بائیک چلاتی لڑکیوں کو گھورنا بند کریں


میرے بہت اچھے دوست ہیں، ان کی چار بیٹیاں ہیں۔ وہ بیٹے کی خواہش رکھتے تھے مگر قدرت نے ان کے لئے کچھ اور ہی سوچ رکھا تھا۔ اب ان کی چوتھی بیٹی بھی 5 سال کی ہے۔ ان کی تین اور بیٹیاں ہیں، مگر وہ بیٹیاں بہت سے ایسے کام کرتی ہیں جو گھر کے بیٹے کرتے ہیں، جیسے ایک پاؤ دہی لانا، دودھ ڈبل روٹی لانا، تندور کی روٹیاں لانا اور اماں کو بازار لے جانا۔ اور سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ وہ یہ سارے کام بائیک پر کرتی ہیں اور وہ بھی پیچھے بیٹھ کر نہیں بلکہ بائیک چلا کر۔ یہ لڑکیاں جو بائیک چلاتی ہے وہ اسکوٹی بائیک نہیں ہے بلکہ ہماری والی بائیک کی طرح عام بائیک ہی ہوتی ہیں اور وہ لڑکیاں سارے کام کرتی ہیں۔

یہ ایک دو لڑکیوں کی کہانیاں نہیں بلکہ اب یہ کہانی سینکڑوں لڑکیوں کی کہانی بن چکی ہے۔ جو باقاعدہ بائیک چلاتی ہے اور اپنے روز مرہ زندگی کے کام کرتی ہیں۔ وہ یونیورسٹی ہو، وہ آفس ہویا کوئی اور کام اب وہ خود بائیک نکالتی ہیں اور چل پڑتی ہے۔ اس سے بہت سے فوائد حاصل ہو رہے ہیں۔ جیسے ہر کام کے لئے مردوں پر انحصار کیا جاتا تھا کیونکہ وہ گاڑی یا بائیک پر لے جاتے ہیں لیکن خود چلانے سے یہ فائدہ ہو گا کہ وہ خود سے اپنے کام کریں گی اور پھر زیادہ پروڈکٹیو ہو سکیں گی۔

کراچی شہر میں پہلے یہ منظر گاہے گاہے نظر آتے تھے مگر اب یہ مناظر مسلسل نظر آتے ہیں۔ یہ مناظر عام ہونے کے باوجود بھی بہت سے لوگوں کے لئے حیران کن ہیں۔ بالخصوص مخصوص ذہنیت رکھنے والے بہت سے مردوں کے لئے یہ منظر مسلسل گھورنے کا سامان بن جاتا ہے۔ لیکن ان گھورنے والے مردوں کو کوئی یہ بات سمجھائیں کہ یہ بھی سواری ہے دوسری سواریوں کی طرح، تو اپنی نظریں نیچی رکھیں اور کسی کے کانفیڈنس کو نقصان نہیں پہنچائیں۔ گھورنے کی عادت پاکستانی مردوں میں اجتماعی عادت بن گئی ہے اور یہ کسی صورت نہیں چھوٹتی۔ بالخصوص گھر کی خواتین کے بارے میں جتنی احتیاط یہ کرتے ہی اتنی ہی بے احتیاطی اور بے اعتنائی باہر کی خواتین کے بارے میں رکھتے ہیں۔

بائیک چلانا صرف خواہش ہی نہیں بلکہ ضرورت بن گئی ہے۔ دوسرے شہروں میں کسی حد تک ٹرانسپورٹ کے مسائل کم ہیں مگر کراچی میں ٹرانسپورٹ کے مسائل بہت زیادہ ہیں۔ بہت عرصے بعد کچھ بسیں آئی ہیں، مگر وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ ٹرانسپورٹ کی کمی یا پھر مہنگی ٹرانسپورٹ نے خواتین کے لئے دوہرے مسائل کھڑے کر دیے تھے۔ کچھ لڑکیوں نے ہمت کی، بائیک کا سہارا لیا اور اپنی زندگی کو آسان بنالیا۔ یہ خواتین نہ صرف روز روز کی خؤاری سے بچ گئی بلکہ اپنی سیلری کا بہت سارا حصہ بچا بھی گئی۔ کیونکہ پبلک ٹرانسپورٹ میں وقت کے ساتھ ساتھ پیسے بھی زیادہ لگ رہے تھے مگر اب ان دونوں چیزوں کی اچھی خاصی بچت بھی ہو رہی ہے۔

آخر میں سڑکوں پر موجود خونخوار مردوں سے بس اتنی گزارش ہے کہ اپنی نظروں سے اچھے کام لے اور گھورنے کا کام چھوڑ دیں۔ آگے چلتی بائیک اور سڑک پر نظریں مرکوز رکھیں تاکہ اخلاقی حادثے سے بھی بچ سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments