ویلنٹائن ڈے، حیا ڈے اور ہماری خاموشی


\"zafarاحمد جاوید صاحب نے لکھا تھا، ”خاموشی آوازوں کی مرشد ہے“۔ بڑے آدمی ہیں، سچ ہی کہا ہو گا۔ اس لئے خاموش رہے۔جب کہنے کو بہت کچھ ہو تو کبھی کبھی خاموش احتجاج کر لینا چاہیے۔اب کیا ویلنٹائن اور کیا اس کی کہانی؟ حیا ڈے والوں کی زبان دیکھ کر خاموش ہونا بہتر جانا۔فرماتے ہیں ’اپنی بہن نکالو…. تمہاری بہن کو کیا ملا…. تمہاری ماں…. تمہاری بیوی….‘ حیف….

بات یوں ہے کہ ہم وہ قوم ہیں جوسال بھر ویگن میں کسی عورت کے کاندھے سے کاندھا ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔بس میں کسی عورت پر پیٹھ ملنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہسپتال میں نیم مردہ لڑکی کو ڈاکٹر سے لے کر صفائی کرنے والے تک بہانے بہانے سے ہاتھ لگاتے ہیں۔ دفتر میں کام کرنے والی واحد لڑکی سے سارے دفتر کو پیار ہو جاتا ہے۔سائیکل والے سے لے کر کار والے تک گھر چھوڑنے کی آفر کرتے ہیں۔کسی ریسیپشن پر بیٹھی لڑکی کے سامنے کھڑے ہو کر سب سے پہلے اس کے سینے کے کوہستان سر کرنے کی کوشش کریں گے۔ راہ چلتی خاتون کا حدود اربعہ پہلے ناپتے ہیں اور چہرے کو بعد میں دیکھتے ہیں۔کسی سڑک کے کنارے کھڑی لڑکی کے سامنے دس منٹ میں پندرہ گاڑیاں روکیں گے۔سکول اور مدرسے کے بچوں پر اپنے استادوں کی بری نظرہو گی۔کیا علامے ،کیا بزرگ،کیا لبرل ، سب اپنی گرل فرینڈ سے پہلا سوال اس کی ورجینیٹی کا کریں گے۔ منبروں سے چلا چلا کر دہائیاں دیں گے کہ ہائے ہائے معاشرے میں کوئی باکرہ نہ رہی۔انٹرنیٹ سب سے ذیادہ پورن سرچ کریں گے۔بچیوں اور بچوں کے ساتھ بلاتکار کریں گے۔لغت میں لڑکی کو’بچی‘…. ’ مال …. ’پیس‘اور ’آئٹم‘ کہیں گے۔ ’ہیڈ لائٹس‘، ’سامان اور ’مال ‘ جیسی مکروہ اصطلاحات سے انسانی اعضا کا ذکر کریں گے۔قوم کی گالی میں ہمیشہ کسی کی ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کا ذکر ہو گا۔ اور پھر چودہ فروری کو ہم حیا ڈے منائیں گے۔

منا لو بھائی یوم حیا! ست بسم اللہ۔جو قوم کاندھے کی رگڑ سے، پیٹھ سے ران چھونے سے، کپڑوں کے ہوتے تاک جھانک کرنے سے، سات سالہ بچے اور بچی سے جنسی تسکین حاصل کرتی ہو وہاں منا لو ، ’حیا ڈے‘۔ اچھا ہے ایک اچھی روایت کا اضافہ ہو جائے گا۔ قوم کی اخلاقی سطح بلند ہو جائے گی۔ہمارا ’اپنا‘ بھی کوئی دن ہو گا۔

ہمارا کیا ہے۔ ہم تو نہ چودہ اگست مناتے ہیں۔ نہ پانچ فروری مناتے ہیں۔نہ نو نومبر مناتے ہیں۔ نہ پچیس دسمبر مناتے ہیں۔نہ یکم مئی مناتے ہیں۔نہ چودہ فروری مناتے ہیں۔ ہم تو گھر بیٹھے چھٹی مناتے ہیں۔ چائے پیتے رہتے ہیں۔ کڑھتے رہتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں۔

1929 کی بات ہے۔محمد علی جناح نے ہندوستان کی مجلس قانون ساز سے ایک قانون منظور کرایا جس کی رو سے ہندوستان میں کمسن بچوں کی شادی کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے کہ مولانا محمد علی جوہر نے اس قانون کے خلاف کتنے بچوں کے نکاح پڑھائے؟

تو بھائی ہم تو خاموش ہیں۔آپ جو مرضی آئے ڈے منا لیجیے۔ ہے تو اسد محمد خان کی کہانی ’سے لون‘ کا کردار’ ہدا استاد‘، لیکن کیا منظر تھا۔ طوائفوں سے نفرت کرنے والا ہدا استاد جب راہ چلتی ایک بوڑھی طوائف کو کہتا ہے ’ماں جی‘…. تو تہذیبی اقدار کے سانچے پل بھر میں بدل جاتے ہیں۔لیکن آپ حیا ڈے منا لیجیے۔ ہم خاموش رہتے ہیں کیونکہ احمد جاوید صاحب نے لکھا تھا، ’خاموشی آوازوں کی مرشد ہے‘۔ بڑے آدمی ہیں، سچ ہی کہا ہو گا۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
8 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments