وہ وجود آہن ہے


اس کے حوصلے کسی طوفاں میں کسی طوفاں کی طرح ہی ڈٹے رہتے ہیں۔ وہ طوفان بن کر طوفانوں کو دھکیلتی آئی ہے۔ تموج بن کر بجلیوں کی سازشوں کو للکارتی، دھتکارتی، نچوڑتی آئی ہے۔ ہر موڑ کی رکاوٹ کو اس قدر جھنجھوڑا ہے کہ رکاوٹیں بھی اپنے ہونے پر نادم ہوں گی۔ زندگی کے ساحل پر ہوائیں جب چلنا رک بھی جائیں، دل بھاری، حوصلے شکستہ ہوں، سانس تھم بھی جاتا ہو مگر اس کا ہونا بھی تو ہونا ہے، کامرانی کی نوید ہے۔ وہ رکتی تو نہیں۔

تھک سکتی ہے، آرام کر سکتی ہے مگر وہ تو وہ ہے، طواف مشقت کبھی ساکت نہیں ہوتا۔ بھنور کو بھی صرف اس کے ہونے سے خوف تو آتا ہو گا، اس کے چلتے قدم جن میں خواہ دہشت ہی کیوں نہ ہو، اٹھتے گرداب کے دل کی دھڑکنیں تیز کرتے ہوں گے۔ اس کا ہونا بھی کٹھن راستوں پر رقت طاری کرتا ہی ہے جب ہی تو وہ اس قدر دور آ چکی ہے۔

وہ تو باد نسیم ہے، طوفان کے سامنے طوفان بھی ہے۔

ڈگمگاتی ہے تو جھومتی بھی ہے۔ قسمت کے لکھے کے سامنے جھکتی نہیں اور رنگوں کی ٹمٹماتی ہوئی کیسی دل ربا شمع بھی ہے۔ وہ چرخ کے رنگ کی ہو بہو جھلک ہے۔ گہرے نیلے سمندر کی لہلہاتی ہوئی تصویر بھی ہے۔ صبح کے سورج کی منہ دکھائی سے قبل فضا کی ٹھنڈک ہے۔ شبنم کا ہر تروتازہ قطرہ ہے، ہلکی طلسماتی ہرے بھرے جنگل کی خوشبو ہے۔ وہ مہکتی ہوئی کلی ہے، شعلہ آویز دھوپ کا گرم تھپیڑا بھی ہے وہ صحرا کا دمکتا، دہکتا آفتاب ہے تو شب گئے آسماں پر شان سے سجا ستاروں کا بے مثال جھرمٹ بھی ہے۔ وہ کہکشاں ہے، راز ضو فشاں ہے۔ ہنر، جدت، کاریگری کا نایاب امتزاج ہے۔ لذتوں، محنتوں، ذائقوں، عظمتوں، جدتوں، قربتوں، عبادتوں، عقیدتوں، کاوشوں کا جہاں ہے۔

وہ جستجو کا مرکز ہے۔ وہ ہنر کا نشان ہے۔ اس کے اٹھتے قدم تھم بھی جائیں مگر تھمتے نہیں۔ گر گر چلنا سیکھتی آئی ہے۔ کستی آوازوں پر دبے لب منزلوں کی تلاش کی تسبیح محنتوں سے کرتی آئی ہے۔ وہ زندگی کی دلیل ہے، وہ توقیر کی تاویل ہے۔ حرمت اس کی ردا ہے، ہنر اس کی ادا ہے۔ دشنام کے جوابوں میں خود کو سینچتی راستوں میں دیے جلاتی بھی تو آئی ہے۔ فطرت میں اس کے وصف ہے تو عادت اس کی تندہی ہے۔ اس کا معمول ہی جدوجہد ہے۔ دعا اس کی تعریف ہے تو دوا اس کی تفصیل ہے۔ وہ وجود آہن ہے، قرینہ فولاد ہے، سلیقہ رحم ہے۔ اس جیسا کوئی دوجا نہیں، وہ اپنے ہونے میں باکمال ہے، لازوال ہے، بے مثال ہے۔

اس کا لباس تمکنت ہے، اس کی مسکان افتخار ہے۔ وہ، وہ ہر شہ ہے جو تکمیل یقیں ہے، وقار کی جبیں ہے، کسب کی توصیع ہے۔ اس نے فہم و متانت کی پوشاک اوڑھ رکھی ہے تو وجاہت کی دھاک ہے۔ اس کا کردار وجیہہ ہے، اس کا چلن شجیہہ ہے، وہ چرخ آہن ہے، وہ لبادہ ہمتاں ہے۔

وہ صنف کمال ہے، پختگی کا جمال ہے، اعتماد اس کا جلال ہے۔ وہ ہمت ہے، وحشت ہے، جدت ہے تو اس کا وجود لائق کل مدحت ہے۔ وہ علم کی مطلب ہے، وہ تحسین کی تصویر ہے، وہ تصویر احسن ہے، وہ مانند محسن ہے۔ وہ ڈھال ہے، وہ نہال ہے، وہ اک لعل ہے۔ وہ شبیہ قدس ہے، وہ تقدس کا برملا اظہار ہے، وہ حمیت کا ازبار ہے۔ وہ اپنے ہونے میں کل ہے، مکمل ہے، کافی ہے۔ وہ وجود آہن ہے، وہ صنف شجاع ہے، وہی تو اصل ہمت نسواں مدد خدا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments