بنیادی خوراک کی قلت اور پلاٹوں کی بہتات


غربت اور مہنگائی کا حال یہ ہے کہ آٹے جیسی بنیادی خوراک کے حصول کے لیے عوام سخت سردی میں قطاریں لگائے کھڑے ہیں۔ ٹی وی چینلز پر یہ خبر پوری دنیا نے دیکھی کہ آٹے کی لائن میں ہونے والی دھکم پیل میں ایک شخص زمین پر گر پڑا اور رش کے باعث دم گھٹنے اور لوگوں کے پاؤں کے نیچے آ کر ہلاک ہو گیا۔ خبر کے مطابق اس کے چار بچے تھے۔ مالی حالت کا اندازہ اسی سے سے لگایا جاسکتا ہے کہ سستا آٹا لینے کے لیے جان داؤ پر لگا دی۔ اب اس کے خاندان کی کفالت کیسے ہوگی؟ غربت اور یتیمی اور بے آسرا پن اس خاندان کی زندگیوں پر کیا اثر ڈالے گا؟ یہ موضوع اور صورتحال ہمارے ارباب اقتدار و اختیار کی دلچسپی اور توجہ کا موضوع نہیں ہے۔

چند روز قبل لمبی لمبی قطاریں اس وقت بھی دیکھنے میں آئیں جب ایک بہت بڑی ہاؤسنگ سوسائٹی کی جانب سے کراچی اور حیدر آباد کے درمیان دونوں شہروں سے تقریباً 75 کلومیٹر پر اپنے نئے منصوبے کا آغاز کیا۔ سوسائٹی کے میں مختلف رقبوں کے پلاٹ شامل ہیں جن کی اوسط پیشگی قیمت گیارہ لاکھ روپے ہے۔ ان پلاٹوں کی فائلوں کی خرید کے لیے ہزاروں لوگ اربوں روپے لیے لائنوں میں لگے ہوئے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ عوام کو مائل کرنے کے لیے کیر تھر رینج کے پہاڑی سلسلے کی سرکاری زمین پر کچھ علاقہ ہموار کر کے چند کلو میٹر کی سڑک بنائی گئی ہے۔

سوسائٹی کے سربراہ جن کے ابتدائی پروجیکٹ راولپنڈی اور لاہور میں تھے اس کے بعد انہوں نے کراچی میں اپنی ہاؤسنگ سوسائٹی کے منصوبے کا آغاز کیا۔ یہ مذکورہ منصوبہ ان کا کراچی میں دوسرا منصوبہ ہے۔ یہ مقام ویران، بنجر، جنگل کا علاقہ ہے۔ جہاں اگلی دو تین دہائیوں تک کسی بنیادی سہولت کی فراہمی ممکن نہیں ہوگی۔ لیکن پرویز مشرف کے دور میں پراپرٹی کے کاروبار کو اس قدر منافع بخش بنا دیا گیا کہ لوگ کارخانوں اور صنعتوں میں سرمایہ کاری کرنے کی بجائے پلاٹوں اور ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں سرمایہ کاری کرنے لگے۔ جس کا ایک نتیجہ تو یہ ہوا کہ زرعی زمین دن بہ دن کم ہونے لگی اور ہمیں بنیادی سبزیاں یا تو دور کے شہروں سے منگوانی پڑ رہی ہیں جن پر ٹرانسپورٹ کے اخراجات کہیں زیادہ آتے ہیں اور مہنگائی میں اضافے کا سبب بنتے ہیں، یا پھر بیرون ممالک سے درآمد کرنی پڑیں گی۔ بدقسمتی سے یہ موضوع اور مسئلہ بھی ہمارے ارباب اقتدار اور اختیار کی دلچسپی کو موضوع نہیں ہے۔ ایک طرف غربت کا حال یہ ہے کہ لوگ سستی خوراک کے لیے قطاروں میں لگے ہیں اور دوسری جانب اربوں روپے لے کر قطاروں میں اس لیے لگے ہیں کہ جنگل میں جا بسیں اور اپنا ”معیار زندگی“ بلند کرسکیں۔

ملک کی معیشت کی بحالی کے لیے حکومت قرض کے حصول کے لیے سر توڑ کوشش کر رہی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی حد تک کم ہوچکے ہیں۔ جس کی وجہ سے صنعتی سیکٹر متاثر ہوا ہے۔ خام مال کی عدم دستیابی اور بجلی گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے صنعتوں کی پیداواری صلاحیت متاثر ہو رہی ہے جس سے بے روزگاری میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے باوجود حکومت نے 165 لگژری گاڑیوں کی امپورٹ کے لیے ایل سیز کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ویسے عجیب صورتحال ہے کہ وزیر داخلہ معیشت پر بیان دے رہے ہیں، وزیر خارجہ کراچی کے بلدیاتی انتخابات پر بیان دے رہے ہیں، وزیر خزانہ اپنے منجمد اثاثوں کی بحالی کے لیے مصروف ہیں۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل وزارت سے علیحدہ کیے جانے کے بعد انقلابی بننے کی کوشش کر رہے اور ملک میں دولت کی منصفانہ تقسیم کے لیے مختلف تجاویز دے رہے ہیں، یہ بھی اسی قسم کی تجاویز ہیں جو ہر سیاستداں کو اقتدار سے الگ ہونے کے بعد یاد آتی ہیں۔

حکومت کی جانب سے بیان آتا ہے کہ معیشت کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف سے قرضہ لینا انتہائی ضروری ہے۔ کیوں کہ اس کے بعد ہی دوست ممالک قرضہ دیں گے۔ حکومت بتاتی ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضہ مشکل شرائط پر ملے گا۔ یعنی بین السطور یہ ہی کہنا ہے کہ عوام تیار رہیں۔ ویسے یہ آئی ایم ایف کی شرائط بھی صرف عوام پر ہی ٹیکس لگانے کے لیے ہوتی ہیں۔ ہمارے دوست صاحبزادہ صبغت اللہ خوب کہتے ہیں کہ یہ آئی ایم ایف، وزراء، اراکین پارلیمنٹ، ججوں، ہر قسم کی بیوروکریسی کی تنخواہوں اور مراعات پر کیوں قدغن نہیں لگاتا؟ یہ ٹیکس کی برق صرف غریبوں پر ہی کیوں گرتی ہے؟ اور بقول حکومت کے کہ دوست ممالک بھی قرضہ اور مدد اسی صورت میں کریں گے جب آئی ایم ایف سے معاملات طے ہوجائیں گے۔ یہ اچھے دوست ہیں جو اپنے دوست کو قرض کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔ شاید ہم تکلف کو بھی اخلاص سمجھے بیٹھے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments