صرف بے روزگاری مسئلہ نہیں بلکہ کام چوری بھی بڑا مسئلہ ہے


دنیا بھر میں مہنگائی کا سلسلے تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے اور اس کے اثرات پاکستان میں بھی نظر آرہے ہیں۔ کوئی دن اب خاموش نہیں گزرتا، ہر دن کوئی نہ کوئی ضرورت کی چیز مہنگی ہوجاتی ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کے ساتھ ساتھ ایک بڑا مسئلہ بے روزگاری کا بھی ہے اور اس سے بھی بڑا مسئلہ کاہلی اور کام چوری کا ہے۔ یہ کاہلی اور کام چوری کا معاملہ ڈائریکٹ بھیک اور گداگری سے ملتا ہے۔

بہت سے نوجوان بھیک مانگتے ہوئے یہ جملہ کہتے ہیں کہ روزگار نہیں ہے مگر اس بات میں پوری طرح صداقت نہیں ہے، ہاں روزگار کی کمی ہے یاں پھر اس معیار کی نہیں جس معیار کی نوکری درکار ہے یا با حیثیت ڈگری وہ نچلے معیار کی ہے۔ مان لیا مگر سب سے نچلا معیار اور پستی تو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا اور اس صورت میں پھیلانا کہ جب پورا جسم سلامت ہو۔ یہ مانگنے کی عادت تو ویسے بھی بہت پست اور کم تر ہے اور محنت کر کے روزی کمانا تو عبادت ہے۔

بات کچھ یوں ہے کہ گزشتہ کئی مہینوں سے بھیک مانگنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھتی دیکھ رہا ہوں۔ ان بھیک منگوں میں بڑی تعداد ہٹے کٹے جوانوں کی ہے جن کا تمام جسم سلامت ہے۔ اس کے علاوہ بھیک مانگنے کے نئے ٹرینڈز بھی متعارف ہوئے ہیں جس میں ایک نوجوان دو بچوں کے ساتھ روڈ پر کھڑا ہوتا ہے جس میں ایک چھوٹا بچہ کندھے پر مسلسل سو رہا ہے اور دوسرا بچہ ساتھ کھڑا ہے۔ دوسرے طریقے میں بھی منظر یہ ہی ہے بس ساتھ بیوی کھڑی ہے۔ یہ منظر دیکھ کر بہت سے لوگوں کا دل نرم پڑ جاتا ہے اور پھر وہ مدد کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

ان فیملیز کو غور سے دیکھا جائے تو یہ لوئر مڈل کلاس کے ہوتے ہیں اور میاں بیوی دونوں تندرست اور توانا ہوتے ہیں مگر اس سب کے باوجود بچوں کے ہمراہ بھیک مانگنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یعنی کے نئی نسل کو باقاعدہ بھیک مانگے کی تربیت دے رہے ہیں۔ اگر یہ دونوں یعنی میاں بیوی کام کرنا چاہیں یعنی محنت کرنا چاہیں تو دونوں کو چھوٹا موٹا روزگار مل سکتا ہے لیکن یہ نہیں کریں گے کیونکہ ان کا کامیاب تجربہ موجود ہے کہ روزگار میں کمائی کم ہوگی اور بھیک مانگنے میں بہت کمائی ہے اور بغیر محنت کے ہے۔ مالک کی جھک جھک سے بھی نجات ہے اور محنت سے بھی چھٹکارا ہے۔

اس ڈھٹائی کے بارے میں ان سے سوال کرو تو وہ جواب دینا بھی پسند نہیں کرتے اور اگر کوئی جواب دے بھی تو انتہائی مختصر جواب دیتے ہیں کہ روزگار نہیں ہے اور بچوں کے لانے پر سوال ہوتا ہے کہ گھر پر بچوں کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتے ہیں یا پھر ہمارا گھر نہیں ہے اور ہم سڑک پر ہی رہتے ہیں۔ کوئی بھی کام ہو وہ برا ہو یا اچھا اس میں مسلسل جدت آتی رہتی ہے اور مارکیٹ کی بھی ڈیمانڈ ہوتی ہے۔ جب اس گداگری کے پرانے طریقے بے نقاب ہوئے تو اس طرح کے نئے طریقے متعارف ہو گئے اور مستقبل میں مزید اس طرح کے طریقے نظر آتے رہیں گے۔

ایک اور کہانی جو میرے سامنے کی ہے، میرے علاقے میں تین ہم شکل لڑکے ہیں جن کو میں گزشتہ 4 سال سے اپنے علاقے میں دیکھ رہا ہوں وہ روزانہ میرے علاقے میں گشت کرتے ہیں، ننگے پیر ہوتے ہیں اور بھیک مانگتے ہیں، بلکہ پیچھے لگ جاتے ہیں۔ شروع شروع کے دنوں میں خوف میں نظر آتے تھے مگر اب محسوس ہوتا ہے کہ سڑکوں نے انھیں بہت کچھ برا سکھا دیا ہے اور وہ غیر اخلاقی الفاظ کہتے اور غیر اخلاقی حرکتیں کرتے دیکھے بھی گئے ہیں۔

یہ تو بس دو ہی آنکھوں دیکھی باتیں ہیں اس طرح کی ہزاروں کہانیاں اسی شہر میں موجود ہیں۔ کسی کے سامنے با حالت مجبوری ہاتھ پھیلانا الگ چیز ہے لیکن اس کو عادت بنانا اور اس کے تاویل دینا پستی کی جانب شروعات ہے۔ یاد رکھیں جب مسلسل ہاتھ پھیلتا رہے گا تو یہ قدرتی طور پر موجود غیرت کو ختم کرتا رہے گا اور پھر جرائم کی دنیا میں داخلہ بہت آسان ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments