ہیں، ناقابل اعتبار بھی ہیں، غدار بھی ہیں، ملک دشمنوں کے آلہ کار بھی ہیں، دہشت گرد بھی ہیں، ملک کے خلاف ففتھ جنریشن وار کے آلہ کار و سہولت کار بھی ہیں اور ملک کے نظام کے خلاف ”سیکورٹی رسک“ بھی ہیں۔ یوں ایک طرف کاروبار مملکت چلانے والے ہیں اور دوسری طرف عوام۔ ملک کو چلانے والوں کے ”شاندار“ منصوبوں، بے مثال حکمت عملیوں، عبرت ناک کارکردگی سے ملک کی کھوکھلی ہوتی حالت کے ذمہ دار بھی عوام ہی قرار پاتے ہیں۔

لیکن جس طرح ملک کو سنبھالنے اور چلانے والے ظاہری طور پر مختلف خانوں میں تقسیم نظر آتے ہیں، اسی طرح عوام کو بھی تقسیم در تقسیم کے آزمودہ مراحل سے گزارتے ہوئے ایسی حالت کو پہنچا دیا گیا ہے کہ جہاں انہیں شخصیت پرستی، فرقہ واریت، علاقائیت، لسانیت جیسے اتنے خانوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے کہ اب انہیں عوام کہنے سے پہلے کئی بار سوچنا پڑتا ہے کہ واقعی یہ عوام ہیں یا ایسے مختلف گروہ جنہیں مختلف طریقوں سے مغلوب اور مفتوح رکھا گیا ہے۔

بقول شاعر
بات یہ تیرے سوا اور بھلا کس سے کریں
تو جفا کار ہوا ہے تو وفا کس سے کریں
ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں
اب بتا کون سے دھاگے کو جدا کس سے کریں
تو نے تو اپنی سی کرنی تھی سو کر لی خاور
مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس کا گلہ کس سے کریں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments