گھریلو تشدد اور غیرت کے نام پہ قتل، اسلامک فیمینسٹ نقطہ نظر


آپ کو لگتا ہو گا بھلا تشدد سے اسلام کا کیا تعلق؟ مگر ذرا یاد کریں اسلامی نظریاتی کونسل سے ایک ویو آیا تھا کہ خواتین کو ذرا سا مار لینے میں کوئی حرج نہیں۔ سوچیے، اگر مذہبی پیشوا تھوڑا سا مارنے کی اجازت دے تو میرے جیسا تو ہفتے میں ایک بار حکم سمجھ کے بھی پھینٹی لگا دے۔

دراصل مذہبی پیشواؤں کی اس رائے کی ایک بنیاد ہے جس کی تشریح کا شدید مسئلہ ہے۔
درج ذیل آیت کریمہ دیکھیے۔

”اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا خطرہ ہو تو انہیں سمجھاؤ اور بستر میں انہیں جدا کر دو اور مارو، پھر اگر تمہارا کہا مان جائیں تو ان پر الزام لگانے کے لیے بہانے مت تلاش کرو ”۔ نساء۔ 34

نشوز۔ کے لفظی معنی بغاوت کے ہیں۔ اگر دوسری آیات کی روح دیکھی جائے تو اس بغاوت سے مراد جنسی یا ازدواجی تعلقات میں خیانت ہے۔ (ورنہ تو آپ کہیں آلو پکاؤ۔ وہ مٹر پکا دے۔ تو یہ بغاوت ہو گئی)

خود رسول اللہ ﷺ کا اسوہ کامل ہمارے سامنے ہے۔ فرمایا
”کیا آپ میں سے کوئی ایسا ہو سکتا ہے کہ دن کو بیوی کو غلام کی طرح مارے اور رات کو اسی کے ساتھ سو پڑے“ بخاری و مسلم

بلکہ مارنے سے باقاعدہ منع فرمایا۔ ابو داؤد، نسائی اور ابن ماجہ میں۔ ابن عباس کی اتھارٹی پہ یہ موجود ہے۔

اس آیت کے نزول کے بعد غیر محتاط جنسی رویے پہ البتہ مارنے کی اجازت فرمائی۔ وہ بھی ایسی مار جو نمودار نہ ہو۔ اس کی تفصیل آیت میں بھی موجود ہے۔
طبری نے تو مسواک وغیرہ سے علامتی مار کی بات کی۔
( Message of Quran. M Asad)
رازی نے مڑے ہوئے رومال سے مارنے کی بات کی۔

شافعی جیسے سکالر فرماتے ہیں کہ یہ محض اجازت ہے۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ کا اپنا عمل ہمارے سامنے ہے اس لیے مار سے ہمیشہ اجتناب برتا جائے۔
M. Asad.
اب یہ بھی دیکھیے کہ اگر کوئی خاتون واقعی جنسی خیانت کی مرتکب ہوئی ہو۔

”اور تمہاری عورتوں میں سے جو کوئی بدکاری کرے ان پر اپنوں میں سے چار مرد گواہ لاؤ، پھر اگر وہ گواہی دے دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ انہیں موت آ جائے یا پھر اللہ ان کے لیے کوئی راستہ نکال دے“ 15

یعنی فحاشی کا ارتکاب ہوا ہو۔ ( اب فحاشی کی تعریف ہر کسی کی اپنی ہوتی ہے مگر مفسرین اس کو زنا کے معنوں میں لیتے ہیں) گواہ چاہئیں۔ اگر گواہ مل جائیں۔ پھر انہیں گھروں میں بند رکھیں۔ ( یعنی گھروں میں بند رکھنا ایک سزا ہے۔ جو جنسی خیانت جیسی قباحت پہ ملتی ہے)

اس کا دوسرا پہلو بھی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سو کوڑوں کی سزا کی آیت کے بعد یہ آیت لاگو نہیں ہو گی۔

گواہوں کے ضمن میں عرض ہے کہ شوہر بیوی پہ الزام لگائے، گواہ نہ ملے تو قسمیں کھانے کا متبادل بھی موجود ہے۔ (اس کی تفصیل قرآن مجید میں موجود ہے )

اس کے ساتھ خواتین سے حسن سلوک کی تاکید درج ذیل آیت میں ملاحظہ فرمائیے۔

”اے ایمان والو! تمہیں یہ حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کو میراث میں لے لو، اور نہ ان کو اس واسطے روکے رکھو کہ ان سے کچھ اپنا دیا ہوا مال واپس لے سکو مگر (تب لے سکتے ہو) اگر وہ کسی صریح بد چلنی کا ارتکاب کریں، اور عورتوں کے ساتھ اچھی طرح سے زندگی بسر کرو، اگر وہ تمہیں نا پسند ہوں تو ممکن ہے کہ تمہیں ایک چیز پسند نہ آئے مگر اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھی ہو۔“ (نساء 19 )

یہ خدا تعالیٰ کے حکم کی کلیرٹی ہے۔ اب ذرا رسول اللہ ﷺ کا عمل مبارک تصور کیجیئے۔ آپ پہلے ہی جانتے ہیں۔ مجھے کوئی مثال دینے کی ضرورت نہیں ہے۔

اکثر مرد حضرات خواتین کی بحث سے تنگ ہوتے ہیں۔ اور اس کو مارپیٹ کی وجہ قرار دیتے ہیں۔
ذرا ملاحظہ کیجیئے۔

حضرت عمر فرماتے ہیں کہ وہ حفصہ رض کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ اے بیٹی کیا تم نبی کریم ﷺ سے اس طرح بحث کرتی ہو ہو کہ وہ تم سے دن بھر خفا رہتے ہیں؟ حضرت حفصہ رض نے کہا ہاں خدا کی قسم ہم آپ ﷺ سے بحث کرتے ہیں میں نے کہا کہ تمہیں معلوم ہے کہ کہ میں نے تمہیں اللہ کی سزا اور نبی کریم ﷺ کی خفگی سے باخبر کر رکھا ہے۔ عمر کہتے ہیں کہ پھر میں نکل آیا اور ام سلمہ رض کے پاس گیا کیونکہ میری ان سے قرابت داری تھی میں نے ان سے گفتگو کی تو ام سلمہ رض نے کہا، اے ابن خطاب آپ پر تعجب ہے آپ نے ہر چیز میں مداخلت کرنا شروع کر دی ہے۔ یہاں تک کہ اب آپ نبی کریم ﷺ کی اور ان کی بیویوں کے درمیان مداخلت کرنا چاہتے ہیں۔ خدا کی قسم پھر انہوں نے میرا اتنا زبردست مواخذہ کیا کہ میرے دل میں جو کچھ خیالات آ رہے تھے تھے وہ جاتے رہے پھر میں ان کے پاس سے نکل آیا۔

بخاری و مسلم۔ بحوالہ عہد نبوی میں آزادی نسواں۔ ڈاکٹر ابو شقہ (واضح ہو کہ یہ سطور کتاب کے اردو ترجمے سے لی گئی ہیں۔ غلطی کے احتمال کی صورت میں پیشگی معذرت)

تاریخ عالم میں رسول اللہ ﷺ کا بیویوں سے حسن اخلاق ایک بہترین نمونہ ہے۔

گھریلو جھگڑوں میں مار پیٹ ہمارے پاس بالکل عام سی بات ہے۔ (کچھ کیسز میں شوہروں کو بھی مار پڑتی ہے) سماج نے اس کو نارمل لیا ہوا ہے۔ اور مذہبی رہنما اس ضمن میں کوئی کارکردگی نہیں رکھتے۔

حد یہ ہے کہ گھریلو تشدد کے خلاف قانون سازی پہ بھی علماء دین حکومتوں سے ناراض ہوتے ہیں۔ بلکہ ان قوانین کو ”مغربی مادر پدر آزاد ایجنڈے“ کا حصہ سمجھتے ہیں۔

دوسری جانب اسلامک فیمینسٹس رسول اللہ ﷺ کے عملی نمونے ہی کی پریکٹس چاہتے ہیں۔

یہ تو تشدد کی بات تھی۔ ہمارے سماج نے تو غیرت کے نام پہ قتل کو بھی نارمل لیا ہوا ہے۔ اگر چہ سب مانتے ہیں کہ یہ شدید غیر اسلامی فعل ہے۔ لیکن دل سے اس کی سپورٹ بھی کرتے ہیں۔ اور اس کے خلاف جد و جہد کرنے والوں کو مغرب کے بے حیا و بے شرم معاشرے کا نمائندہ اور مغرب کے کرائے کی این جی اوز کہہ کر بے عزت بھی کرتے ہیں۔

خود اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر ظلم کرتے ہیں۔ اور پھر جب رد عمل آتا ہے تو وہ ”مغرب کی ننگی تہذیب“ کے کھاتے میں ڈال کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔

حوالہ جات
1. The Message of Quran by Muhammad Asad
2۔ عہد نبوی میں آزادی نسواں۔ ڈاکٹر ابو شقہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments