اقلیتوں سے کیے گئے وعدے: ادارہ برائے سماجی انصاف کی تحقیقاتی رپورٹ


انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں کی جانب سے جو وعدے وعید کیے جاتے ہیں انتخابات کے بعد ان کو شاذ و نادر ہی یاد رکھا جاتا ہے ’سیاسی جماعتیں کی طرح شہریوں کو بھی یاد نہیں رہتا کہ انتخابات سے قبل ان سے جو وعدے کیے گئے تھے ان میں سے کتنے پورے کیے گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ اگلے الیکشن کے موقع پر یہ سیاسی جماعتیں نئے نعرے اور نئے وعدے لے کر آجاتی ہے اور بھولی بھالی عوام ان وعدوں پر یقین کرتے ہوئے انہیں ووٹ دے دیتی ہیں‘ ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے کیے گئے وعدوں کے حوالے سے تحقیق کی گئی ہو کہ کون سے وعدے ہیں جو پورے کیے جا چکے ہیں اور کون سے وعدے ایسے ہیں جو محض وعدے ہی رہے او ر ”غصب کیا تیرے وعدے پہ اعتبار کیا ’‘ کے مصداق ان وعدوں پر عوام کا اعتبار خود فریبی ہی نکلا ہے تاہم ادارہ برائے سماجی انصاف ( سی ایس جے ) کی جانب سے رواں سال پاکستان کی سات بڑی سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور کا جائزہ لے کر ایک رپورٹ مرتب کی گئی ہے جس سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے کیے گئے کتنے وعدے وفا ہوئے ہیں اور کتنے وعدے عوام کے لئے خود فریبی نکلے ہیں۔

ادارہ برائے سماجی انصاف نے پاکستان پیپلز پارٹی ’پاکستان تحریک انصاف‘ پاکستان مسلم لیگ ( نواز ) ’پاکستان مسلم لیگ ( ق) ‘ متحدہ قومی موومنٹ ’عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ مجلس عمل (جماعت اسلامی‘ جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن ) کے عام انتخابات برائے سال 2008 ’2013 اور 2018 کے منشوروں میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق سے متعلق انتخابی وعدوں پر عملدرآمد کے حوالے سے جو تحقیقاتی رپورٹ مرتب کی ہے اس کے مطابق ان سات جماعتوں کی جانب سے اپنے منشور میں کیے گئے ایک تہائی وعدے تقریباً ایک جیسے ہی تھے ان وعدوں میں متروکہ وقف املاک بورڈ میں اقلیتوں کو نمائندگی میں اضافہ‘ قانون سازی کے ذریعے اقلیتی کمشن کا قیام ’جبری مذہب تبدیلی کو جرم قرار دینا‘ تعلیمی نصاب پر نظر ثانی ’ملازمت میں کوٹہ سسٹم کا نفاذ اور امتیازی قوانین کا جائزہ لینا شامل ہے‘ سیاسی جماعتوں کے منشور میں ایک جیسے وعدے ہونے کے باوجود ان پر عملدرآمد نہیں ہوا جو اس امر کی نشاندہی ہے کہ یہ وعدے محض وعدے ہی تھے اور اقلیتوں کے حوالے سے کیے گئے وعدوں پر عمل درآمد کے حوالے سے سیاسی جماعتیں سنجیدہ نہیں ہیں۔

اس تحقیقاتی رپورٹ سے یہ نظر آتا ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ سات میں سے پانچ وعدوں پر خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی ’محض جزوی طور پر دو وعدوں کو عملی شکل دیتے ہوئے جو اقدامات کیے گئے ان کے تحت اقلیتی طلباء کے لئے اسلامیات کے متبادل مضمون متعارف کرایا گیا اور مذہبی اقلیتوں کو مختلف حوالے سے شامل گفتگو کیا گیا ہے‘ بیشتر سیاسی جماعتیں اقلیتوں کے مسائل کے حل اور ان کے خلاف جاری پراپیگنڈہ کے حوالے سے تذبذب کا شکا ر رہی ہیں جس کی وجہ سے جبری مذہب تبدیلی کے قانون پر بحث نہیں ہو سکی ’ادارہ برائے سماجی انصاف نے اقلیتوں کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے منشور میں کیے گئے وعدوں پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجوہات جو بیان کی گئی ہیں ان کے مطابق بیشتر سیاسی جماعتوں نے فنڈز کی تقسیم کو حقوق کا نفاذ سمجھتے ہوئے اسی پر توجہ دی ہے‘ سیاسی سرگرمیوں میں مذہب کا کارڈ کا بے تحاشا استعمال بھی مذہبی اقلیتوں سے کیے گئے وعدوں پر عمل درآمد میں رکاوٹ کا بڑا سبب ثابت ہوا ہے۔

مقتدر سیاسی اور مذہبی جماعتیں اپنے آپ کو صحیح العقیدہ ثابت کرنے کے لئے ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کرتی رہی ہیں ’سیاسی تقاریر میں اقلیتوں کو با اختیار بنانے کی خواہش کا اظہار تو کیا جاتا رہا ہے‘ لیکن اقدامات اس کے برعکس کیے گئے ہیں وفاق ’پنجاب‘ سندھ اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں میں شامل دو سیاسی جماعتیں ( پی پی پی او ر پی ٹی آئی ) نے قانون سازی کے ذریعے اقلیتوں کے لئے قومی کمشن کے قیام کا اعلان کیا تاہم عمل درآمد نہیں ہوا دوسری جانب سرکاری ملازمتوں میں اقلیتوں کوٹہ پر عملدرآمد کے لئے بھی موثر قانون سازی نہیں کی جا سکی ہے ’اقلیتوں سے کیے گئے وعدوں کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کی جانب سے مثبت اقدامات بھی اٹھائے گئے ہیں مگر یہ اقدامات ان وعدوں پر کیے گئے ہیں جو دوسری سیاسی جماعتوں نے کیے تھے جیسے پاکستان مسلم لیگ ( نواز) نے اقلیتی طلباء کے لئے تعلیمی کوٹے کا وعدہ کیا تھا جبکہ پیپلز پارٹی نے تعلیمی اداروں میں اقلیتی طلباء کے تحفظ سے متعلق بات کی تھی مگر تعلیمی اداروں میں اقلیتی طلباء کے لئے دو فیصد سیٹوں کی منظوری تحریک انصاف کی حکومت نے دی‘ سیاسی جماعتوں کے منشور میں اقلیتوں کے تحفظ اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کے حوالے سے کیے گئے وعدے غیر واضح تھے جس کی وجہ سے ان پر عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے۔ ادارہ برائے سماجی انصاف کی اس تحقیقاتی رپورٹ کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے اقلیتوں کے حوالے سے کیے گئے وعدوں کے حوالے سے اقلیتی حلقوں کو آگاہی دینے کے لئے یہ رپورٹ خاصی معاون ثابت ہوگی اور کسی حد تک اقلیتی ووٹرز کے استصواب رائے کے درست استعمال کی سمت بھی متعین کرے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments