اردو پاپولر فکشن رائٹرز کی بے مغزی
"تا حدِ نگاہ بجلی کے بلب جیسے ٹیولپس کا فرش بچھا تھا۔
فضا میں تازہ گلابوں کی خوشبو بھی رچی تھی۔”
یہ جملے کچھ روز پہلے ایک مشہور مصنفہ کے ناول میں پڑھنے کو ملے تو حیرت و افسوس ایک ساتھ وارد ہوئے۔ مصنفہ خواتین کے مؤقر رسائل میں لکھ رہی ہیں۔ تقریباً دو درجن کتب بھی بازار میں آ چکی ہیں۔ یعنی وہ نو آموز نہیں ہیں اور نہ ان کے قاری کم ہیں۔ مگر تحریر کا حال کیا ہے اس کی ایک مثال اوپر گزر چکی۔ تا حد نگاہ ٹیولپس کا فرش بچھا ہے مگر فضا میں خوشبو گلابوں کی ہے۔ سبحان اللہ۔ یہ کیسے ہوا؟ اس بات کی کوئی وضاحت نہیں ہے۔ میں کم عمری سے ہی یہ رسائل باقاعدگی سے پڑھتی رہی ہوں لہذا مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ پاکستان میں ایسے جرائد اور رسائل کے قارئین کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ یہ ملک کے طول و عرض میں نچلے اور زیادہ تر درمیانے طبقے میں بہت رغبت سے پڑھے جاتے ہیں۔ یہ کم عمر بچیوں سے لے کر کہنہ سال خواتین میں یکساں مقبول ہیں۔ انہی رسائل کی بدولت پاکستان میں پاپولر فکشن اور پاپولر فکشن رائٹرز نے خاصی ترقی کی ہے۔ چند لکھاریوں نے تو اتنی مقبولیت پائی ہے کہ وہ نوجوانوں کا آئیکن بن چکی ہیں۔ ان کی کتابیں اور ناولز ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں۔ نجی ٹی وی چینلز ان سے ڈرامے لکھوا رہے ہیں اور ان کے لکھے گئے ناولز کی ڈرامیٹک اڈاپٹیشن کر رہے ہیں۔ مگر پچھلے کچھ سالوں سے مجھے انہی رسائل میں شائع ہونے والی کہانیوں میں لغت، گرامر، منظر نگاری میں ایسی فاش غلطیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں کہ میں جو ایک وقت میں پاپولر فکشن کی رسیا تھی، پاپولر فکشن میں دلچسپی نہیں رہی۔ معلوم نہیں محترمہ مصنفہ کون سا ستو پی کر ایسے نایاب مناظر جملوں میں سمو رہی تھیں۔ غلط گرامر، ڈھیلا پلاٹ، بے ہودہ اور متروک بلکہ غیر صحت مندانہ پند و نصائح ان جرائد میں چھپنے والی کہانیوں کے عام مسائل ہیں۔ معلوم پڑتا ہے ایڈیٹر بھی نیند میں ہوتی ہیں کہ جو جیسے آتا ہے ویسے ہی چھاپ ڈالتی ہیں۔
درج بالا عبارت کے سوا بھی بے شمار اغلاط اسی ایک تحریر میں دیکھنے کو ملیں۔ مثلاً ایک جگہ انہوں نے پیرس کے ایک میٹرو سٹیشن کی آن بان بیان کرتے ہوئے لکھا کہ انگریزوں نے ٹرانسپورٹیشن سمیت ہر شعبے میں بہت ترقی کی ہے۔
ان کی کم علمی کی انتہا دیکھیں ان کے نزدیک ہر یورپیئن یا سفید فام انگریز ہوتا ہے۔ ان کو یہ تک معلوم نہیں کہ ہر گوری چمڑی والا انگریز نہیں ہوتا۔ ڈچ، فرنچ، ویلش، آئرش، سکاٹش، پولش، ڈینش، جرمن، نارویجن، یہ سب الگ الگ قومیں ہیں۔ چٹا ہونے یا یورپین ہونے کی وجہ سے وہ انگریز نہیں بن جاتے۔
تحریر کے فنی پیچ و خم پر پوری دسترس ہر ایک کا خاصہ نہیں، یہاں لکھنے والوں کو رعایت دی جا سکتی ہے۔ کتابت یا ادارت میں خامیاں ہوں تو یہ قصور بھی لکھنے والے کا نہیں ہے۔ مگر ایک چیز ہے معلومات اور ہوم ورک جو سراسر لکھاری پر منحصر ہے۔ یہ درست نہ ہو تو لکھنے والا بری نہیں ہے۔ پاپولر فکشن میں معلومات اور ہوم ورک کی کمی کی ایک بہت بڑی مثال فیمن ازم، لبرل ازم اور سیکولرازم جیسے ترقی پسند خیالات پر رائے زنی ہے۔ اکثر لکھاریوں نے جب ان پر قلم اٹھایا تو بہت صدمہ ہوا کہ انہوں نے ان اصطلاحات کو ڈکشنری میں پڑھا تک نہیں۔ بس ایک ڈوگما کا سہارا لے کر ان نظریات کے رد میں اپنے سارے بغض آشکار کر دئیے۔ بھئی آپ پہلے اسے پڑھیں تو سہی کہ یہ ہے کیا؟ اس کا مطلب، اس کی تاریخ اور اس کا مقصد کیا ہے۔ یوں ہی آپ عام عوام کی اکثریت کی حمایت میں رہنے کے لیے سچ کہنے سے گریز مت کریں۔
امید ہے پاپولر فکشن رائٹرز اور قارئین میرے اٹھائے گئے نکات پر غور کریں گے۔
Latest posts by اے ایچ یقین (see all)
- نظریات کو سمجھیں، پھر فیصلہ کریں - 17/02/2025
- پاکستانی اور ان کی شناخت کا بحران - 07/02/2025
- دو ہزار سالہ قدیم ریاست دیپالپور - 05/02/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).