روشن مستقبل کی نوید شاخیمار ویلفیئر سوسائٹی


ویسے تو پورے پشتون بلٹ اور بالخصوص سابقہ فاٹا کے لوگ تعلیمی لحاظ سے بہت پیچھے ہیں۔ اور اگر بات لڑکیوں کی تعلیم کی ہو تو وہ بالکل نہ ہونے کے برابر ہے۔ آج ہم شمالی وزیرستان کے دور افتادہ سہولیات سے محروم علاقہ شاخیمار گاؤں نزد رزمک کی نوجوان کی بات کرتے ہیں۔ جنہوں نے آج سے تقریباً تین سال پہلے شاخیمار ویلفیئر سوسائٹی کے نام سے ایک فلاحی ادارے کی بنیاد رکھی۔ جس میں علاقے کی مسائل کو حل کرنے کے لئے جوان رضاکارانہ طور پر کام کرتے ہیں۔

بدقسمتی سے اس اکیسویں صدی میں بھی گاؤں میں لڑکیوں کی تعلیم کے لئے ایک گرلز پرائمری سکول تک سرکاری ادارہ موجود نہیں ہے۔ اسی لئے شاخیمار ویلفیئر سوسائٹی نے بچیوں کی مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے دو سال پہلے اپر اور لوئر شاخیمار میں عارضی طور پر دو گرلز پرائمری اسکولوں کا آغاز کیا۔ شروع شروع میں فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے بچیاں کھلے آسمان تلے بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے۔ مگر پچھلے سال وہاں پر مقیم فوج کے ایک یونٹ اور سوسائٹی نے مل کر اپر اور لوئر شاخیمار میں دونوں سکولوں پر چاردیواری کے ساتھ ساتھ ایک ایک کمرہ بنایا۔

تاہم بارش یا ناخوشگوار موسم میں بچیوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے جگہ کم پڑ جاتی ہے۔ اور ایک کمرے میں اس کا سہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جس سے پڑھائی کی دورانیہ متاثر ہوتی ہے۔ شاخیمار ویلفیئر سوسائٹی کے ایک مخلص اور سرگرم کارکن محمد شاہد خان کہتے ہیں۔ کہ پچھلے دو سالوں میں ہم نے سکولوں کے اساتذہ کے لئے بمشکل ہی فنڈز جمع کرتے۔ مگر اب فنڈ کی کمی کی وجہ سے سکولوں کے بند ہونے کا خدشہ ہے۔ سرکاری سکولوں کی منظوری کے لئے ہم نے شمالی وزیرستان کے ڈپٹی کمشنر، ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر ، موجودہ ایم این اے و ایم پی اے حتیٰ کہ ہر ڈیپارٹمنٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔

مگر قابض اقتدار لوگ ہمارے اس سنجیدہ مسئلے کو حل کرنے کے لئے یا تو مخلص نہیں یا شاید بے بس ہیں۔ شاخیمار ویلفیئر سوسائٹی سکول کے دوسری جماعت کی ننھی طالبہ یاسمین کو بھی اپنی مستقبل کا خوف لاحق ہے۔ وہ کہتی ہے کہ پہلے ہم کلاس میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر مزید تعلیم کے لئے فکر مند تھیں۔ مگر اب فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے پرائمری تک تعلیم کا خواب بھی ادھورا رہ جانے والی ہے۔ اگر حکومت یا محکمہ تعلیم ان بچیوں کے مستقبل کے لئے سوچ لیں۔

اور بچیوں کے اسکول کا انتظام کر لیں۔ تو یہ بچیاں بھی تعلیمی میدان میں کسی سے پیچھے نہیں رہینگی۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہاں بچیوں کے لئے کوئی سرکاری سکول نہیں ہے۔ اس لئے حکومت وقت، ضلعی انتظامیہ، محکمہ تعلیم، وزیرستان کے موجودہ ایم این اے اور ایم پی اے کو چاہیے کہ وہ ان معصوم بچیوں کو اپنے لخت جگر کی نظر سے دیکھ کر ان کی مستقبل کو تاریکیوں سے بچانے میں فوری طور پر اپنا کردار ادا کریں۔

بقول شاعر
تمنا درد دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی
نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments