آرمی چیف کی تعیناتی یا توہین عدالت کا مقدمہ، پی ٹی آئی کا لانگ مارچ راولپنڈی منتقل کیوں ہوا؟


پی ٹی آئیت عمران خان، لانگ مارچ
پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کا لانگ مارچ اسلام آباد کے دروازے پر پہنچ کر رُک گیا۔ روات کے علاقے سے آگے انھوں نے وفاقی دارالحکومت کی سرحد عبور نہیں کی۔

لانگ مارچ میں شریک افراد نے روات کے مقام پر پڑاؤ بھی نہیں کیا۔ وہ وہاں سے منتشر ہو گئے۔ آگے کہاں جانا ہے، کب جانا ہے اور کون لے کر جائے گا، اس کا فیصلہ عمران خان پر چھوڑ دیا گیا۔

وزیر آباد حملے میں زخمی ہونے والے عمران خان خود لاہور میں ہیں اور ان کی جماعت کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی ان کی جگہ مارچ کی قیادت کرتے رہے۔ عمران خان نے چند ہی روز قبل یہ فیصلہ کیا کہ اب ان کا یہ مارچ یا دھرنا 26 نومبر کو راولپنڈی اسلام آباد کے سنگم پر واقع فیض آباد پر ہوگا۔

یعنی روات میں لانگ مارچ روکنے کے بعد راولپنڈی میں دوبارہ جمع ہونے کے درمیان ایک ہفتے سے بھی زیادہ کا وقفہ دیا گیا۔ اس دوران پی ٹی آئی مری روڈ راولپنڈی میں جلسے اور ’پڑاؤ‘ کی تیاریوں میں مصروف ہے جہاں ٹینٹ سٹی یعنی خیمہ بستی بنائی جا رہی ہے۔

پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ عمران خان خود راولپنڈی پہنچ کر مارچ کی قیادت کریں گے لیکن عمران خان ابتدا میں کہتے رہے ہیں کہ ان کے مارچ کی منزل اسلام آباد ہے۔ تو کیا انھوں نے اپنا فیصلہ تبدیل کر لیا ہے؟ کیا وہ اسلام آباد نہیں جائیں گے اور راولپنڈی ہی میں رُکیں گے؟

اور اگر ایسا ہے تو اس کی کیا وجہ ہے؟ بعض سیاسی مبصرین اور تجزیہ کار یہ بات کرتے رہے ہیں کہ اس کا تعلق پاکستان میں نئے آرمی چیف کی تعیناتی سے ہو سکتا ہے۔ ان کے خیال میں عمران خان ابتدا ہی سے اس وقت مارچ لے کر اسلام آباد یا راولپنڈی پہنچنے کا ارادہ رکھتے ہیں ’جب ملک میں اس بڑی تعیناتی کا وقت قریب ہو۔‘

یاد رہے کہ نومبر کے آخری ہفتے میں ہی پاکستان میں فوج کے نئے سربراہ کی تعیناتی کا عمل مکمل ہونا ہے جبکہ اسی دوران موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اپنی مدت ملازمت پوری کر کے ریٹائر ہو جائیں گے۔

بی بی سی سے ایک حالیہ گفتگو میں صحافی اور تجزیہ نگار سلیم بخاری، سہیل وڑائچ اور سلمان غنی تینوں کی رائے تھی کہ ’عمران خان دانستاً اپنے مارچ کی رفتار سست رکھے ہوئے ہیں کہ وہ 29 نومبر کے قریب پہنچیں۔‘

تجزیہ نگاروں کے خیال میں حالیہ دنوں میں عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنماوں کی تقاریر میں اسلام آباد کے بجائے راولپنڈی میں پڑاؤ یا پیش قدمی کی بات زیادہ ہو رہی تھی۔

خیال رہے کہ راولپنڈی ہی میں فوج کا ہیڈکوارٹر یعنی جی ایچ کیو واقع ہے۔

بعض مبصرین سمجھتے ہیں کہ اس طرح لانگ مارچ کے ذریعے سابق وزیراعظم عمران خان اس تعیناتی کے معاملے پر اثرانداز ہونے کی کوشش کریں گے اور ’وہ دکھانا چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ عوام کی کتنی طاقت ہے۔‘

اس طرح وہ حکومت سے جلد نئے انتخابات کی تاریخ لینے کے اپنے مطالبے میں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ وفاقی وزرا نے بھی یہی دعویٰ کیا ہے تاہم پی ٹی آئی اس تاثر کی تردید اور نفی کرتی رہی ہے۔ اس کی قیادت کا کہنا ہے ان کے مارچ کا آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔

نئے آرمی چیف کی تعیناتی کی سمری کا معاملہ کیا تاخیر کا شکار ہو رہا ہے؟

تو روات پہنچ جانے کے باوجود ایک ہفتے بعد کی تاریخ کیوں دی گئی؟

پاکستان تحریکِ انصاف کی رہنما اور پنجاب کے وزیرِاعلٰی کی مشیر مسرت جمشید چیمہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی جماعت نے یہ فیصلہ عمران خان کے زخموں کی نوعیت کو سامنے رکھتے ہوئے کیا۔

’پی ٹی آئی کی تمام قیادت کا متفقہ فیصلہ تھا کہ عمران خان کی صحت کے حوالے سے ڈاکٹروں کی رائے کے مخالف کوئی کام نہیں کیا جائے گا اور ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ان کے زخموں کی نوعیت ایسی ہے کہ اتنے وقت سے پہلے ان کے لیے ممکن نہیں ہو گا کہ وہ خود لانگ مارچ کی قیادت کر سکیں۔‘

مسرت جمشید چیمہ کے مطابق ڈاکٹروں کی رائے کو سامنے رکھتے ہوئے عمران خان اور جماعت کی دیگر قیادت نے 26 نومبر کو راولپنڈی پہنچنے کا فیصلہ کیا۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار راشد رحمان بھی اس خیال سے متفق ہیں کہ عمران خان کو صحتیاب ہونے میں اتنا وقت لگ سکتا ہے۔

’ان کو دونوں ٹانگوں میں گولیوں کے زخم ہیں اور یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ ظاہری بات ہے کہ اس سے صحتیاب ہونے میں وقت لگتا ہے۔‘

تاہم راشد رحمان کے مطابق عمران خان کی طرف سے 26 نومبر ہی کی تاریخ رکھنا اور اسلام آباد کے بجائے راولپنڈی کا رُخ کرنا ’یقیناً ان آوازوں کو تقویت دیتا ہے جو کہتے ہیں ان کی اس چال کا تعلق آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے یا نئے آرمی چیف پر دباؤ ڈالنے سے ہو سکتا ہے۔‘

دوسری صورت میں پی ٹی آئی عمران خان کی مکمل صحتیابی تک راولپنڈی سے لانگ مارچ کے دوبارہ آغاز کو مزید مؤخر کر سکتی تھی۔

پی ٹی آئی رہنما مسرت جمشید چیمہ کا کہنا ہے کہ ’26 نومبر ہی طے ہے، اس میں کوئی مزید تبدیلی نہیں ہو گی، ہم اپنی تیاریاں کر رہے ہیں۔‘

لانگ مارچ

کیا عمران خان فوج کے سربراہ کی تعیناتی پر اثرانداز ہونا چاہتے ہیں؟

پی ٹی آئی رہنما مسرت جمشید چیمہ کا کہنا ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت کا لانگ مارچ کے ذریعے ایسا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔

’عمران خان صاحب پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ معاملہ کس طرف جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ لانگ مارچ کے مطالبات اب بھی وہی ہیں جو بنیادی طور پر مارچ شروع کرتے وقت تھے یعنی جلد عام انتخابات۔

’اب ان میں ایک مطالبہ یہ بھی شامل ہو گیا ہے کہ ہماری درخواست کے مطابق عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر درج کی جائے۔‘

تجزیہ نگار راشد رحمان کے خیال میں لانگ مارچ کے ذریعے فوج جیسے ادارے کے اندر ہونے والی قیادت کی تبدیلی پر اثر انداز ہونا مشکل ہو گا۔

’عمران خان یا ان کی جماعت یا کسی بھی جماعت کے لیے فوج کے سربراہ کی تعیناتی کے عمل پر اثرانداز ہونا مشکل ہے۔ اس معاملے پر فوج کے اندر کافی انتظام اور اتحاد پایا جاتا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ چند ہزار لوگوں کے ساتھ راولپنڈی میں بیٹھ کر فوج کے ادارے پر دباو ڈالا جا سکتا ہے۔‘

راشد رحمان کا خیال ہے کہ اگر پی ٹی آئی راولپنڈی یہ سوچ کر جانا چاہتی ہے تو اس میں اس کی کامیابی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کیا نئے آرمی چیف کی تعیناتی پاکستان میں سیاسی بحران ختم کر دے گی؟

پاکستان کے آرمی چیفس کے دلچسپ حقائق: کوئی فقط ڈھائی ماہ عہدے پر رہا تو کوئی فوجی سربراہ بنتے ہی گرفتار ہوا

لانگ مارچ اسلام آباد سے راولپنڈی منتقل کیوں؟

پنجاب کے شہر راولپنڈی میں پاکستان تحریکِ انصاف کی اپنی حکومت ہے۔ وہاں پاکستانی فوج کا ہیڈکوارٹر بھی ہے۔ دوسری طرف اسلام آباد میں پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت میں اتحادی جماعتوں کی حکومت ہے۔

پی ٹی آئی کے مطابق ان کے مطالبات وفاقی حکومت سے ہیں جن میں مرکزی مطالبہ نئے انتخابات کی تاریخ لینا ہے۔ ایسی صورت میں لانگ مارچ کا رُخ وفاقی حکومت کے زیرِانتظام اسلام آباد کی طرف ہونا چاہیے تھا، ایسا کیوں نہیں؟

رہنما پی ٹی آئی مسرت جمشید چیمہ کہتی ہیں کہ ’ابتدا ہی سے ان کی جماعت کا فیصلہ تھا کہ لانگ مارچ راولپنڈی ضرور جائے گا۔ جیسے ہم پنجاب کے دوسرے تمام شہروں میں گئے۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ راولپنڈی میں پڑاؤ کرنے کے فیصلے کے پیچھے ایک عنصر یہ بھی ہے کہ ’پنجاب میں ہماری اپنی حکومت ہے۔ اسلام آباد میں وفاقی حکومت نے پہلے بھی ہماری مارچ کے شرکا کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ ہم دوبارہ کیوں چاہیں گے کہ ہمارے ساتھ ایسا ہو۔‘

مسرت جمشید چیمہ نے چند وفاقی وزرا کے حوالے سے کہا کہ وہ پہلے ہی بیانات دے رہے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی کے مارچ کو ’دیکھ لیں گے‘ اور ’طاقت سے روکیں گے۔‘

’اس لیے جماعت نے فیصلہ کیا کہ ہم راولپنڈی میں پڑاؤ کریں گے اور وہاں سے آغاز کریں گے اور پھر دیکھیں گے کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ وہاں سے فیصلہ ہو گا کہ اسلام آباد جانا ہے اور کب جانا ہے۔‘

عمران خان، پی ٹی آئی، تحریک انصاف

’وہ توہینِ عدالت کے مقدمے کی طرف بھی دیکھ رہے ہوں گے‘

صحافی اور تجزیہ نگار راشد رحمان کے خیال میں پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے لانگ مارچ کا روات پہنچ کر اسلام آباد میں داخل نہ ہونے اور پھر مارچ کے دوبارہ آغاز کے لیے راولپنڈی کا انتخاب کرنے کے پیچھے ایک وجہ سپریم کورٹ میں عمران خان کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے کی کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔

راشد رحمان سمجھتے ہیں کہ 26 نومبر سے قبل سپریم کورٹ میں عمران خان کو توہین عدالت کے مقدمے میں جواب بھی جمع کروانا ہے جس پر مزید کارروائی ہونا ہے۔

’اس لیے وہ نہیں چاہیں گے کہ وہ اس سے قبل اسلام آباد میں ایک مرتبہ پھر داخل ہوں اور اس کا اثر ان کے مقدمے پر ہو۔ پہلے ہی ان کی طرف سے جو دفاع عدالت میں پیش کیا گیا اس کو انتہائی کمزور قرار دیا جا چکا ہے۔‘

وفاقی حکومت کی طرف سے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے کی درخواست پر کارروائی میں عدالت کو بتایا گیا تھا کہ رواں برس مئی میں لانگ مارچ کرتے ہوئے عمران خان نے مبینہ طور پر سپریم کورٹ کے اس وقت کے احکامات کی خلاف ورزی کی تھی۔

عدالت نے انھیں اسلام آباد کے ریڈ زون نہ آنے کی ہدایت کی تھی جبکہ عمران خان نے لانگ مارچ میں شامل صوبہ خیبرپختونخوا سے آنے والے شرکا کو ریڈ زون جانے کی ہدایات دی تھیں۔

تجزیہ نگار راشد رحمان کہتے ہیں کہ اس روز ریڈ زون میں لانگ مارچ کے شرکا کی طرف سے توڑ پھوڑ بھی کی گئی اور پولیس کے ساتھ ان کی جھڑپیں بھی ہوئیں۔

’اس لیے عمران خان چاہیں گے کہ وہ راولپنڈی میں جمع ہوں، وہاں وہ یہ بھی دکھا دیں کہ ان کے ساتھ کتنے لوگ ہیں اور پھر وہاں بیٹھ کر دیکھا جائے کہ عدالت کیا سمت لیتی ہے۔‘

کیا وہ وفاقی حکومت کو جلد انتخابات پر راضی کر لیں گے؟

تجزیہ نگار راشد رحمان کے خیال میں عمران خان کے لیے لانگ مارچ کے ذریعے یہ کرنا بھی مشکل ہو گا کہ وفاقی حکومت ان کا مطالبہ مانتے ہوئے جلد عام انتخابات پر راضی ہو جائے۔

’اس کے لیے آپ کو حالات کو دیکھنا ہو گا۔ اس وقت اگر انتخابات ہوتے ہیں تو زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ عمران خان صاحب جیت جائیں گے اور یہ نہ تو اسٹیبلشمنٹ چاہے گی اور نہ ہی وفاقی حکومت میں شامل جماعتیں چاہتی ہیں۔‘

راشد راحمان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتیں اس کوشش میں ہیں کہ آئندہ برس ستمبر تک معاشی حالات بہتری کی طرف جائیں گے تو اس وقت وہ زیادہ اعتماد کے ساتھ عوام کے پاس ووٹ مانگنے کے لیے جا سکیں گے۔

’ابھی تو انھوں نے عمران خان کی حکومت کا تمام ملبہ بھی اپنے اوپر لے لیا ہے اور اس کا انھیں سیاسی طور پر بھاری نقصان ہوا۔ ایسی صورتحال میں وہ کبھی بھی جلد انتخابات کی طرف نہیں جانا چاہیں۔‘

اس لیے ان کے خیال میں یہ بھی مشکل ہے کہ عمران خان کا جلد انتخابات کا مطالبہ مان لیا جائے تاہم پی ٹی آئی کی رہنما مسرت جمشید چیمہ کے مطابق ان کی جماعت جلد انتخابات کے مطالبے پر اپنے مؤقف پر سختی سے قائم ہے۔

’عمران خان صاحب اپنے مطالبے پر سختی سے قائم ہیں کہ حکومتی اتحاد سے اس وقت تک کوئی بات نہیں ہو گی جب تک وہ جلد انتخابات کی تاریخ نہ دے دیں۔ ہم خان صاحب کو بات کرنے کے آمادہ کر سکتے ہیں مگر پہلی شرط یہی ہے کہ جلد انتخابات کی تاریخ دی جائے۔‘

مسرت جمشید چیمہ کا کہنا تھا کہ راولپنڈی سے جب لانگ مارچ کا دوبارہ آغاز ہو گا تو یہی ان کی جماعت کا بنیادی مطالبہ ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments