کیا پی ٹی آئی تقسیم در تقسیم ہونے جا رہی ہے؟


نئے آرمی چیف کی تقرری اور جنرل باجوہ کی سبکدوشی اور سبکدوشی کی الوداعی تقریب کے دوران جنرل باجوہ کا خطاب نے سیاست کو عموماً اور پی ٹی آئی کو خصوصاً ایک نئے موڑ پر لا کر کھڑا کر دیا۔

آرمی چیف کی تقرری کے بعد چھبیس تاریخ وہ اہمیت اختیار کر گئی تھی جو حیثیت آرمی چیف کی ریپلیسمنٹ کو دی گئی تھی گو کہ اب اس جلسے کو پنڈی یا اسلام آباد میں جمانے میں وہ دم خم باقی نہیں رہا تھا پھر بھی لوگ عمران خان سے کسی، یو، یا ، وی، ٹرن کے انتظار میں ضرور تھے۔

جلسہ ہوا، لوگ بھی آئے، کم یا زیادہ ادھر بحث یہ نہیں پر آئے، خطرے اور دہشت گردی کے پہلے سے اطلاعات کے باوجود، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ گراؤنڈ پر اب بھی لوگ یا یوتھ عمران خان پر مر مٹنے کے لئے تیار ہیں۔

لیکن عمران خان کا اس جلسے میں ساری باتیں تکراری ہونے کے بعد جو اضطراری بات تھی وہ اسمبلیوں سے استعفی کی تھی جن کا نہ تو اسمبلیوں کے کرتا دھرتاؤں کے وہم و گمان میں تھا اور نہ عمران نے کسی سے اس بارے میں ماسوائے ایک دو قریب خاص کے شاید مشورہ بھی کیا ہو۔

یہ خبر کسی پر بجلی بن کر گری ہو یا نہ ہو پنجاب کے وزیراعلی چودھری پرویز الٰہی پر ضرور گری ہوگی اور اس اعلان کے بعد جو نئی صورت حال نے جنم لیا ہے وہ عمران خان یا ان کی پی ٹی آئی میں مزید دراڑ ڈالنے اور تقسیم در تقسیم کرنے کا ایک سنجیدہ منصوبہ ہے جس نے عمران خان کو رنجیدہ، سنجیدہ یا مایوسی کی کیفیت میں ڈال کر اس پر لب کشائی کرنے پر مجبور کیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ خیبر پختونخوا میں عمران خان کی حکومت ہے اور اس جلسے میں وزیر اعلی محمود خان عمران خان کے ہم سنگ بظاہر بیٹھے ہوئے ضرور تھے۔ لیکن اندرون میں بیٹھے ہوئے نہیں تھے۔

خیبر پشتونخوا میں وزیر اعلی محمود خان کی جس طرح سیاسی طور پر اپنے آپ پر گرفت نہیں ہے بالکل اسی طرح اپنے ایم پی ایز پر بھی کوئی دسترس نہیں رکھتے، باقی رہے عمران خان تو اب اس ساری سیاسی الٹ پلٹ کے بعد عمران خان بھی سیاسی طور پر نہ صرف الٹ پلٹ ہو گئے ہیں بلکہ بکھر بھی گئے ہیں اور آنے والے وقتوں میں شاید سیاسی طور پر ریزہ ریزہ بھی ہو جائیں اور ہر ریزہ نہ صرف عمران خان کی آنکھوں میں دھول بلکہ کنکر بن کر گرے گا جو نہ صرف عمران کی سیاسی بصر کو دھندلا یا مجروح کرے گا بلکہ بصارت کو بھی مفلوج کرے گا۔

کے پی میں وہ گروپ جو پہلے سے عمران خان اور محمود خان سے نالاں بیٹھے ہوئے ہیں ان کو ان کے اختلاف سے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا چانس مل جائے گا، وہ استعفی نہیں دیں گے وہ اس صورت حال میں عوام اور دوام میں جانے سے پہلے ہزار بار سوچیں گے۔ اور پھر جن کو یہ بھی یقین ہو چلا ہو کہ اب سیاسی ہوا وہ نہیں چل رہی ہے جو چلی تھی تو وہ ضرور ہوا کے رخ بدلنے سے اپنے رخ بھی بدلیں گے۔

رہ گئے چودھری پرویز الٰہی تو وہ تو ہمیشہ وقت اور حالات کے ساتھ چلنے والے شخص ہیں۔ جو اپنے بھائی کے ساتھ راستے الگ کر سکتے ہیں تو عمران خان ان کے لئے چہ معنی دارد۔ اور چودھری پرویز الٰہی کبھی بھی سٹیبلشمنٹ کے خلاف نہ گئے ہیں اور نہ جائیں گے۔

اس طرح پرویز خٹک، شاہ محمود قریشی، فواد چودھری، شہباز گل، اعظم سواتی وغیرہ اپنے اپنے پرانے ڈگر پر آ جائیں گے اور اپنے آپ کے سروائیول کے لئے پی ٹی آئی کو شاید اے سے لے کر زیڈ تک بخرے کریں اور جو انجام مسلم لیگ کا ہوا تھا جو آخر میں مسلم لیگ ضیاء یا زیڈ پر اکر رکھی تھی بالکل اس طرح پی ٹی آئی کسی زیڈ کے ڈیجٹ پر آ کر سپلٹ ہو جائے گی۔

سیاسی تاریخ میں اصغر خان کو بھی بہت اٹھان ملی تھی اور سیاسی طور پر بڑے بڑے جلسے کیے جو اب تک ریکارڈ ہے لیکن بالآخر صرف اکیلے اپنے گھر تک محدود ہو کر رہ گئے۔

بھٹو سے زیادہ کون پاپولر تھا لیکن ان کی پیپلز پارٹی اب بھٹو کی پیپلز پارٹی نہیں گو کہ میدان میں ہے لیکن میدان کسی اور کا ہوتا ہے پچ کوئی اور بناتا ہے یہ صرف پچ کی کنڈیشن کو دیکھ کر کھیلتے ہیں۔

اس سے پہلے نیپ سے بڑی سیاسی طاقت کون تھی جس کے سیاسی وارثین اب اتنے ٹکڑوں میں بٹ چکے ہیں کہ اب ان سیاسی وارثین کے وارثین بھی حالیہ سیاست میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔

ایم کیو ایم کے خلاف کراچی میں کوئی پر نہیں پھڑ پھڑا سکتا تھا لیکن جب ان کو پروان چڑھانے والوں نے ان کے لئے نہ صرف اڑنے کی فضا آلودہ کی بلکہ ان کے پر بھی کاٹنے شروع کیے تو یہ سیاسی پرندہ اپنے پروں سمیت نہ صرف واپس زمیں پر آ گرا بلکہ ان کے پر نکال نکال کر اس جیسے کئی مصنوعی سیاسی پرندوں میں جوڑ دیا جن کو کنٹرولڈ اڑان کے تابع بنا دیا۔

عمران خان نے جو سوچا تھا یا جنھوں نے ان میں جو سوچ فیڈ کی تھی وہ نہ صرف یہ کہ بری طرح ٹریپ ہو گئی بلکہ شاید بیک ٹو پویلین بھی ہو جائے تو عمران خان تو کھیل کے میدان کے کھلاڑی ہیں ان کو تو زیادہ سمجھ آ گیا ہو گا کہ جب مخالف ٹیم کسی کو تمام ڈپارٹمنٹ میں بے بس کر دیتی ہے تو ایسی ہار کو یک طرفہ ہار کہا جاتا ہے اور یک طرفہ ہار میں شکست خوردہ ٹیم کے کپتان کو بادل ناخواستہ جیتنے والی ٹیم کی تعریف کرنا پڑتی ہے۔ اور کبھی کبھار مایوسی میں ریٹائرمنٹ کا اعلان بھی کر جاتا ہے یا خود کو کپتانی سے الگ کر جاتا ہے یا پھر نزلہ ٹیم کے چیدہ چیدہ کھلاڑیوں پر جو فارم میں ہوتے ہیں کو اصل کھیل نہ پیش کرنے پر ڈال کر خود کو بری الذمہ کر دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments