عالمی امداد اور پاکستانی سیاسی لیڈروں کی ذمہ داری


پاکستان میں سیلاب کی تباہی سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ کرنے اور تباہ شدہ انفرا اسٹرکچر کی تعمیر کے لئے عالمی برادری نے 9 ارب ڈالر کے لگ بھگ امداد دینے کا وعدہ کیا ہے۔ ان میں سے چھ ارب ڈالر اسلامی بنک، ورلڈ بنک اور ایشیا بنک جیسے ادارے فراہم کریں گے جبکہ باقی ماندہ فنڈز دوست ممالک نے دینے کا وعدہ کیا ہے۔ سعودی عرب اس مقصد کے لئے ایک ارب ڈالر دے گا۔ یہ وعدے جینوا میں پاکستان اور اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہونے والی ایک کانفرنس میں کیے گئے ہیں جو سیلاب کی تباہ کاری کے بعد عالمی امداد لینے کے لئے منعقد کی گئی تھی۔

وزیر اعظم شہباز شریف اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئیترس نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پاکستان میں ہونے والی تباہ کاری، سڑکوں اور بنیادی سہولتیں فراہم کرنے والی عمارات کی تباہی اور تین کروڑ کے لگ بھگ لوگوں کے بے گھر ہونے کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کیں۔ شہباز شریف کے علاوہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے موسمی تبدیلیوں سے رونما ہونے والی اس تباہ کاری کے اثرات بتانے کے علاوہ، یہ وعدہ بھی کیا کہ پاکستان عالمی اداروں سے کیے گئے سب وعدے پورے کرے گا۔

اسحاق ڈار کے اس بیان کا تعلق براہ راست آئی ایم ایف کے ساتھ نویں جائزے کے حوالے سے پیدا ہونے والی مشکلات سے تھا۔ اسحاق ڈار کے بعض سیاسی اقدامات کی وجہ سے آئی ایم ایف مطمئن نہیں ہے اور نواں جائزہ مسلسل تعطل کا شکار ہے۔ البتہ وزیر اعظم نے بھی کانفرنس کے دوران وعدہ کیا ہے کہ پاکستانی حکومت عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ ہونے والے وعدے پورے کرے گی۔ ان یقین دہانیوں کے بعد امید کی جا رہی ہے کہ جلد ہی آئی ایم ایف کی طرف سے طے شدہ معاہدے کے تحت سوا ارب ڈالر کی قسط وصول ہو سکتی ہے۔ یہ قسط ملنے سے اس ماہ کے آخر تک چین اور سعودی عرب سے بھی مالی امداد فراہم ہونے کا امکان ہے۔

پاکستان اس وقت شدید معاشی بحران کا شکار ہونے کی وجہ سے عالمی امداد کا محتاج ہے تاکہ ملک میں معاشی احیا کے لئے کام کا آغاز ہو سکے اور ملک بیرونی قرضوں کی اقساط ادا کر کے ڈیفالٹ کے خطرے سے باہر نکلا جا سکے۔ جینوا کانفرنس میں کیے جانے والے وعدے پورے ہونے سے پاکستان کو آئندہ تین سال کے دوران مسلسل تعمیراتی و ترقیاتی مقاصد کے لئے کثیر مقدار میں فنڈز فراہم ہوسکتے ہیں۔ یہ فنڈز چونکہ تباہ شدہ انفرا اسٹرکچر کی تعمیر اور بنیادی بہبود کی سہولتیں فراہم کرنے پر صرف ہوں گے، اس لئے اس سے روزگار کے مواقع پیدا ہونے کے علاوہ ملکی معیشت میں تیزی دیکھنے میں آئے گی۔ پاکستانی معیشت میں پیدا واری صلاحیت میں اضافہ کے لئے اسی قسم کی کثیر غیر ملکی سرمایہ کاری کی ضرورت تھی جو اب سیلاب کے سبب پیدا ہونے والی صورت میں میسر آنے کا امکان پیدا ہوا ہے۔ ان معنوں میں یہ ملکی معاشی استحکام کے لئے ایک اچھی اور مثبت خبر ہے۔ اگر یہ وسائل وزیر اعظم کے وعدے کے مطابق ضروری شعبوں میں شفافیت کے ساتھ صرف کیے گئے تو ایک طرف زندگی کے ہر شعبہ میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے تو دوسری طرف نیا سرمایہ ملک میں لگنے سے زراعت سمیت متعدد صنعتی شعبوں کی پیداواری صلاحیتیوں میں اضافہ ہو گا۔ اس طرح قومی پیداوار میں تیزی کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔

جینوا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے بتایا تھا کہ ملک کو سیلاب سے ہونے والی تباہ کاری کی وجہ سے تیس ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ سڑکوں اور تباہ حال ڈھانچے کی تعمیر کے علاوہ پاکستان کو فوری طور سے 16 ارب 20 کروڑ ڈالر درکار ہیں۔ پاکستانی وزیر اعظم نے واضح کیا کہ پاکستان ایک غریب اور ترقی پذیر ملک ہے۔ سیلاب کی صورت میں اسے جس ناگہانی آفت کا سامنا کرنا پڑا ہے، وہ بھی اس کی اپنی غلطیوں کا نتیجہ نہیں ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے اب دستاویزی طور سے ثابت کرچکے ہیں کہ یہ آفت درحقیقت دنیا کے درجہ حرارت میں اضافہ اور ترقی یافتہ ممالک کی بے اعتدالی کی وجہ سے رونما ہونے والی موسمی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔ اس پس منظر میں عالمی برادری کا فرض ہے وہ اس نقصان کی تلافی میں پاکستان کی مدد کرے۔ شہباز شریف نے اعلان کیا کہ پاکستان اس میں سے نصف رقم یعنی 8 ارب ڈالر کے لگ بھگ وسائل اپنے ذرائع سے فراہم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ البتہ باقی ماندہ رقم کے لئے دوست ممالک اور عالمی اداروں کو سامنے آنا ہو گا۔

شہباز شریف اور انتونیو گوئیترس کی اپیل کا اثر تھا یا پاکستان کی صورت حال کی سنگینی کے بارے میں عالمی ضمیر پر بوجھ کا نتیجہ تھا کہ کانفرنس کے دوران ہی کثیر مقدار میں عطیات کا اعلان کیا جانے لگا۔ وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب نے ایک ٹویٹ پیغام میں جو معلومات فراہم کی ہیں، ان کے تحت فوری طور سے 8 ارب 57 کروڑ ڈالر فراہم کرنے کے وعدے کیے جا چکے تھے جبکہ متعدد دیگر ادارے اور ممالک بھی اس مد میں حصہ دینے پر آمادہ ہیں۔ یہ ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ البتہ اس کانفرنس کے بعد پاکستان کو دو چیلنجز کا سامنا ہو گا۔ ایک تو یہی کہ جن اداروں اور ممالک نے امداد فراہم کرنے کے وعدے کیے ہیں وہ طے شدہ شیڈول کے مطابق یہ فنڈز دینا شروع کر دیں تاکہ پاکستان میں بحالی کا کام تسلسل سے جاری رہ سکے۔ البتہ اس کا انحصار کسی حد تک پاکستان میں سیاسی استحکام اور حکومتی ڈھانچے کی فعالیت اور شفافیت پر بھی منحصر ہو گا۔ شہباز شریف نے اپنے وسائل سے آٹھ ارب ڈالر کی کثیر رقم فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ اگر یہ وعدہ محض بیان بازی کی بجائے ٹھوس اقتصادی منصوبہ بندی کی بنیاد پر کیا گیا ہے تو اس سے عالمی ڈونرز کو بھی امداد فراہم کرتے ہوئے خوشی ہوگی اور یہ یقین بھی ہو گا کہ پاکستان محض بیرونی امداد پر ہی انحصار نہیں کر رہا بلکہ سنگین مسائل کا سامنا کرنے کے باوجود خود بھی بحالی کے منصوبہ میں سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ شہباز حکومت کو ہر قیمت پر اپنا یہ وعدہ سچ ثابت کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ ان منصوبوں کی نگرانی اور ان پر عمل درآمد کے لئے ایسے افسروں کو متعین کیا جائے جن کی دیانت اور صلاحیت شک و شبہ سے بالا ہو۔

پاکستان اگر اس موقع کا مناسب طریقہ سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہا تو امید کی جا سکتی ہے کہ آئندہ تین سے پانچ سال کے بعد پاکستان کی پیداواری صلاحیت میں گراں قدر اضافہ دیکھنے میں آئے گا اور یہ ملک اپنے قرضے چکانے کے علاوہ اپنا بوجھ خود اٹھانے کے بھی قابل ہو جائے گا۔ یہ ایسے معاشی حقائق ہیں جن سے انکار ممکن نہیں ہے لیکن اس کانفرنس کے بعد اب پاکستانی حکومت، سیاسی پارٹیوں اور عوام کے عزم و حوصلہ کا اصل امتحان شروع ہو گا۔ پاکستانی عوام کو سیاسی کھینچا تانی کی ذہنیت سے باہر نکل کر اس مرحلے پر صرف ملک و قوم کی تعمیر کے مقصد کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ جینوا کانفرنس نے اس مقصد کی تکمیل کے لئے بنیاد فراہم کردی ہے۔ اب پاکستانی قوم پر منحصر ہے کہ وہ یہ مقصد کیسے حاصل کرتی ہے۔

جینوا کانفرنس کے انعقاد کے موقع پر دیکھنے میں آیا ہے کہ تحریک انصاف کے بعض زعما نے اس ایونٹ سے پہلے ہی اسے ناکام قرار دینے اور شہباز شریف کو بے توقیر کرنے کے بیان دینے شروع کر دیے تھے۔ شہباز شریف اگر ملکی تعمیر و ترقی کے لئے عالمی برادری کے سامنے ہاتھ پھیلا رہے ہیں تو وہ یہ بھیک اپنے لئے نہیں مانگ رہے بلکہ پاکستان کو بحران سے نکالنے کے لئے موجودہ حکومت ٹھوس سفارتی کاوش کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ ان حالات میں تحریک انصاف اور دیگر سیاسی قوتوں کو بھی مثبت طور سے دست تعاون بڑھانا چاہیے۔ خاص طور سے دو اہم صوبوں میں چونکہ تحریک انصاف کی حکومت ہے، اس لئے اس پارٹی کے تعاون کے بغیر کوئی بھی قومی منصوبہ پورا ہونا ممکن نہیں ہو گا۔ اب بھی اگر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے صوبوں کو مرکز سے بھڑانے اور انفرادی لیڈروں کی کردار کشی کا سلسلہ جاری رکھا گیا تو بحران کی موجودہ صورت حال سے نکلنا آسان نہیں ہو گا۔

عمران خان اگرچہ فوری انتخابات کے لئے بے چین ہیں لیکن انہیں باور کرنا چاہیے کہ اب یا چند ماہ بعد ہونے والے انتخابات کے بعد جس پارٹی کی حکومت بھی قائم ہوئی، اسے بھی انہی مسائل کا سامنا ہو گا۔ تحریک انصاف کو اگر گمان ہے کہ آئندہ انتخابات میں وہ بھاری اکثریت سے حکومت بنائے گی تو اسے یہ بھی جان لینا چاہیے کہ شہباز شریف کی حکومت عالمی برادری سے جو وعدے لینے میں کامیاب ہو رہی ہے، وہ نتیجتاً انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کر کے حکومت بنانے والی پارٹی ہی کے لئے اثاثہ بنیں گے۔ اس حد تک یہ قومی فریضہ کے علاوہ سیاسی لحاظ سے بھی اہم ہے کہ پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لئے تیار کیے جانے والے منصوبوں کے بارے میں خوش گمانی سے بات کی جائے اور ان کی تکمیل میں روڑے اٹکانے کی افسوسناک کوششیں ترک کی جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments