گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کیلئے گرینڈ جرگہ ضروری


قیام پاکستان اور گلگت بلتستان کو چوہتر سال گزر گئے۔ اس طویل عرصے کے دوران گلگت بلتستان کی جغرافیائی، نظریاتی اور آئینی تبدیلیوں کا جائزہ لیا جائے تو ، یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے، آج ہم سفر کے نقطہ آغاز پر بھی کھڑے نہیں بلکہ کئی جہت پیچھے چلے گئے ہیں۔ جہاں سے یہ سفر شروع ہوا تھا۔ یکم نومبر کو جس ریاست کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اس کی اپنی ایک الگ شناخت، پرچم، روب و دبدبہ اور سب سے بڑھ کر ایک قوم تھی، اس قوم کی سمت واضح تھی، ایسے قائدین اور رہنما تھے، جن کے نظریے پر قوم لبیک کہتی تھی۔

16 نومبر کے بعد ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ مجاہد قوم اور ان کی اولاد نظریہ قومیت، نظریہ وحدت اور شناخت کھوتی رہی۔ وہ قوم، جس نے سکھوں، ہندوں اور ڈوگروں کے پرخچے اڑا دیے تھے، جو نہتے تھے، مگر پھر بھی فاتح بن کر ابھرے، جنہیں ہتھیار نہیں اپنی قوت بازوئے ایمانی پر یقین کامل تھا۔ آج وہ قوم مقصد بھی فراموش کر بیٹھی، جس مقصد کے لیے ان کے آباؤ اجداد نے قربانیاں پیش کی تھیں۔وہ ماضی تھا، روشن ماضی، چمکتا دمکتا ماضی اب یہ حال ہے۔ حال، مستقبل کا تعین کرتا ہے۔ حال مایوس، مستقبل تقسیم، حال انتشار، مستقبل تاریک۔ اقبال کے اس شعر کو ہم ایک خاص ہی پیرائے میں کیوں لیتے ہیں، غور کریں تو ہماری حالت پر بھی صادر آتا ہے۔

تھے تو آبا وہ تمہارے ہی، مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو

ہاں یقیناً وہ ہمارے آبا ہی تھے، جنہوں نے ہمارے مستقبل کے لیے ڈنڈوں کے زور پر اپنے سے کئی گنا طاقت ور دشمن سے میدان جنگ سجا لیا۔ دشمن کو شکست فاش سے دو چار کر کے فاتح بن کر ابھرے۔ 28 ہزار مربع میل کو ہمارے حوالے کیا۔ مگر آج ہم ایک دوسرے کو شکست فاش دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ آج ہمارا حال یہ ہے کہ نہ ہی ہم ایک قوم ہیں، نہ ہی ہمارا پرچم رہا، نہ ہی ہمارا جاہ و جلال رہا، نہ ہی وہ قیادت رہی، نہ ہی حقوق کی جنگ کے لیے وہ قوت ایمانی رہی۔

ہاں البتہ آج ہماری شناخت، شیعہ، سنی، اسماعیلی، نگری، چلاسی، گلگتی، بلتی اور استوری ہے، نہ کہ گلگت بلتستانی۔ گر یوں ہی تماشا بین رہے تو ، ان قریب ہماری شناخت بھی مٹ جائے گی۔ آج ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہماری شناخت کیا ہے؟ ہمارے آئینی حقوق کی راہ میں رکاوٹ کون ہے؟ ہمارا مستقبل کیا ہے؟ راقم طویل سوچ و بچار، فہم و فراست، مطالعہ و مشاہدہ اور زمینی حقائق کا بغور جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ ہماری شناخت، ہمارے آئینی حقوق کی راہ میں رکاوٹ ریاست، حکومت، ریاستی ادارے اور عسکری ادارے نہیں بلکہ ہم خود ہیں۔

ہم ہی وہ پہاڑ ہیں جس کے پیچھے ہماری شناخت، ہماری قومیت، ہمارا مستقبل پوشیدہ ہے۔ پس ہمیں اس سے تسخیر کرنا ہو گا، جس کا ہمیں ادراک نہیں۔ آپ خوب واقف ہیں، حالات سے، گلگت بلتستان کی تقسیم در تقسیم سے، چاہیے وہ تقسیم مذہبی ہو یا لسانی یا پھر علاقائی۔ چوہتر سالہ طویل محرومیوں کے باوجود آج بھی آئینی حقوق کا مسئلہ فرقہ واریت کی نذر ہے۔ یہی وہ تلخ حقائق ہیں، جنہیں بنیاد بنا کر ہم بنیادی آئینی حقوق سے محروم ہیں۔

اب وقت آ چکا ہے کہ ہمیں توہم پرستی، فرقہ پرستی کے ان بتوں کو توڑنا ہو گا۔ ہمیں یک جان ہو کر اپنے مستقبل کے لیے سوچ و بچار کرنا ہو گا۔ کوئی ایسا لائحہ عمل اختیار کرنا ہو گا، جو ہم آہنگی کا سبب بنے، ایسا واضح لائحہ عمل جو ہر گلگت بلتستانی کو قبول ہو، ایسا اقدام جس کی شیعہ، سنی اور اسماعیلی سب تائید کریں، اور اس لائحہ عمل کے لیے ہمیں مل کر کام کرنا ہو گا، اس لائحہ عمل کی تشکیل کے لیے گلگت بلتستان میں ایک گرینڈ جرگہ کا انعقاد کرنا ہو گا۔

ایسا گرینڈ جرگہ جس میں گلگت بلتستان کے تمام اضلاع کی سیاسی، مذہبی تنظیموں کی نمائندگی ہو، قوم پرست، وفاق پرست، علاقہ پرست اور مذہب پرستوں کی بھی نمائندگی ہو، اس گرینڈ جرگہ کی قیادت قاضی نثار، آغا راحت حسین الحسینی اور اسماعیلی برادری کے پیشوا اور با بصیرت اہل فکر و تدبر سے مزین لوگ کریں۔ اس گرینڈ جرگہ کا ون پوائنٹ ایجنڈا ہو ”صوبہ، عبوری صوبہ، کشمیر طرز کا سیٹ اپ یا مکمل آزاد اور خود مختار ریاست گلگت بلتستان کا قیام“ ان نکات پر بحث ہونی چاہیے۔

مکمل ہم آہنگی، فہم و فراست و بصیرت اور مضبوط دلائل کے بعد کثرت رائے سے ایک ہی نقطہ پر سب کو آمادہ ہونا ہو گا۔ اس کے بعد اس ون پوائنٹ ایجنڈے کی تکمیل کے لیے مشترکہ لائحہ عمل کے تحت کام شروع کیا جائے، مساجد، امام بارگاہ، منبر و محراب، مدارس، جلسہ گاہ، اسٹیج، قوم پرست، سیاسی و مذہبی جماعتیں ہم آواز ہو کر ون پوائنٹ ایجنڈے کو ہر فورم پر پھیلائیں۔ ایک تحریک شروع کی جائے اور گلگت بلتستان کے ہر کونے تک اس ون پوائنٹ ایجنڈے کا پرچار کیا جائے۔

ہر جمعہ کے خطبے میں اس ایجنڈے کو شامل کیا جائے، ہر جمعہ کے بعد اجتماعی ریلیاں نکالی جائیں، خاص کر تمام جامہ مساجد سے مطالبہ کیا جائے۔ جب یہ مشترکہ ون پوائنٹ ایجنڈا کے متعلق مساجد و منبر اور جماعت خانہ سے آواز بلند کی جائے گی تو عوام انتشار سے نکل آئے گی، فرقوں اور علاقوں میں بٹے لوگ ایک قوم بن کر حقوق کے لیے کوشاں ہوں گے ، اس کے علاوہ گلگت بلتستان کی سطح پر تعلیمی اداروں میں ایسے نظریاتی افراد کے لیے جگہ بنائی جائے۔

جو نوجوان نسل کو ان کی شناخت، ان کے حقوق سے آگاہ کریں۔ جب گلگت بلتستان کے بڑے تعلیمی اداروں میں ذہن سازی، قوم سازی ہوگی تو مستقبل کے رہنما یعنی آج کے نوجوان اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہوں گے ۔ صرف کلچرل ڈانس کر کے قومی جذبے سے بری الذمہ قرار نہیں پائیں گے، بلکہ میدان عمل میں عملی اقدامات کرتے نظر آئیں گے۔ ساتھ ہی ملکی اور عالمی سطح پر بھی وفود بھیجیں جائیں اور عالمی فورمز میں آواز بلند کی جائے، اقوام متحدہ کا فورم ہو یا پھر انسانی حقوق کا یا پھر عالمی عدالت ہو یا یورپی یونین ہر جگہ تک اپنی آواز پہنچائی جائے۔ ملک کے اندر تمام بڑے مذہبی پیشواوٴں سے اور ریاستی و عسکری اداروں سے باضابطہ بات چیت کی جائے تاکہ حقوق کا حصول ممکن ہو، یاد رہے یہ عمل پیچیدہ اور مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments