مسائل کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟


پاکستان کی سیاست میں ذاتی مفادات کا عنصر غالب ہے لیکن مقام افسوس تو یہ ہے کہ دہشت گردی کی نئی لہر میں ریاست کو بچانے کے لئے ذاتی مفادات کو ترک کر کے ایک ہونے کے بجائے ہمارے سیاسی عمائدین اب دہشت گردی پر بھی سیاست چمکانے لگ گئے ہیں۔

2014 میں دہشت گردی کے خلاف جو قومی ہم آہنگی ملک میں آئی اس وقت اس کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں ہے، قابل افسوس بات تو یہ ہے کہ صوبہ اور وفاق دہشت گردی کے واقعات پر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کے بجائے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے میں قوت صرف کر رہے ہیں۔

18 ویں ترمیم کے بعد صوبے اپنے اندرونی معاملات میں مزید با اختیار ہوچکے ہیں اور اب امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کرنا صوبائی ذمہ داریوں کا حصہ ہے۔ صوبائی حکومتیں کسی صورت نیشنل ایکشن پلان اور 18 ویں ترمیم کے بعد اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی نہیں کر سکتیں۔

پاکستان میں ذاتی مفاد اور ذاتی انا پر تو سیاست ہوتی رہی ہے لیکن دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب تو دہشت گردی پر سیاست کا موقع ڈھونڈا جا رہا ہے۔

بقول شاعر :
نادیدہ بہاروں کا فسوں ٹوٹ چکا ہے
پژمردگی رنگ چمن بول رہی ہے
ممکن ہے کہ لب ساکت و جامد رہیں لیکن
اے اہل وطن ارض وطن بول رہی ہے

تمام سیاسی جماعت جب تک سر جوڑ کر نہیں بیٹھیں گی دہشت گردی کا معاملہ کسی صورت حل نہیں ہو گا اور اگر ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لئے تو معاملات مزید خراب ہوتے جائیں گے۔

ملک کی سیاست پر نظر ڈالیں تو ایم کیو ایم پاکستان، پی ایس پی اور دیگر گروپس کے انضمام کے امکانات مزید بڑھتے جا رہے ہیں، گزشتہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو کراچی سے 14 سیٹیں پلیٹ میں رکھ کر مل گئی تھیں کیونکہ ایم کیو ایم کی ٹوٹ پھوٹ نے پی ٹی آئی کو فائدہ پہنچایا۔

ایم کیو ایم اور پی ایس پی دیگر دھڑوں کا انضمام وقت کے لئے ضروری لگتا ہے کیونکہ اگر ایم کیو ایم میدان سے ملک طور پر غائب ہوتی ہے تو مقامی لوگوں میں تناؤ پیدا ہو گا اس لئے ایم کیو ایم اور دیگر دھڑوں کا انضمام مقامی لوگوں اور کراچی میں تجارت کا پہیہ چلانے کے لئے بھی ضروری ہے۔

پنجاب کی بگڑتی سیاسی صورتحال میں عدالت عالیہ نے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو بہتر فیس سیونگ دی ہے، اگر اس معاملے غیر جانبدارانہ طریقے سے دیکھا جائے تو بالکل واضح ہوتا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 54 / 3 اور آرٹیکل 120 کے تحت گورنر کو یہ اسمبلی کے سیشن کے دوران بھی وزیراعلیٰ سے اعتماد کے ووٹ کا تقاضا کرنا جائز ہے اور اس حوالے سے عدالت عظمیٰ بھی فیصلہ دے چکی ہے۔

لاہور ہائیکورٹ نے گورنر پنجاب کے اقدام پر ایک مناسب فیصلہ سنایا ہے لیکن اس پر مزید سماعت کے بعد ہی زیادہ بہتر صورتحال سامنے آ سکتی ہے کیونکہ اس اقدام کا مقصد یہی تھا کہ اعتماد کا ووٹ لیا جائے اور اسمبلی کو تحلیل ہونے سے روکا جائے۔

پنجاب کی سیاست میں پیچیدگی دگرگوں حالت میں مزید اضافے کا سبب بنتی جا رہی ہے کیونکہ پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور وہاں اس طرح کا عدم استحکام، افراتفری اور سیاسی بھونچال ملک کے لئے کسی صورت بہتر نہیں ہو سکتا۔

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو حقائق، شواہد اور آئین کے آرٹیکلز ہماری رہنمائی کے لئے موجود ہیں اور تھوڑا بہت قانون کے دلچسپی رکھنے والے بھی اس فیصلے کو مناسب فیصلہ سمجھ سکتے ہیں۔

سپریم کورٹ جانا ہر جماعت کا حق ہے کیونکہ لاہور ہائیکورٹ نے جو عبوری ریلیف دیا ہے اس پر سپریم کورٹ میں اپیل میں جانے سے وفاقی حکومت کو الیکشن کو مقررہ وقت پر منعقد کروانے کے لئے مزید وقت بھی مل جائے گا جو کہ پی ڈی ایم کی منشا ہے۔

ڈاکٹر جمیل احمد خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر جمیل احمد خان

سابق سفیر، سینئر تجزیہ کار، ماہر بین الاقوامی امور

dr-jamil-ahmed-khan has 6 posts and counting.See all posts by dr-jamil-ahmed-khan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments