جشن کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں


کچھ عرصے قبل والدہ کی طبعیت کافی ناساز تھی ، ڈاکڑ نے کچھ وجوہات بتائی اور پھر بہت ساری دوائیں بھی دے دی ۔ ان دواؤں میں سے ایک دوا نیندکی تھی اور ڈاکٹر کے مطابق نیند بہت ضروری تھی ۔ اب یہ ہوتا کہ رات کو 10 بجے دوا کھلادیتے تھے اور پھر شور پر پابندی لگ جاتی تھی۔ نہ ٹی وی ، موبائل سائلنٹ ، اور امی کے کمرے میں پن ڈراپ سائلنٹ ہوتا تھا۔ ہمارے پڑوس میں ایک کتا تھا وہ اس دوران بھوکتا تو ہم لوگ منہ ہی تکتے ،کیونکہ وہ اپنی مرضی سے ہی خاموش ہوتا تھا ، لیکن وہ شور ہمارے لئے بہت مشکل پیدا کرتا تھا کیونکہ ایک بار امی کی نیند ٹوٹ گئی تو پھر دوبارہ نہیں آتی تھی۔
انھی دنوں کی بات ہے کہ ہماری گلی میں ایک شادی ہوئی، شدید شور شرابہ چلتا رہا۔ لیکن شادی والی رات وہ گھر بالکل ہی جنونی ہوگیا،دلہن کو رخصت کرکے لائے گویا ورلڈ کپ جیت لیا ہو۔ رات 2 بجے کا وقت تھا مگر جہالت بیدار تھی۔ شدید شور ،  راکٹ شُرلی، انار، اور پھر ہوائی فائرنگ۔ہم لوگ شدید غصے میں تھے، اور بالخصوص جن کے گھر بزرگ اور بچے تھے وہ بالکونی میں کھڑے ان سے درخواست بھی کررہے تھے مگر ان کو فرق نہیں پڑا۔ کئی منٹ تک جہالت کاسلسلہ چلتا رہا اور پھر ایک ایسا واقعہ ہوا کہ انھیں رُکنا پڑا۔
ہوائی فائرنگ ہورہی تھی اور سب شوقین لگے پڑے تھے۔ ایسے میں ایک شوقین کی لوڈڈ گن سے غلطی سے فائر نیچے کی جانب ہوگیا اور وہ  ایک بچے کو زخمی کرگیا۔اور پھر شور شرابے کے آواز تبدیل ہوکر رونے چیخنے میں بدل گئی۔ پورے علاقے میں شور مچ گیا مگر کچھ وقت بات پتا چلا ہے بچے کی حالت خطرے سے باہر ہے اور گولی ہاتھ پر لگی۔ سب لوگوں نے شکر ادا کیا کیونکہ اس بچے کی غلطی نہیں تھی مگر وہ نشانہ بن گیا۔ لیکن ان سب  میں دوچیزوں کا فائدہ ہوا ۔ پہلی یہ کہ گھروالے یعنی شادی گھر والے سدھر گئے اور محلے والوں کو اگلے سالوں کے لئے بھی سکون نصیب ہوا کیونکہ اس گھر میں کچھ عرصے قبل بھی شادی ہوئی اور انھوں نے فقط انار جلا کر خوشیاں منانے پر اکتفا کیا۔
اتنی لمبی تمہید باندھی بہت ضروری تھی، کیونکہ یہ دو واقعات کا تعلق ہم سب سے جڑُ سکتا ہے۔ہر گھر میں ایسے لوگ ہیں جو طبعیت  کی خرابی کی وجہ سے دوائیں کھاتے ہیں بالخصوص نیند کی دوائیں ، اور ان کی نیند اتنی کمزور ہوتی ہے کہ ہلکی سی آہٹ سےآنکھ کھل جاتی ہے۔ دوسرا یہ کہ ہوائی فائرنگ بھی انسانی جان کے لئے انتہائی خطرناک ہوتی ہےا ور ایک غلطی انسان کی جان لے لیتی ہے۔ یعنی ایک انسان کے ہاتھ بغیر نیت کے کسی انسان کے خون سے رنگ جاتے ہیں اور زندگی بھر کا روگ بن جاتے ہیں ۔
یہ سب باتیں ہوگئی ہے، یقیناً یہ دو تین مثالیں اس لئے دی ہیں کہ ہمیں ان مثالوں سے سبق لینا ہے اور اپنی تفریح کی خاطر کسی انسانی جان کو خطرے میں نہیں ڈالنا ہے۔ سال پھر بدل رہا ہے کوشش کریں یہ جشن کا انداز بھی بدل دیجیئے، پوری دنیا میں نیو ائیر نائٹ منائی جاتی ہے مگرایسے انداز میں کہ کسی کی جان رسک پر نہیں ہوتی ، صرف چراغاں ہوتا ہے یا آتش بازی مگر جان لیوا فائرنگ نہیں ہوتی ۔
کراچی میں بالخصوص اور پاکستان میں بالعموم جشن منانے کے انداز بڑے نرالے اور انوکھے ہیں ۔ جشن منانے کے دوران بھرپور کوشش کی جاتی ہے کہ دوران جشن دوسرے انسانوں کو ایذا اور تکلیف ہر حال میں پہنچیں تاکہ جشن کا حق ادا ہوسکیں۔  اس طرح کا جشن نیو ائیر نائٹ کو بھی منایا جاتا ہے جب اگلے سال کی شروعات پر ہوائی فائرنگ کاشدید سلسلہ ہوتا ہے جس کی زد میں سیکڑوں لوگ آکر زخمی ہوجاتے ہیں اور کتنے ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔کیونکہ گولی بظاہر اوپر کی جانب چلائی جاتی ہے مگر وہ آتی نیچے ہیں اور پھر وہ کسی کو بھی نشانہ بناتی ہے۔
 جشن منانا ہے، ضرور منائیں ، ناچنا ہے،  یا جو کرنا ہے کریں مگر دو اصول سوچ لیجئے اور پھر جشن منائیں ، پہلا اصول کےآپ کے جشن سے کسی کو تکلیف تو نہیں پہنچ رہی ، اور اگر ایسا ہے تو آپ کی خوشی بے معنی ہوکر رہ جائیں گی۔ جب کے دوسرا اصول  یہ کہ آپ کے انداز جشن سے کسی کی جان خطرے میں نہ پڑجائیں ورنہ جشن جشن نہیں ہوگا اقدام قتل کہلایا جائے گا۔ جشن یعنی خوشی منانے کے بہت سے اصول ہیں مگر اگر ان دونوں پر بھی عمل ہوگیا تو بہت بڑی تبدیلی اس معاشرے میں آجانی ہے۔ اور ہاں یہ باتیں صرف نیو ائیر نائٹ تک محدود نہیں بلکہ ہر ایام جشن میں یاد رکھنی ہے تاکہ آپ کو جشن اچھے معنوں میں یاد رہیں۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments