ڈریں اس وقت سے جب قاسم علی شاہ وزیراعظم ہوں گے


ہمیں ڈر لگتا ہے ایسے بندے سے جو اس قسم کا دعوی کرتا ہو کہ

“اس کے پاس تو مالک کا دیا ہوا سب کچھ تھا مگر اس کے دل میں اچانک سے غریبوں کا درد محسوس ہوا تو وہ لوگوں کی تقدیر سنوارنے میدان سیاست میں آ گیا”

یقین مانیں ہمارے اوسان خطا ہو جاتے ہیں جب ہمارے کانوں کو اس قسم کے دعوے سننے کو ملتے ہیں کہ

میں اپنی زندگی کا فل بلون اسٹارڈم انجوائے کر چکا تھا مگر؟

میں چاہتا تو بڑے آرام سے یورپ میں ایک شاہانہ زندگی گزار سکتا تھا مگر؟

میں اپنی بھرپور زندگی میں درجنوں ممالک کی سیر اور ہزاروں کتابوں کا مطالعہ کرچکا ہوں مگر؟

مجھے زندگی میں تمام سہولیات میسر تھیں مگر؟

میری آ دھی سے زیادہ زندگی یورپ میں گزری اور مجھ سے زیادہ یورپ کو کوئی اور نہیں جانتا مگر؟

میں نے اپنے تمام فلاحی پروجیکٹ سے استعفیٰ دے دیا ہے اور اب صرف اعزازی عہدہ انجوائے کروں گا کیوں کہ میں اس ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہوں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپنی سات نسلوں تک کے راشن پانی کا بندوبست کرکے ہی اس قسم کا معصومانہ جذبہ کیوں بیدار ہوتا ہے کیا پہلے اس قسم کا جذبہ ہائبرنیٹ موڈ پہ ہوتا ہے؟

یہ کس قسم کے خیالاتی سراب ہیں جو بھڑولے پورے بھر جانے کے بعد بیدار ہوتے ہیں؟

یہ کس قسم کا مخمصہ، غیرت یا منافقت ہے جو زندگی کی بھرپور صبح کے سمے میں یورپ جیسے جنت نظیر نظاروں کے بیچ ستو پی کے سوئی رہتی ہے مگر جیسے ہی زندگی کی شام نمودار ہونے لگتی ہے اور کچھ بھی سجھائی نہیں دیتا تو اچانک سے یہ جذبہ بیدار ہوجاتا ہے؟

اگر فقط خدمت کرنا ہی مقصود ہے تو اتنے “اگر مگر, چونکہ چنانچہ” لگانے کی کیا ضرورت ہے؟

ایکٹنگ عہدے یا اعزازی عہدے کے بیچ کوئی خاص یا واضح فرق ہوتا ہے اگرچہ آ پ اسی پروجیکٹ کے بانی بھی ہوں؟

یہ جاننا اور سمجھنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ ہمارے ہاں ایکٹنگ سے زیادہ اعزازی منصب زیادہ طاقتور ہوتا ہے بلکل پیر، خلیفہ یا سجادہ نشین کی طرح جس کا دم بھرنے کے لیے اسی کے ہزاروں خلفا موجود ہوتے ہیں جو کبھی “سرکار” کے بھڑولے کو خالی نہیں ہونے دیتے؟

کسی پروجیکٹ کا “پیر” بننے کے بعد بھلے آپ ادھر ادھر ہو جائیں مگر آپ کے جملہ حقوق ہمیشہ کے لیے محفوظ ہی رہتے ہیں کیا ایسا نہیں ہے؟

اس مثال کو سمجھنے کے لئے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے بس ذرا سا نظر اٹھا کے شوکت خانم والے پیر صاحب جوکہ سابقہ وزیراعظم بھی ہیں کو ملاحظہ فرما لیں لگ پتا جائے گا؟

یہ منافقت کا کیسا معیار ہے کہ اپنی بھرپور جوانی تو سیکولر ریاستوں میں اپنے مطابق بسر کر ڈالی مگر آخر میں اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لئے ہاتھ میں تسبیح پکڑی اور ریاست مدینہ بنانے چل دیے؟

اب شنید ہے کہ معروف موٹیویشنل اسپیکر قاسم علی شاہ کے دل میں بھی عوام کا درد بیدار ہوا ہے، لفظوں کا منجن پوری طرح سے بیچنے اور اسی کے فیوض و برکات سے مکمل طور پر سیراب ہونے کے بعد ملکی سمت درست کرنے کے سفر پر روانہ ہو رہے ہیں، سنا ہے ان کا یہ سفر ملک کے طول و عرض میں جانے کے لیے چھیالیس دنوں پر محیط ہوگا اور اس سفر کو انہوں نے آگاہی کمپین کا نام دیا ہے، جس میں وہ عوام کو بتانے کی کوشش کریں گے کہ

ایک اچھا لیڈر کیسا ہوتا ہے؟ تبلیغی جماعت والے ایک انسان کی درست بنیادوں پر تعمیر کرنے کے لیے چالیس دن کا وقت مانگتے ہیں مگر قاسم علی شاہ نے بدعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے چھ دن بڑھا دیے ہیں اور انسانوں پر محنت کرنے کا فیصلہ کیا ہے، سوچتا ہوں کہ چالیس دن کے چلے والے گزشتہ پون صدی سے لگے ہوئے ہیں ایک بھی ڈھنگ کا ایسا کردار تعمیر نہ کر پائے جس پر امت کو فخر ہوتا تو قاسم جی کے ہاتھ ایسی کونسی انوکھی گیدڑسنگھی لگی ہے جو دنوں میں معجزے کر ڈالے گی؟

شاہ جی سیانے بندے ہیں، سماجی داؤ پیچ خوب جانتے ہیں، در در کی خاک چھاننے کے بعد اتنا تو جان چکے ہیں کہ کن راستوں پہ چل کے منزلوں کو مسخر کیا جاسکتا ہےاور کن جذبوں پر لفظوں کے پھول اور کن مرحلوں پر لفظوں کے ہتھوڑے برسا کے انسانوں کی کریٹیکل تھکنگ کو سلا کے اپنا کام نکالا جاتا ہے۔ ان کی طاقت لوگوں کے آنسوؤں میں چھپی ہوتی ہے جنہیں وہ اپنی مسحور کن باتوں اور سراب بیتیوں کی بدولت نکالنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ شاہ جی نے بھی اپنے سیاسی سفر کا آغاز عمران خان سے انٹرویو، راہنمائی اور ان سے انتخابات میں ٹکٹ کے حصول کا وعدہ لے کر کیا ہے اور ابتدائی باتیں بھی بالکل وہی کی ہیں جو ان کے سیاسی امام اور مجسمہ صادق و امین فرمایا کرتے تھے جو آج کل زمان پارک میں سیاسی چلہ کشی میں مصروف ہیں۔ یقین مانیں جب سے پتا چلا ہے کہ شاہ جی نے قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن کو خیرآباد کہتے ہوئے خود کو فقط اعزازی عہدے تک محدود رکھتے ہوئے سیاست میں قدم رنجہ فرمانے اور لوگوں کو ایک اچھے لیڈر کی اوصاف بتانے کا فیصلہ کیا ہے تو ایک انجانے سے خوف نے آ گھیرا ہے کہ

“خدا خیر کرے ابھی تک تو قوم صادق و امین والے پروجیکٹ یا تجربے کے صدمے سے باہر نہیں نکل پائی ہے اور ادھر شاہ جی نے بھی اپنی کشتیاں جلا ڈالیں”

چلیں اچھا ہے لفظوں کے جادوگروں کو بھی آٹے دال کے بھاؤ کا پتہ لگنا چاہیے ان کو بھی پتہ چلنا چاہیے کہ اسپیکنگ ڈیسک کے پیچھے کھڑے ہوکر بھاشن بازی کرنے اور لوگوں کے بیچ آ کر حقائق کا سامنا کرنے میں کتنا فرق ہوتا ہے؟عوام کی جیبوں سے موٹیویشنل اسپیکنگ کے نام پر پیسہ نکلوا کر اجرت وصولنے اور سیاست میں آ کر اپنی نجی جیب سے خرچ کرنے میں کتنا فرق ہوتا ہے؟

عوام میں ضرور نکلیں تاکہ آپ کو بھی پتا چلے کہ منبر پر بیٹھ کر عوام کو بیوقوف بنانا آسان ہوتا ہے یا ون آن ون بنانا؟

ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ لفظوں کے بازیگر اپنی لفظی شعبدہ بازیوں سے ہتھیلی پر خیالی سرسوں تو ضرور اگا سکتے ہیں مگر میدان عمل میں یا عوام کے بیچ کچھ بھی ڈیلیور نہیں کر سکتے،پروجیکٹ عمران کے نتائج ہمارے سامنے ہیں، اگر اب بھی تشفی نہیں ہوئی تو اپنے تجربے کو نئے انداز سے ایکسٹینشن دیتے ہوئے خداوندان سسٹم ایک اور تجربے کا بیڑا اٹھا لیں۔ ویسے بھی 75 سالوں سے تجربات ہی تو چل رہے ہیں تو ایک تجربہ اور سہی، روحانی ٹبر کو اقتدار دے کر دیکھ لیں۔ اس روحانی ٹبر کا سربراہ قاسم علی شاہ کو بنا دیں اور معاونین میں بابا عرفان الحق، احمد رفیق اختر، سرفراز شاہ اور بابا یحیی کو شامل کرلیں ممکن ہے روحانیت کا زمزم بہنے سے ہی ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگ پڑیں ویسے بھی تو شاہ جی اسی روحانی ٹبر کا چورن بیچ کر مہان بنے ہیں، ممکن ہے یہی فرشتہ نما لوگ ملکی نوک پلک سنوار دیں۔ چونکہ آپ کی نظروں میں تو سیاستدان چور اچکے اور شودر ہیں تو “ماورائے انسان” قسم کی اوتاری روحوں سے کام چلا کر دیکھ لیں۔ روحانیت کا ایک پروجیکٹ تو بری طرح سے پٹ گیا چلو روحانیت کی ایک اور ایکسٹینشن سہی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments