کیریئر کونسلنگ اور اس کی اہمیت


کہتے ہیں کہ ناپسندیدہ انتخاب کا بوجھ انسان کی روح کو تب تک چھلنی کیے رکھتا ہے جب تک وہ زندہ رہتا ہے اور واقعی ایسا ہی ہے، خاص کر آج کل تو یہی دیکھنے کو ملتا ہے، بہت سے لوگوں سے جب بات کریں یا ملیں تو وہ یہی رونا روتے ہیں ہیں کہ جو کرنا چاہتے تھے یا کرنا چاہتے ہیں، اس کی اجازت نہیں ملی یا ملتی اور یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے کیونکہ ہمارے ہاں یہ معمول کی بات ہے۔ کچھ روز پہلے اپنی ایک پرانی طالبہ سے ملاقات ہوئی اور باتوں باتوں میں اس نے بتایا کہ وہ دو سال سے میڈیکل کا ٹیسٹ پاس کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن بدقسمتی سے دونوں بار وہ ٹیسٹ پاس نہیں کر سکی۔

مجھے اس کی بات سے کافی حیرت ہوئی کیونکہ مجھے اس بچی کو پڑھانے کا موقع ملا تھا اور مجھے اچھی طرح سے یاد تھا کہ اس بچی کی دلچسپی رنگوں اور الفاظ کی دنیا میں بے انتہا کی تھی، جب بھی میں کلاس میں اس سے پوچھتی کہ آپ کیا بنیں گی تو کہتی میم میں آرٹسٹ بننا چاہتی ہوں، اس کی سہیلیاں پھر ہنستے ہوئے کہتیں میم اس کے بابا کہتے ہیں یہ ڈاکٹر بنے گی کیونکہ اس کے باقی کزنز بھی ڈاکٹر ہیں، اور جب پی ٹی ایم پہ اس کے والد سے ملاقات ہوئی تو واقعی باقی طالبات کی بات سچ نکلی، اس بچی کے والد کا کہنا تھا کہ بچی پہ خصوصی توجہ دی جائے کیونکہ اس نے ڈاکٹر بننا ہے، میں نے ان سے کہا کہ ہم سب بچوں کو محنت اور توجہ سے ہی پڑھاتے ہیں لیکن فرض کریں آپ کی بیٹی کا میڈیکل میں داخلہ نہیں ہوتا تو دوسرا کیا آپشن ہے آپ کے دماغ میں یا آپ کی بچی کے دماغ میں؟

میری بات کا کافی برا منایا تھا انہوں نے اور کہنے لگے اگر اس کا ٹیسٹ پاس نہ ہوا تو سیلف پہ بنا دوں گا اس کو لیکن یہ بنے گی ڈاکٹر کیونکہ میری یہی خواہش ہے اور پھر مجھے سمجھ آ گئی کہ یہاں کچھ کہنا یا سمجھانا بے سود ہے۔ کیونکہ بہت سے والدین کی طرح وہ بھی چاہتے تھے کہ ان کی بچی اسی شعبے میں جائے جو ان کا ارمان ہے اور ہمارے معاشرے میں یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ خیر وہ بچی بہت ذہین تھی اور بلا شبہ اس میں یہ اہلیت تھی کہ وہ ڈاکٹر بن سکے لیکن اس کی دلچسپی کا سوال تھا۔

اکثر سکول میں ہونے والے مقابلوں میں وہ بچی اپنی خود کی لکھی ہوئی شاعری پڑھتی اور الفاظ کا چناؤ ایسا ہوتا کہ سامنے والا دنگ رہ جاتا، ایسی حسین تصاویر بناتی کہ انسان سراہے بغیر نہ رہتا لیکن آج اس بچی کو اس طرح پریشان دیکھ کر بہت دکھ ہوا، وہ بچی اس سب کی مستحق نہیں تھی لیکن ہماری بدقسمتی رہی ہے کہ ہمیشہ سے ہماری تعلیم سے لے کر ہماری زندگی کے باقی بہت سے اہم فیصلے باقی سب بڑے افراد کرتے ہیں کیونکہ یہ وہ اپنا حق سمجھتے ہیں اور یہ بات ہماری جڑوں میں بیٹھا دی گئی ہے کہ زندگی سے منسلک اہم فیصلوں کا اختیار ہمیشہ سے گھر کے بڑوں کا رہا ہے، اور آپ اچھی اولاد تب ہی کہلا سکتے ہیں جب آپ من و عن اپنے بڑوں کا فیصلہ تسلیم کریں۔ بلاشبہ بچوں کی پڑھائی سے متعلق فیصلوں کا اختیار والدین کا ہے لیکن سارے اختیار آپ اپنے پاس تو نہ رکھیں، کچھ حق بچوں کو بھی دیں کہ وہ بھی اپنے حال اور مستقبل سے متعلق کوئی فیصلہ کر سکیں اور جہاں رہنمائی کی ضرورت ہو آگے بڑھ کر ان کی مدد کریں۔

جب میں نے نہم جماعت میں داخلہ لیا تھا تو مجھے یہی بتایا گیا تھا کہ سائنس کے مضامین لوں کیونکہ سائنس پڑھنے والے بچے لائق ہوتے ہیں اور ان کا مستقبل بھی روشن ہوتا ہے، پھر سب دوستوں کی دیکھا دیکھی میں نے سائنس کے مضامین چنے، گھر والے بھی خوش اور اس وقت میں بھی خوش تھی اور سب سے بڑھ کر خاندان میں بھی واہ واہ، جب کوئی مجھ سے پوچھتا کہ میں نے کیا مضامین رکھے تو میں بڑے فخر سے کہتی سائنس۔ لیکن اس بات کا ادراک مجھے کچھ سال بعد ہوا کہ میرا یہ فیصلہ کتنا غلط تھا، میں نے اپنی بساط سے زیادہ ایک بوجھ لاد لیا تھا اپنے اوپر اور سب سے خراب بات یہ تھی کہ نہ کسی کو بتایا جا سکتا تھا اور نہ کوئی کچھ سننے کو تیار اور رہ گیا متبادل راستہ وہ تو بتایا ہی نہیں گیا تھا، جیسے تیسے کر کے خود ہی بوجھ برداشت کرنا پڑا لیکن تب تک نقصان کافی بڑا ہو چکا تھا اور وہ نقصان میری ذات کا تھا اور اس نقصان کی بھرپائی آج تک نہ ہو سکی، مشورے والے بھی یہیں ہیں اور میں بھی، لیکن ویسا کچھ نہیں جو بتایا گیا تھا۔

آج اتنے سالوں بعد مجھے اپنی اس طالبہ کو دیکھ کر اپنا وقت یاد آ گیا، بہت سالوں تک میں اپنے وجود پر اس فیصلے کا بوجھ جھیلتی رہی، پہلے پہل تو مجھے سمجھ نہیں آیا کہ ایسا کیوں ہے لیکن پھر اس کی وجوہات سمجھ آئی ہیں۔ ہماری بہت ہی بڑی بدقسمتی ہے کہ ہم تعلیم سے جڑے فیصلوں کو اس وقت سنجیدہ لینا شروع کرتے ہیں جب معاملات ہمارے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں اور پھر آخر میں سوائے دکھ کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ ہمارے یہاں جب ایک بچہ کسی ادارے میں تعلیم حاصل کرنے جاتا ہے تو وہاں موجود لوگوں میں سے کبھی کسی نے اس بچے سے یہ نہیں پوچھا کہ کیا جو اس کو پڑھایا جائے گا وہ اس میں دلچسپی رکھتا ہے؟

یہاں تک کہ سکول اور مضامین تک کے انتخاب کا حق بھی نہیں دیا جاتا بچوں کو، ایسے بہت کم خوش نصیب لوگ ہیں جو اپنی زندگی میں وہی کرتے ہیں جو وہ کرنا چاہتے ہیں ورنہ زیادہ تر اس تعلیمی نظام میں بچے صرف ڈگری لینے کے چکر اور اچھے مستقبل کے لالچ میں اپنے خواب آنکھوں میں ہی قید رکھتے ہیں۔ ہمیں تو یہ بتایا جاتا ہے کہ ڈگری لینی ہے اور اگر کسی اچھے مضمون کی ڈگری نہ ہوئی ہمارے پاس تو یہ معاشرہ قبول نہیں کرے گا ہمیں۔

ہمیں علم نہیں دیا جاتا، ہمیں کاغذ کے ٹکرے دیے جاتے ہیں جن کو دکھا کر ہم چند پیسے کما سکیں۔ ہر بچے کی ذہانت کا لیول ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اور یہ بات نہ والدین سمجھتے ہیں اور نہ ہی اساتذہ، آج کل علم صحیح معنوں میں سکھانے کی بجائے، صرف رٹے پہ توجہ دی جاتی ہے، بہت سے پرائیویٹ ادارے فیس کے چکر میں بچوں کی تعلیمی میدان میں کمزوریوں پہ پردہ ڈالتے ہیں اور دکھ کی بات تو یہ ہے کہ والدین بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہوتے ہیں، یہ بات بالکل بجا ہے کہ والدین کبھی اولاد کا برا نہیں سوچ سکتے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بہت سی باتوں میں والدین اپنی اولاد کا موازنہ دوسروں سے کرتے ہیں اور اپنے بچے کو بہتر بنانے کی کوشش میں اپنے بچے کی مرضی اور خواہش کو رد کر دیتے ہیں۔

ہمارے آج کل کے دور میں کروڑوں ایسے بچے ہیں جو اس تکلیف سے گزر رہے ہیں، بچے اپنے لئے پسندیدہ فیلڈ نہیں چن سکتے کیونکہ اماں ابا کو بچہ ڈاکٹر یا انجنئیر ہی چاہیے اور جو بچہ یہ نہیں بنتا وہ نالائق تصور ہو گا۔ جب ایک بچہ آٹھ سال کی پڑھائی کہ بعد اس مرحلے میں داخل ہوتا ہے جہاں اسے اپنے آنے والے مستقبل سے متعلق اہم انتخاب کرنا ہوتا ہے تو ایسے موقع پہ اسے رہنمائی فراہم کرنے کے لئے کوئی موجود نہیں ہوتا، بلکہ اسے یہ فیصلہ سنایا جاتا ہے کہ اس نے کیا کرنا ہے، اور پھر بچہ اپنی بات اپنے اندر ہی چھپا لیتا ہے اور یہیں سے مسائل کا آغاز ہوتا ہے، نہ آپ بچے کو بولنے کا موقع دیتے ہیں اور نہ سمجھنے کا اور پھر متوقع نتائج نہ ملنے پہ آپ ان بچوں کو کوستے ہیں۔

پاکستان میں ہر سال بہت سے طلباء اپنی جان خود لے لیتے ہیں، کوئی نوکری نہ ملنے پہ اور کوئی پڑھائی کا بوجھ نہ برداشت کرنے کی وجہ سے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کی کیرئیر کونسلنگ پہ کبھی توجہ ہی نہیں دیتے، کیرئیر کونسلنگ، جس میں بچوں کو ان کی تعلیم اور کیرئیر سے متعلق رہنمائی فراہم کی جاتی ہے تعلیمی اداروں نے شاید ہی کبھی اس طرف توجہ دی کیونکہ اس چیز کو ابھی تک اہم نہیں سمجھا جاتا، ہمارے لوگ تو شاید ہی اس کیرئیر کونسلنگ جیسے الفاظ سے واقف ہوں کیونکہ ان کو کبھی اس بارے میں بتایا ہی نہیں گیا، ہمارے اداروں نے کبھی بھی کیرئیر کونسلنگ کی طرف توجہ ہی نہیں دی یہ جانتے ہوئے بھی کہ بچے کہ مستقبل اور حال کا سوال ہے، بڑے شہروں میں ہو سکتا ہے کچھ اقدامات کیے گئے ہوں اس سلسلے میں لیکن دیہی علاقوں میں اس کا دور دور تک ذکر نہیں، وہاں آج بھی بچوں کو ڈنڈے کے زور پہ 2 سے 3 مضامین کو اہم کہہ کے پڑھایا جاتا ہے چاہے بچے کی دلچسپی ہو یا نہیں۔

حکومتی سطح پر اس معاملے کو شاید ہی سنجیدہ لیا گیا، ہر حکومت کہتی ہے نوجوانوں کی ترقی اور بہتری ان کا اصل ہدف ہے لیکن درحقیقت نوجوانوں کو دھکے کھانے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس طرح موجودہ حکومت نے اگرچہ ایک آن لائن کیرئیر کاونسلنگ کے نام سے ہیلپ لائن قائم کی ہے جہاں طلباء کو رہنمائی فراہم کی جائے گی لیکن ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کتنے فیصد لوگ اس سے رہنمائی حاصل کریں گے، اور نہ جانے کتنے لوگوں کو اس کا معلوم ہے، بہت سے لوگوں کے پاس موبائل فون یا انٹرنیٹ کی سہولت بھی نہیں تو اس سہولت سے بہت سے لوگ محروم رہیں گے۔

ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو تعلیمی اور معاشی رہنمائی فراہم نہیں کر رہے، انہیں یہ تو بتایا جاتا ہے فلاں ڈگری لو تو نوکری ملے گی لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ اگر ڈگری ہونے کہ بعد بھی نوکری نہ ملی تو کیا کریں، اور اگر مطلوبہ ڈگری میں آپ کی دلچسپی نہیں تو کیا بہتر ہے آپ کے لئے۔ ہمارے پاس پی ایچ ڈی ٹیچرز ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارے پاس مخلص استاد اور رہنما ناپید ہیں۔ کہتے ہیں کہ کامیاب استاد کی نشانی یہ ہے کہ ان کا کام بولتا ہے لیکن پاکستان میں کامیاب استاد کی نشانی یہ ہے کہ وہ۔ کتنا اچھا رٹا لگوا سکتا ہے، جتنا اچھا رٹا، اتنا اچھا نتیجہ، بچوں کی تخلیقی صلاحیت تو بالکل ہی ختم کر دی گئی ہے

اگر آپ کسی بچے سے کہیں کہ رٹے رٹائے جواب کہ بجائے خود سے کچھ بتانے یا لکھنے کی کوشش کرو تو آج کل کا بچہ پریشان ہوجاتا ہے کیونکہ اسے سکھایا ہی نہیں جاتا کہ اپنی بات کیسے دوسرے کہ سامنے رکھنی ہے۔ والدین کو سوچنا چاہیے کہ وہ اپنے بچے کو تعلیم کہ نام پہ کیا دے رہے ہیں، صرف بڑے اداروں میں داخلے اور فیس دینے سے آپ کا بچہ کامیاب نہیں ہو جائے گا۔ بچے کی مرضی اور اس کی خامیوں کو سمجھیں اور اس کی رہنمائی کریں، اگر آپ ڈاکٹر ہیں تو ضروری نہیں کہ بچہ بھی وہی بنے اور اس میں کوئی انا والی بات نہیں۔

ایسا ماحول دیں اپنے بچے کو کہ وہ اپنے مسائل پہ آپ سے بلا جھجک بات کر سکے۔ فیصلہ سنانے سے پہلے بچے سے ضرور پوچھیں کہ کیا اس کی خود کی کوئی رائے یا سوچ ہے اپنی تعلیم اور مستقبل کو لے کر، اگر ہے تو اپنے بچے کی سوچ کو اون کریں۔ بچوں پہ ان کی بساط سے زیادہ بوجھ نہ ڈالیں، ان کو موقع دیں کہ وہ آپ پہ اعتماد کرتے ہوئے اپنی بات آپ کے سامنے رکھ سکیں۔

بظاہر یہ بہت چھوٹی بات معلوم ہوتی ہوگی بہت سے لوگوں کہ کیریئر کونسلنگ سے کیا ہو جائے گا لیکن درحقیقت یہ چیز لاکھوں بچوں کا حال اور مستقبل محفوظ کر سکتی ہے،

اتنے بڑے نامی گرامی تعلیمی ادارے ہیں ہمارے ہیں لیکن کبھی ان میں ایجوکیشنل سائیکالوجسٹ نہیں رکھے گئے جو کہ آج کل کی اشد ضرورت ہیں تاکہ طلباء کہ مسائل کو سمجھنے میں آسانی ہو سکے، والدین، اساتذہ اور بچے مل کر اس پہ سنجیدہ اقدامات کریں کیونکہ یہ ان کے بچوں کی پوری زندگی کا سوال ہے۔ کسی حکومتی سطح پہ کوئی امید رکھنا بے کار ہے کیونکہ ہر حکمران اور حکومت عوام سے زیادہ اپنے بارے میں سوچتے ہیں، عوام کی تکلیف اور مسائل عوام خود ہی بھگتی ہے۔

انسان کی تعلیم ہی اس کو بناتی اور سنوارتی ہے، آپ کا حال اور مستقبل آپ کی تعلیم سے جڑا ہوتا ہے، جتنا بھی پڑھا یا پڑھایا جائے وہ ایمانداری سے پڑھایا اور پڑھا جائے۔ اساتذہ کو خاص طور پر اس بات پہ خصوصی توجہ دینی چاہیے، کیا فائدہ جب آپ کے پاس اتنی ڈگریز ہوں لیکن آپ اپنے طالبعلم کو نہ سمجھ سکیں، اس کو یہ نہ بتا سکیں کہ زندگی صرف دو سے تین شعبوں کے گرد نہیں گھومتی بلکہ ہزار نئے راستے ہیں اب، والدین کو میں یہی کہ سکتی ہوں کہ بچے کو اتنا اختیار دیا کریں کہ وہ اپنی تعلیم اور کیرئیر کا فیصلہ خود کر سکے، دوسروں کے بچوں سے موازنہ کرنے کے چکر میں اپنے بچے کو ایک ان دیکھے بوجھ تلے نہ دبنے دیں، ہمیشہ بچے کو بتائیں کہ وہ اپنے دماغ میں ایک سیکنڈ آپشن رکھے کیونکہ اگر ایک رستہ بند ہو تو انسان سفر کرنا چھوڑ نہیں دیتا بلکہ کوئی دوسرا راستہ اپنا کر سفر مکمل کرتا ہے۔ جس بھی شعبے کو اپنائیں اس میں آپ کی دلچسپ اور مخلصی شامل ہو، دوسروں کی دیکھا دیکھی بھیڑ چال کا حصہ نہ بنیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments