آئی ایم ایف کی عوام دوست شرائط پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا؟


کئی برسوں سے ملک کی معاشی صورتحال کی بہتری کے لئے نسخہ پیش کیا جاتا ہے کہ ”مشکل فیصلے“ کرنے پڑیں گے۔ تاحال کسی بھی حکومت نے چاہے، سابقہ ہوں یا حالیہ یا فوجی حکومتیں ہی کیوں نہ ہوں، یہ بتانے سے قاصر رہے کہ مشکل فیصلے کون سے ہوں گے، کیا ہوں گے اور کیوں ہوں گے؟

عام طور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ جو کچھ بیرونی قرضے لینے جاتے ہیں ان کے سود یا ان کی قسطوں کی ادائیگی کرنی ہے ان کے لئے مشکل فیصلے کرنے ہوں گے یعنی کہ قرضوں کا سارا بوجھ عوام پر ڈال کر ٹیکسوں میں اضافہ کیا جائے۔ لوگوں کو یاد دلایا جاتا ہے کہ مشکل فیصلے عوام اور ملک کی بھلائی کے لئے کرنا پڑتے ہیں وہ قرضے جن کے حصول میں عوام کی مرضی شامل نہیں رہی ہے ان کے بہتر معاشی حالات اور آسودگی کی خاطر یہ کڑوے گھونٹ پینا پڑھتے ہیں۔

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو ملک و عوام کی نجات کا ذریعہ گردانتے ہوئے لوگوں کو اس کی اطاعت اور اس پر مکمل بھروسا رکھنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ اسی طرح ہر حکومت اپنے سے پہلے کی حکومتوں پر الزام لگاتی ہے کہ وہ کرپٹ اور نا اہل رہی ہیں جنہوں نے قرضے لے کر ملک کو مقروض کر دیا جن کے باعث ملک بحران کا شکار ہوا ہے۔ لہٰذا ملک کو سنگین بحران سے نکالنے کے لئے آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑتا ہے اور ان کی سخت شرائط کو ماننا پڑے گا ورنہ ملک گمبھیر بحرانوں میں پھنس جائے گا۔

یوں پورے ملک کو ڈرا کر سخت شرائط پر قرضے لینے جاتے ہیں مگر سرکاری اخراجات، فوجی بجٹ میں کٹوتی، وزرا کی تعداد میں کمی، امیروں پر ٹیکس کے نفاذ، زرعی ٹیکس سمیت بہت سارے اقدامات اٹھانے کی بجائے پیٹرول، بجلی، گیس، ادویات، کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کو بہترین حل ٹھہرایا جاتا ہے بلکہ سرکاری اللے تللے اخراجات بھی اس بہانے بڑھا دیے جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط کو کسی طور مشکل فیصلے نہیں کہے جا سکتے ہیں بلکہ یہ شرائط تو ریاست، اس کے رکھوالوں، حکمرانوں، اور دولت مندوں کو عوام سے مزید خون نچوڑنے کے لئے آسانیاں فراہم کرتے ہیں۔

مگر حکمراں آئی ایم ایف کی دیگر شرائط کا ذکر نہیں کرتے جو ملک کے عوام کی پریشانیوں سے نجات کا کافی حد تک ذریعہ بن سکتے ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارا انحصار بیرونی قرضوں پر سے کم از کم ہو جائے ؛

آئی ایم ایف کی ان شرائط کو کیوں نہیں تسلیم کیا جاتا ہے؟

1۔ براہ راست ٹیکس کا نظام نافذ کیا جائے اور بالواسطہ ٹیکس ختم کر کے امیرؤں پر براہ راست ٹیکسز عائد کیے جائیں یعنی آمدنی اور منافع پر ٹیکس لگائے جائیں۔ آسان الفاظ میں دولت پر ڈائریکٹ ٹیکسز کا اطلاق کیا جائے۔

اس شرط کے باعث عوام کو اعلٰی طبقات کی عیاشیوں کی سزا بھگتنے سے نجات ملے گی اور براہ راست ٹیکسوں کے باعث براہ راست ٹیکسوں سے عوام کو سہولت ملے گی، ہمارے ملک میں ہر بچہ، ہر فرد حتیٰ کہ فقیر بھی ٹیکس دیتا ہے کیونکہ دوائیوں، کھانے پینے کی اشیاء نصابی کتب، ٹرانسپورٹ، گیس، بجلی، اور پانی کے استعمال پر بالواسطہ ٹیکسز دل کھول کر لگائے جاتے ہیں، یوں دولت مند افراد بھی وہی ٹیکسز ادا کر رہے ہیں جو کہ ایک غریب محنت کش اور فاقہ زدہ شخص بلکہ فقیر بھی ادا کرتا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ منتخب حکومتیں ڈائریکٹ ٹیکسز کیوں نہیں عائد کرتی ہیں؟ اس کی وجہ شاید امیر اور طاقتور طبقات کو ملک کی معیشت پر حاوی رکھنا ہو۔

2۔ زمینداری یا جاگیردارانہ نظام کا مکمل خاتمہ بھی آئی ایم ایف کی اولین شرائط میں سے ایک شرط کے طور پر شامل ہے، آخ اس پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا؟

مجال ہے کوئی حکومت بڑی بڑی زمینداری کے خاتمے کے لئے خلاف کسی قسم کے ارادہ کا اظہار ہی کردے۔ وڈیرے، بڑے بڑے جاگیردار/زمیندار فوجی حکومتوں کی بنیادی طور پر حلقہ انتخاب کا درجہ رکھتے ہیں اسی طرح منتخب حکومتیں بھی ڈر کر جاگیردارانہ نظام کو برقرار رکھتی ہیں۔ آئی ایم ایف کی لینڈ سیلنگ کی شرط عوام کی غربت دور کرنے کی سب سے مفید شرط ہے۔ اس شرط کو پورا کرنے میں کسی قسم کا خرچہ نہیں ہے جبکہ ملک کے تیس فیصد زمینوں پر چند ہزار خاندانوں کا قبضہ ہے جن کی آمدنی کہیں ڈاکومنٹ نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ ٹیکسز کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ جاگیرداری نظام کے خاتمے سے نہ صرف ملک کی آمدنی میں بہت ہی قابل ذکر آمدنی ہوگی بلکہ غربت کے خاتمے میں بھی 15 سے بیس فیصد اضافہ ہو گا اور زرعی اجناس و سبزی بھی سستے داموں میسر ہوں گی ۔ نیز سیاست بھی وراثتوں کی سیاست سے آزاد ہو جائے گی اور جمہوریت بھی نافذ ہونے میں مدد حاصل ہوگی۔

‏ 3۔ آئی ایم ایف یہ بھی کہتی ہے کہ غیر ترقیاتی خرچوں کو کم سے کم کر کے ترقیاتی اخراجات کو بڑھایا جائے۔ کیا یہ شرط بری ہے؟

‏شاید یہ عام طور پر لوگوں کو نہیں معلوم کہ ہم اپنے وفاقی بجٹ میں سے صرف 8 سے 10 فیصد رقم ترقیاتی مد میں رکھتے ہیں اور سال کے اختتام پر ترقیاتی رقم میں سے بھی بڑی رقم سیکیورٹی کے نام پر کہیں اور چلی جاتی ہے۔ ہمارے بجٹ کا ایک بڑا حصہ فوجی و دفاعی اخراجات، غیر ملکی و عام مارکیٹ سے حاصل کیے گئے قرضوں کے اقساط اور سود کی ادائیگی اور غیر ترقیاتی اخراجات یعنی وفاقی و صوبائی وزرا اور سرکاری تنخواہوں سمیت بے شمار الاونسز میں جاتے ہیں، اتنے سارے اخراجات کے باوجود فوجیوں کی پنشن، ریٹائرڈ فوجیوں کو مفت بجلی، پانی، ٹیلیفون گیس اور فرسٹ کلاس کے ہوائی سفر وغیرہ کے سفر بھی ملکی بجٹ میں شامل ہوتے ہیں جبکہ دفاعی بجٹ و فوجی اخراجات ملکی بجٹ میں 23 فیصد علیحدہ سے رکھے ہوتے ہیں۔ اس طرح ہمارا سالانہ بجٹ خسارے میں چلا جاتا پھر اس خسارے کو پورا کرنے کے لئے قرضے لئے جاتے ہیں یوں پہلا حملہ ترقیاتی بجٹ پر حملہ ہوتا ہے خاص کر تعلیم، صحت اور عوامی بہبود کے پروجیکٹس پر۔

‏اگر غیر ترقیاتی بجٹ کو کم سے کم کر دیا جائے، سول بجٹ میں سے فوجیوں کے پینشنز 1 ور عیاشی کے اخراجات ختم کر دیں تو اس میں کیا برائی ہے؟ شاید ہمیں کشکول لے کر گھومنے نہ پڑتا۔ آئی ایم کی یہ شرط بھی پاکستانیوں کے ہی مفاد میں ہے پھر اس پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا؟

سنجیدہ حلقوں اور سول سوسائٹی کی تجاویز

آئی ایم ایف کی درج بالا شرائط بھی سول سوسائٹی کے دیرینہ مطالبات رہے ہیں بلکہ ان سے علاوہ بھی بہت سے مطالبات رہے ہیں جن کے ذریعہ عوام کے حالات بہتر بنائے جا سکتے ہیں اور حکومت کی آمدنی میں بھی اضافہ ہونے کے ساتھ ملک کی شرطیہ ترقی کی ضامن بھی ہیں۔ نیز روزگار میں بھی بیش بہا اضافہ ہو سکتا ہے اور مہنگائی بمشکل تمام ہی بڑھ پائے گی، مندرجہ ذیل اقدامات فوری طور پر کیے جا سکتے ہیں ؛

• 400 گز سے بڑے مکانات پر ٹیکسوں کی شرح میں دو سو فیصد اضافہ کر کے بڑے مکانات کی تعمیر کی حوصلہ شکنی کی جائے نیز جتنے بڑے بڑے رہائشی پلاٹ و مکانات ہوں گے اسی تناسب سے ٹیکس نافذ کیے جائیں، اسی طرح 2000 اسکوائر فٹ سے بڑے فلیٹ نہ ہوں اور جو ان سے بڑے ہوں تو ان پر بھی اسی شرح سے ٹیکس دوگنا عائد کیا جائے۔ یوں حکومتوں کو فوری طور پر اتنی بڑی آمدنی ہوگی کہ جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔

• ‏ہر قسم کی درآمدات (امپورٹ) خاص کر کھانے پینے کی اشیاء اور کپڑوں کی امپورٹس مکمل پابندی عائد ہونی چاہیے اس سے حیران کن طور پر زر مبادلہ میں کمی آئے گی۔ امپورٹس سے چلنے والی صنعتوں اور ان کے لئے کیمیکلز اور مشینری کے لئے درآمدات کی اجازت ہونی چاہیے۔

• ‏لگژری آئٹمز بشمول گاڑیوں کی درآمدات بند ہونی چاہیے، جو افراد اگر باہر سے گاڑیاں منگواتے ہیں تو ان کے اسٹیٹ بنک سے ڈالرز نہ دیے جائیں وہ صرف اوپن مارکیٹ سے ڈالرز خریدیں۔ اس طرح ڈالرز کی بھاری بچت ہوگی۔

• ‏بجلی کے لئے سولر یونٹس لگائے جائیں اور پن چکیوں سے بجلی کی پیداوار کی بڑے پیمانے پر حوصلہ افزائی کی جائے۔

• ‏دوائیوں اور کھانے کی تمام اشیا پر ٹیکسز نہ عائد کیے جائیں تاکہ مہنگائی کو روکا جا سکے اور عوام کو آسانی سے خوراک تک رسائی ہو سکے، نیز ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کی حوصلہ شکنی ہو سکے گی۔

• ‏ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار پر بھی پابندی ہونی چاہیے کیونکہ اس سے چند لوگوں کو فائدہ پہنچتا جن کے پاس پیسہ جاکر منجمند ہوجاتا ہے۔ رئیل اسٹیٹ غیر پیداواری عمل کا حصہ نہ ہونے کے باعث ایک بے سود کاروبار ہے۔

• ‏تعلیم کے پھیلاؤ کے ضمن میں درسی و نصابی کتب، سائنسی تعلیم سے متعلق لیبارٹریز کے تمام آلات کو ٹیکسوں سے مستثنٰی کیا جائے۔

• ‏فوجیوں کی رہائشی آبادیوں پر بھی بھاری ٹیکسز عائد کیے جائیں اور ان کی ہاؤسنگ اتھارٹیز کو ختم کر کے انہیں ہاؤسنگ سوسائٹیز کا درجہ دیا جائے تاکہ وہ عام قوانین اور آئین کے تحت عام ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی طرح ٹیکسز بھی ادا کریں اور قبضہ گیری ختم کریں اس طرح شہری حکومتیں کی بیش بہا آمدنی ہوگی۔ علاوہ ازیں تمام شہروں سے کنٹونمنٹس ختم کر دیے جائیں جو شہریوں سے مفت کا پانی بجلی اور گیس حاصل کرتے ہیں۔

• ‏آخر میں ایک بار سے یہ مطالبہ کہ لینڈ ریفارمز کی جائیں، حاصل ہونے والی زمینیں بے زمین کسانوں اور خاص کر سیلاب زدگان میں تقسیم کی جائیں۔

• ‏اگر مندرجہ بالا تجاویز پر ہی عمل کر لیا جائے تو پھر کسی نوعیت کے ”مشکل فیصلے“ نہیں کرنے پڑیں گے جس کے ذریعہ عوام کو بھاری ٹیکسز اور ممکنہ مہنگائی و بے روزگاری سے نجات مل سکتی ہے۔ مرحوم بھٹو نے اچانک اعلان کر کے بعض صنعتوں خاص کر خورد و نوش سے متعلق فیکٹریز اور تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لیا تھا جس کے بعد جنرل ضیا کے اقتدار میں آنے تک نہ قیمتوں میں اضافہ ہوا تھا نہ ہی فیسوں میں۔ لہٰذا کچھ ایسے اقدامات کر کے عوام کا بھلا ہی کر دیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments