کیا پاکستان کا قیام انگریزوں کی سازش تھا؟ (1)


بحیثیت قوم ہم حقائق کی بجائے سنسنی خیز خبروں اور دعووں کو پسند کرتے ہیں۔ اور تاریخی حقائق کا جائزہ لیتے وقت بھی یہی رویہ غالب رہتا ہے۔ آج سے کئی دہائیاں قبل خان عبد الولی خان صاحب نے ایک کتاب Facts are Factsلکھی اور اس میں یہ دعویٰ کیا کہ پاکستان کا قیام اصل میں انگریز حکمرانوں کی سازش کا نتیجہ تھا۔ اور اس سلسلہ میں انہوں نے 1940 میں وائسرائے لنلتھگو اور برطانوی وزیر برائے ہندوستان لارڈ زیٹلینڈ کی خط و کتابت کا حوالہ دیا تھا۔

انہوں نے اس کتاب میں یہ دعویٰ پیش کیا تھا کہ جب 1940 میں ہندوستان کے انگریز حکمرانوں نے یہ محسوس کیا کہ اس وقت ہندوستان کے مستقبل کے بارے میں جو تجاویز پیش کی جا رہی ہیں، ان سے انگریز حکمرانوں کو اپنے مقاصد حاصل نہیں ہو رہے تو انہوں نے اپنے اغراض اور مقاصد کے پیش نظر تقسیم ہند کی تجویز تیار کروائی۔ اس وقت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب وائسرائے کونسل کے ممبر تھے۔ انہوں نے یہ تجویز ایک میمورنڈم کی صورت میں تیار کی۔ یہ میمورنڈم قائد اعظم محمد علی جناح کو بھجوایا گیا۔ اور یہ تجویز مارچ 1940 میں لاہور میں ہونے والے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں قرارداد لاہور کی صورت میں منظور گئی اور اس طرح تقسیم ہندوستان کا مطالبہ سامنے آیا۔

اس کتاب میں خان عبد الولی خان صاحب اس نکتے پر زور دیتے رہے کہ قرارداد لاہور کے بعد انگریز حکمران صرف مسلم لیگ اور قائد اعظم کی پشت پناہی کر رہے تھے اور مسلمانوں کے اس گروہ کو جو تقسیم ہندوستان کا مخالف تھا نظر انداز کیا جا رہا تھا۔ وہ لکھتے ہیں۔

When the Muslim League accepted the Viceroy ’s proposal [author، Sir Zafarullah]، the British were convinced of their dependability۔ It was natural، then، for the British to refuse to recognize the existence of any party other than the Muslim League۔

ترجمہ : جب مسلم لیگ نے وائسرائے کی تجویز قبول کر لی [جس کے مصنف سر ظفراللہ تھے ] برطانوی حکومت انہیں قابل اعتماد سمجھنے لگی اور قدرتی طور پر اس کے بعد برطانوی حکومت نے ان کے علاوہ کسی اور جماعت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔

پھر وہ تحریر کرتے ہیں

The British deliberately ignored those Muslims، who، along with the Congress، were struggling for freedom۔ Their very faith was called ” ’questionable“ ۔

ترجمہ: برطانوی حکومت نے جان بوجھ کر ان مسلمانوں کو نظر انداز کیا جو کہ کانگرس ساتھ مل کر اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے اور ان کے عقیدہ پر سوال اٹھائے جا رہے تھے۔

اس کے بعد خان عبدالولی خان صاحب یہ نتیجہ پیش کرتے ہیں۔

The British were trying to make it very clear to every Indian Muslim that except Jinnah and the Muslim League، they were not ready to accept any other party۔ To gain British support، the Muslims were obliged to join the Muslim League۔ Earlier، the British had severed relations with the Congress because they were not prepared to assist them in the war against Germany۔

ترجمہ: برطانوی حکومت ہندوستانی مسلمانوں پر اس بات کو واضح کرنے کی کوشش کر رہے تھے وہ جناح اور مسلم لیگ کے علاوہ کسی اور جماعت کو تسلیم نہیں کریں گے۔ اور برطانوی حمایت حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کو مسلم لیگ میں شامل ہونے پر آمادہ کیا جا رہا تھا۔ اس سے قبل برطانوی حکومت نے کانگرس سے تعلقات ختم کر دیے تھے کیونکہ وہ جرمنی کے خلاف جنگ میں ان کی مدد کرنے کو تیار نہیں تھے۔

خلاصہ کلام یہ کہ اس کتاب میں خان عبد الولی خان صاحب نے یہ دعویٰ پیش کیا تھا کہ پاکستان بنانے یا تقسیم ہند کی تجویز اصل میں انگریزوں نے تیار کروائی تھی اور یہ ظالم برطانوی حکومت ہی تھی جو کہ مسلم لیگ اور ان کے قائد محمد علی جناح کی سرپرستی کر رہی تھی۔ اور ان کی مہربانیوں سے یہ تحریک پروان چڑھی اور مسلمانوں کے دوسرے گروہ نظر انداز کر دیے گئے۔

24 ستمبر 2019 کو ’ہم سب‘ پر ایک کالم ’پاکستان انگریزوں کی سازش نہیں سے بنا تھا ”شائع ہوا تھا۔ اس کالم میں برطانوی وزیر برائے ہندوستان لارڈ زیٹلینڈ کے جوابی خط کے حوالے پیش کیے گئے تھے۔ ان سے ظاہر ہوتا تھا کہ تقسیم ہند کی تجویز یا چوہدری ظفراللہ خان صاحب کا میمورنڈم جس میں یہ تجویز پیش کی گئی تھی، وہ برطانوی حکمرانوں کے رائے کے مطابق نہیں تھی اور وہ اس تجویز کے مخالف تھے۔ ان حوالوں کو اس کالم میں دہرایا نہیں جائے گا۔

لیکن خان عبد الولی خان صاحب نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ برطانوی حکمران مسلسل مسلم لیگ اور قائد اعظم محمد علی جناح کی سرپرستی کر رہے تھے۔ اس دور میں برطانوی وزیر برائے ہندوستان نے جو خطوط وائسرائے لنلتھگو کو لکھے تھے، وہ برٹش لائیبریری لندن کے ریکارڈ میں محفوظ ہیں۔ چند روز قبل خاکسار نے ان کا ریکارڈ حاصل کیا تھا۔ آئندہ چند کالموں میں اپریل 1940 سے لے کر دسمبر 1940 تک کے خطوط کی روشنی میں خان عبد الولی خان صاحب کے پیش کردہ انکشافات کا تجزیہ کیا جائے گا۔

ان حالات کے متعلق کوئی رائے قائم کرتے ہوئے یہ پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اپریل 1940 میں یورپ میں ایک خوفناک جنگ شروع ہو چکی تھی۔ ہٹلر کی فوجیں ناروے میں اترنا شروع ہو گئی تھیں۔ اس وجہ سے برطانیہ میں ایک شدید تناؤ کی کیفیت موجود تھی۔ یہ ممکن نہیں کہ اس نازک موڑ پر برطانوی حکومت کی ترجیحات میں ہندوستان کو تقسیم کرنے یا پاکستان بنانے کی تجویز شامل ہو۔ اس مرحلہ پر برطانوی حکومت کی نظر میں مسلم لیگ کی طرف سے کوئی نیا مطالبہ کیا حیثیت رکھ سکتا تھا؟ اس کے بارے میں 12 اپریل 1940 کے خط میں زیٹلینڈ وائسرائے کو لکھتے ہیں کہ میں آپ کو اپنا ایک میمورنڈم بھجوا رہا ہوں جو کہ ہندوستان کے بارے میں کابینہ میں پیش کیا گیا تھا۔ پھر وہ لکھتے ہیں

I agree however the situation has undergone very considerable change in view particularly of which has now been taken by The All India Muslim League; and at the meeting of the War cabinet this morning I said that I was satisfied that the present time was not the suitable one at which to make any constructive proposal.

ترجمہ: تاہم میں اس بات سے متفق ہوں کہ خاص طور پرآل انڈیا مسلم لیگ نے جو پالیسی اپنائی ہے اس کے پیش نظر صورت حال بنیادی طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔ اور میں نے جنگی کابینہ کے اجلاس میں نے یہ کہا تھا کہ میرے نزدیک یہ وقت کوئی تعمیری تجویز پیش کرنے کے لئے مناسب نہیں ہے۔

یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ تقسیم ہند کی تجویز برطانوی حکمرانوں کے ایما پر پیش نہیں کی گئی تھی اور ان کے نزدیک جنگی حالات کی وجہ سے یہ وقت اس قسم کے نئے مطالبات کے لئے کوئی مناسب وقت بھی نہیں تھا۔ اور اس خط ہی سے یہ بات بھی غلط ثابت ہو جاتی ہے کہ قرارداد لاہور کے بعد انگریز حکمرانوں نے مسلم لیگ کے علاوہ کسی اور مسلمان لیڈر سے رابطہ کرنا بند کر دیا تھا کیونکہ اسی خط میں برطانوی وزیر برائے ہندوستان نے آغا خان سوئم اور فیروز خان نون صاحب سے تفصیلی ملاقاتوں اور مشوروں کا ذکر کیا ہے۔ اور خاص طور پر آغا خان سوئم کی رائے کی اہمیت کا ذکر کیا ہے۔ اور یہ دونوں لیڈر اس وقت مسلم لیگ سے منسلک نہیں تھے۔

اس تمہیدی کالم کے بعد اگلی چند تحریروں میں ہم یہ تفصیلی جائزہ لیں گے کہ پاکستان کے مطالبہ اور بانی پاکستان کے بارے میں برطانوی حکمران کن آراء کا اظہار کر رہے تھے۔ اور اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے کہ کیا خان عبد الولی خان صاحب نے اپنی کتاب میں درست حقائق پیش کیے تھے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments