پاگل ہے سالا!


سنا تھا، اور سن رہے ہیں کہ پاگل یا پھر سادہ لوح اشخاص ہی سچ بولتے ہیں۔ لیکن آج سننے کے ساتھ ساتھ دیکھ بھی لیا لیکن یہ کوئی سادہ لوح شخص نہیں بلکہ ایک پاگل شخص تھا لیکن یہ اس طرح کا پاگل شخص تھا جن کو آتے جاتے اور ان کے حرکات اور سکنات سے نہ صرف لوگ ان کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے بلکہ پورے دن میں ان پر گھنٹے دو کے لئے بولنے کا غلبہ بھی تاری ہو جاتا تھا اور کرنٹ موضوعات پر اس طرح صاف گوئی اور ٹو دی پوائنٹ بات کرتا تھا کہ لوگ دنگ رہ جاتے تھے کہ اب ان کو پاگل سمجھا جائے یا بالکل ٹھیک ٹھاک آدمی کیونکہ جو باتیں وہ اپنے پاگل پنے کے انداز میں بولا کرتا تھا وہ ٹھیک ٹھاک آدمی سرے سے کر ہی نہیں سکتا تھا لیکن یہ پاگل پنے میں سب کچھ بول لیتا تھا۔

سیاست دانوں پر آ جاتا تھا تو ان کی ایسی خبر لیتا تھا کہ لوگ توبہ توبہ کر کے وہاں سے چلے جاتے تھے۔ ملکی معیشت پر آ جاتا تھا تو وہ چٹے بٹے کھول دیتا تھا کہ کوئی ماہر معاشیات بھی ان سے بے خبر ہوتا تھا۔

سماجی او اخلاقی خرابیوں پر جب شروع ہو جاتا تھا تو اس گیرائی اور گہرائی میں چلے جاتا تھا کہ باقی بولنے اور سوچنے کو کچھ نہیں بچ پاتا تھا۔

مہنگائی اور کرپشن کی جب خبر لیتا تھا تو ہر کسی کو باخبر کر لیتا تھا کوئی ایسا گوشہ اور کوئی ایسا گوش گزار نہیں بچتا تھا کہ ان تک ان کی بات اپیل نہیں کر رہی ہوتی تھی، ہر کوئی سر ہلا کر بول کر رخصت ہوتا تھا کہ ہے تو پاگل پر بول سچ رہا ہے۔

غداروں اور غداری کا تو جیسے اس نے سند اپنے پاس تیار رکھی ہوئی تھی اور نام لے کر گنوا گنوا کر یہ خود ساختہ سند لوگوں کو سنا سنا کر عطا کر دیتا تھا اور لوگ ان کی باتوں اور لوگوں کے ناموں سے لطف اندوز ہو کر اپنی اپنی راہ لے لیتے تھے۔

آج میں بھی تھوڑا سا ان کی باتوں کے لئے کھڑا ہو گیا گو کہ مجھے جلدی تھی لیکن ان کی باتوں میں آج اتنا کڑوا سچ تھا کہ میں کھڑا کا کھڑا ہی رہ گیا اور وہ بولتا چلا گیا۔

آج ان کا موضوع جنرل باجوہ کی الوداعی تقریر اور چینج آف کمانڈ تھی۔ وہ بار بار اس بات کو دھرا رہا تھا کہ بالآخر سچ تو کہہ کر چلے گئے کہ آئندہ سیاست میں ملوث نہیں ہوں گے مطلب ملوث رہے ہیں جبھی تو آئندہ ملوث نہ ہونے کا اعادہ کیا۔

چلو یہ بات بھی مان لی کہ آئندہ فوج سیاست میں ملوث نہیں ہوگی، مان لیا نہیں ہوگی لیکن چینج آف کمانڈ کے بعد اس تبدیلی کے اثرات کیوں نظر نہیں آئے۔ ؟

جیسے کہ جب سیاستداں یا سیاسی کارکنان جب کسی آمریت کی حکومت میں پابند سلاسل ہوتے ہیں وہ سیاسی حکومت آنے سے آزاد کرا دیے جاتے ہیں۔ یا جن پر کوئی سیاسی پابندی ہوتی ہے ان پر سے وہ پابندی اٹھا دی جاتی ہے۔ اگر کوئی جلا وطن کیا گیا ہو یا کوئی خود ساختہ جلا وطن ہو تو وہ واپس ملک لوٹ آتے ہیں۔

لیکن ادھر تو کچھ بھی نہیں بدلا چینج آف کمانڈ کے بعد نہ تو سیاسی قیدی چھوٹے، نہ ان کی سزاؤں میں کوئی کمی آئی۔ نہ کوئی جلا وطن واپس آئے، نہ کسی سے سیاسی پابندی اٹھائی گئی اور نہ کوئی سیاست دان پر سے سیاسی قدغنیں دور ہوئیں۔

اگر گزشتہ جنوری سے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ سیاست میں ملوث نہیں ہوں گے تو یہ معاملہ نومبر تک کیوں دراز ہوا اور اس دوران ملوث ہونے کے یہ آثار کیوں اتنے گہرے تھے کیوں اتنے واضح اور اتنے برملا اور آشکارہ تھے کہ زبان زدعام ہوئے؟

کیا یہ سب جزوقتی مشق ہے یا عارضی فارمولا ہے۔ ؟ جس کا کوئی جواب یا جواز سامنے نہیں آ سکے گا۔ یا پھر ہم کچھ عرصہ بعد پھر وہی پرانی ڈگر پر چلنا شروع کر دیں گے، جس پر چل رہے تھے اور یہ جو عارضی ابال اٹھا تھا اس کے بٹھانے یا کم کرنے کے لئے یہ سب کچھ کہا اور سنایا گیا حقیقت کچھ اور ہے۔

میں بے دھیانی میں اس پاگل شخص کی باتوں میں اتنا مگن ہو گیا تھا کہ جس ضروری کام سے جا رہا تھا وہ بھی بھول گیا یہ تو اللہ بھلا کرے اس شخص کا جس نے میرے دھیان کو واپس لوٹایا جو میرے پاس سے غراتے ہوئے بول کر گزرا۔ ”پاگل ہے سالا“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments