نظری تصوف – مکاتب بغداد و خراسان: ایک تعارف (2)


گزشتہ مضمون میں ہم نے تصوف کے تعارف پر مختصر بات کرتے ہوئے ذکر کیا تھا کہ دسویں اور گیارہویں صدی عیسوی تک ایک بڑی تعداد میں صوفیاء کے نظریات پھیلنا شروع ہو چکے تھے۔ ان میں سے چند ایک بڑے صوفیاء نے تصوف کے پس منظر میں اپنے نظریات کو کتابوں کی شکل میں پیش کرنا شروع کر دیا تھا اور یوں وقت کے ساتھ نظری تصوف نے دو بڑے مکاتب یعنی مکتب خراسان اور مکتب بغداد کو جنم دیا۔ مکتب بغداد اور خراسان کے صوفیاء کو بالترتیب عرب اور عجم (فارس) سے منسوب کرنے کی وجہ جہاں ایک طرف دو مختلف سیاسی و سماجی نظامات تھے وہیں یہ دونوں جانب کے صوفیاء میں مختلف روحانی و علمی رجحانات بھی تھے۔

نویں صدی کا بغداد عباسیوں کے پہلے حکمراں المنصور کا بسایا ہوا تھا۔ اس کے بعد عباسی دور حکومت خاص طور پر ہارون الرشید اور مامون الرشید جیسے مشہور حکمرانوں کا دور شروع ہوتا ہے کہ جب بغداد پوری آب و تاب کے ساتھ دنیا کے نقشے پر ایک بڑا علمی، سیاسی، معاشی و ثقافتی مرکز بن چکا تھا۔ مامون نے ہارون کی قائم کردہ لائبریری کو بیت الحکمہ میں تبدیل کر کے یونانی و سریانی زبانوں کے تراجم کے ذریعے افلاطون و ارسطو اور فلاطینس اور ہندی فلسفہ کے نظریات کو عربوں تک پہنچانا شروع کر دیا ہوا تھا۔ یہ سائنس اور ایجادات کے حوالے سے بھی اسلام کا سنہری دور سمجھا جاتا تھا۔ الکندی نے ارسطو کا اور حنین ابن اسحاق نے بقراط کا ترجمہ کیا۔ الکندی (متوفی 780 ء) کو اولین مسلم سائنسدان یا فلسفی بھی کہا جاتا ہے۔

بغداد کے صوفیاء جنہیں احباب التوحید بھی کہا جاتا تھا، ان کی توجہ کا مرکز توحید تھا اور وہ اشارات و استعارات کی زبان میں لکھا کرتے تھے۔ انہیں احباب التوحید بھی کہا جاتا تھا۔ اشاروں اور استعاروں میں لکھنے کی شاید ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ابھی تلک تصوف کو ایک علم کا درجہ نہیں دیا جا رہا تھا اور یہ صوفیاء اپنی خانقاہوں میں ہی اپنے مریدین کو یہ سب لکھوایا کرتے تھے۔ ان کے ہاں تصوف میں ’سہو‘ کا تصور غالب تھا اور یہ فنا فی اللہ ہونے کے قائل تھے۔

اس کے اہم نمائندے محاسبی اور جنید بغدادی وغیرہ ہیں۔ جبکہ مکتب خراسان نے توکل کو اپنا محور بنایا۔ خراسانی صوفیاء کے ہاں ’سکر‘ کی کیفیت کو مرکزیت حاصل ہوئی۔ صوفی اپنے خدا میں فنا ہونے کی کیفیت کو مخفی رازوں یعنی شطحات کی شکل میں بیان کرتا ہے۔ یہاں بھی پراسراریت واضح ہے۔ اور یہ شطحات کھل کر کوئی نظریہ بیان کرنے سے معذور تھے۔ اس مکتب کے نمائندے ترمذی و بسطامی، فرید الدین عطار، ابوسعید ابوالخیر اور سلمی نیشاپوری وغیرہ ہیں۔

اینی میری شمل اور رچرڈ نکلسن وغیرہ کے مطابق ذوالنون مصری (متوفی 859 ء) کو شاید پہلا صوفی کہا جاتا ہے کہ جس نے عرفانی لہجے کو اپنی تحاریر میں جگہ دی۔ ایک مثال دیکھئے،

”صوفی وہ ہے کہ جب وہ بولے تو سوائے اپنے حال کے کچھ نہیں کہتا۔ اور جب وہ خاموش ہوتو اس کا کردار اس کے حال پر دلالت کرتا ہے۔ اور اس کا حال یہ ہے کہ وہ تارک دنیا ہے“ ۔

صاحب کشف المحجوب کے بقول ذوالنون مصری کا تعلق طریقہ ملامتیہ سے تھا۔ اس طریقت کے صوفیاء ملامتی کہلاتے تھے۔ ذوالنون مصری کا اثر پورے عالم اسلام میں پھیلا ہوا تھا۔ ان کے زیر اثر مکتب بغداد کے اہم ترین صوفیاء میں اول نام ابو عبداللہ المحاسبی (متوفی 857 ء) کا ہے۔ وہ بصرہ میں پیدا ہوئے اور پھر بغداد میں سکونت اختیار کی۔ مارگریٹ سمتھ جنہوں نے محاسبی پر اپنی کتاب مشہور مستشرق رچرڈ نکلسن کے نام منسوب کی ہے، اس میں نقل کیا ہے کہ،

” (محاسبی کو) فلسفیوں کے کام اور طریقہ کار کی تعلیم حاصل تھی حتی کہ غیر روایتی فلسفی جیسے معتزلہ کے کام سے بھی واقف تھے۔ انہیں فلسفیانہ اصطلاحات کی درست تعریف اور اس دور کے عقل پسندوں کے طریقہ یعنی جدلیات کی بھی تعلیم حاصل تھی“ ۔

مشہور ہے کہ محاسبی کے خلاف مشہور فقہی امام احمد بن حنبل (متوفی 855 ء) نے سخت گیر احتجاجی تحریک چلائی کیونکہ محاسبی اپنے مناظروں اور تحریروں میں یونانیوں کے فلسفہ اور جدلیات کے ذریعے استدلال کو استعمال کرتے تھے۔ یہیں سے اندازہ کیجئے کہ کیسے آغاز ہی سے اہل تصوف نے یونانی فلسفہ خاص طور سے افلاطون اور فلاطینس سے اثر لینا شروع کر دیا تھا۔ بہرحال یہ تحریک اس قدر شدید تھی کہ محاسبی کو بھاگ کر کوفہ میں پناہ لینی پڑی اور بعد میں معافی نامہ کرنا پڑا ۔

یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ محاسبی سے متاثر ہونے والوں میں امام غزالی (متوفی 1111 ء) بھی شامل ہیں۔ خاص طور سے اس نکتے پر غزالی نے محاسبی سے بہت اثر قبول کیا ہے کہ حقیقت تک پہنچنے کا اصل ذریعہ عقل نہیں بلکہ قلب ہے۔ ہم غزالی کے باب میں اس پر مزید بات کریں گے کہ کیسے پھر اس میں اپنشدوں کی جھلک ملتی ہے۔ تصوف پر لکھی جانے والی اولین کتابوں میں محاسبی کی کتاب ’کتاب الرعایہ لحقوق اللہ‘ بھی شامل ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ محاسبی نے انسانی نفس پر بہت محاسبہ کیا اور تحلیل نفسی میں کافی پیشرفت کی۔ شمل نے اس کتاب کو اسلام کے علم نفسیات کی بہترین کتابوں میں شمار کیا ہے۔

اسی مکتب کے ایک بزرگ سہل بن عبداللہ تستری (متوفی 896 ء) ہیں۔ یہ بھی ذالنون مصری کے حلقہ اثر میں رہے ہیں۔ ان کے مشہور شاگرد حسین بن منصور حلاج (متوفی 922 ء) کو بغداد ہی میں سولی پر لٹکایا گیا کیونکہ وہ ”انا الحق“ کہنے سے باز نہیں آتے تھے۔ اہل تصوف کے ہاں کھلے لفظوں منصور حلاج کے اس قول کی نفی نہیں کی گئی بلکہ یوں کہا گیا ہے کہ اسے ایک راز افشاء کرنے پر سزا ملی ہے۔ سہل تستری کے نظریات میں اپنشدوں اور فلاطینس کے نظریات کی جھلک واضح دکھائی پڑتی ہے۔

وہ حلول کی بات کرتے ہیں یعنی کہ خدا کی ذات بندے میں حلول کر جاتی ہے اور اس لئے جب منصور نے ’انا‘ کہا تو وہ ایک فرد نے نہیں بلکہ خود خدا نے ’انا‘ کہا تھا کیونکہ بندے اور رب میں ایسا ہی تعلق ہے جیسا کہ قطرے اور دریا میں۔ دلچسپ بات ہے کہ ابن طفیل، سہروردی اور ملا صدرا کے ہاں منصور حلاج کے قول اور نظریات کی تعریف ملتی ہے۔ اس پر بھی ہم بعد میں مزید بات کریں گے۔

اس مکتب کے شاید سب سے زیادہ نمائندہ بزرگ ابوالقاسم جنید بغدادی (متوفی 910 ء) ہیں۔ جنید بغدادی کو سنی صوفی سلاسل طریقت میں سب سے زیادہ مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ وہ ایک اور مشہور بزرگ سری سقطی (متوفی 867 ء) کے بھانجے تھے جو خود ایک بڑے صوفی تھے جنہوں نے معروف کرخی (متوفی 815 ء) اور محاسبی وغیرہ سے تعلیم حاصل کی۔ انہیں جنید بغدادی یا ’شیخ الطائفہ‘ کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ جنید بغدادی نے ذالنون مصری کے افکار کو منظم کیا اور شاید پہلی مرتبہ تصوف کو بطور ایک ادارہ تعمیر کیا۔

کلاسیکی تصوف میں جنید بغدادی کے اثر کی وجہ سے تصوف کو دیگر اسلامی علوم کے ساتھ کھڑا ہونے میں مدد ملی۔ امام غزالی نے انہیں بھی اپنے روحانی اساتذہ میں شمار کیا ہے۔ جنید بغدادی نے توحید کا تصور فنا اور بقاء کے تناظر میں پیش کیا اور یوں وہ بایزید بسطامی کے بہت قریب ہو گئے۔ وہ علیحدہ بات ہے کہ جنید بغدادی کو ایک معتدل صوفی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ابن قیم الجوزی کے مطابق جنید نے کہا کہ،

”جب اللہ کسی سالک کے لئے خیر چاہتا ہے تو اسے صوفیاء کے ہمراہ کر دیتا ہے اور کتابیں پڑھنے والوں (اہل علم) سے بچا لیتا ہے“

مشہور مستشرق آربری نے لکھا ہے کہ جنید کے بقول،
”معرفت (سالک کو) لا متناہی وسعتوں تک لے جاتی ہے جب کہ علم میں یہ طاقت نہیں“

جنید بغدادی کی تعلیمات سے متاثر ہونے والوں میں ان کے مشہور مرید ابوبکر شبلی (متوفی 960 ء) ہیں۔ وہ وحدت الوجود کے نمایاں صوفیوں میں شمار ہوتے تھے اور اپنے شطحات اور تناقضات کی وجہ سے انہیں شہر بدر ہونا پڑا۔

دوسری جانب مکتب خراسان ہے، یہ لفظ جو کہ فارسی سے ماخوذ ہے اور جس کا مطلب ہے ایسی جگہ جہاں سے سورج نکلتا ہے، یعنی مشرقی علاقہ۔ خراسان دراصل موجودہ شمال مشرقی ایران، افغانستان اور وسطی ایشیاء کے چند علاقوں تک پھیلا ہوا علاقہ تھا۔ جب ساتویں صدی عیسوی میں عربوں نے فارس پر حملے کرنا شروع کیے تو خراسان جو کہ اس وقت ساسانیوں کے زیر حکومت تھا، یہ بھی امیہ سلطنت کا ایک صوبہ بن کر رہ گیا۔ بنو امیہ کے خلاف ہونے والی بغاوتوں کے دوران خاص طور پر شیعوں نے بنو عباس کے ساتھ مل کر اس علاقے کو نویں صدی عیسوی میں عربوں سے آزاد کروایا۔

بعد ازاں عباسیوں ہی کے زی اثر یہاں بھی بڑی تعداد میں علمی و ثقافتی کام ہوا۔ اس بات کا اندازہ کیجئے کہ مسلمانوں کے بڑے بڑے علماء و صوفیاء جن میں امام بخاری، امام مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، غزالی، ابو منصور ماتریدی اور فخر الدین رازی وغیرہ سب خراسانی تھے۔ ایک تحقیق کے مطابق خراسان اہل تصوف کا گڑھ بن چکا تھا۔

مکتب خراسان کے سلسلے کی سب سے اہم شخصیت حکیم ترمذی (متوفی 938 ء) ہیں جن کا تعلق خراسان کے سنی حنفی (خراسان کے اکثر صوفی سنی شافعی رہے ہیں ) ، صوفیاء سے ہے جنہیں جدید مورخین کے مطابق نظری تصوف کے اولین لکھاریوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اگرچہ خراسان کی وجہ شہرت ایک اور بزرگ ابو عبدالرحمن السلمی ہیں اور ان کی کتاب ”رسالۃ الملامتیہ“ بھی معروف ہے جس نے شاید پہلی مرتبہ صوفیوں کے ملامتی فرقہ کی بنیاد ڈالی۔ لیکن تاریخ میں حکیم ترمذی کو نظری تصوف میں زیادہ نمایاں حیثیت ملی۔ ایک تحقیق کے مطابق،

”وہ ابن عربی کے وقت تک کے واحد صوفی ہیں جن کی تحاریر نے روحانی مشاہدات، علم الانسان، کونیات اور علم کلام وغیرہ کو جامع ترین انداز میں پیش کیا ہے۔ ترمذی کا نظام فکر اس ابتدائی علم کلام کی نمائندگی کرتا ہے جب اس روایت نے ارسطوئی و افلاطونی فلسفے کے عناصر کو خود میں جذب نہیں کیا تھا“ ۔

ترمذی کے ہاں پہلے پہل توحید میں تنزیہہ کا تصور ابھرا۔ جسے بعد ازاں ابن عربی کے ہاں اک اور تصور یعنی تشبیہ کے ساتھ کافی مقبولیت ملی۔ تنزیہہ کا تصور یہ ہے کہ خدائے واحد کی وحدانیت میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے اور وہ مخلوق سے مطلقاً ماوراء ہے۔ یہی تصور مسلم عقیدے میں تصور خدا رہا ہے۔ سید حسین نصر کے بقول ترمذی وہ پہلے ہیں جنہوں نے ولایت الہی (ولی اللہ ہونے ) کے تصور کو منظم طور پر پیش کیا ( 9 ) ۔

ایک اور اہم خراسانی صوفی بایزید بسطامی (متوفی 876 ء) ہیں جو کہ شمال مشرقی ایران کے علاقے بسطام میں پیدا ہوئے۔ بایزید بسطامی اپنے تصور فنا فی اللہ اور حالت سکر (یا حالت جذب) کے حوالے سے بہت مشہور ہیں اور اہل تصوف میں وہ اپنے شطحات جیسے کہ ’سبحانی! ما اعظم شانی‘ (میں پاک ہوں مجھ سے عظیم کوئی نہیں ) کی وجہ سے جانے جاتے ہیں جسے بعد ازاں وحدت الوجود کے قائل صوفیاء میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ سید علی ہجویری نے انہیں تصوف کے دس بڑے اماموں میں شامل کیا ہے ( 10 ) ۔

یہاں تک ہم نے نویں اور دسویں صدی عیسوی کی صوفی تحریکوں اور ان کے کچھ نمائندگان کے تصورات کو دیکھا ہے۔ ابھی تک یہ واضح ہے کہ صوفیوں نے اپنی خانقاہ سے نکل کر اپنے نظریات اور تصورات کا اظہار شروع کر دیا تھا۔ اگلے مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ اس کے بعد یعنی دسویں صدی عیسوی سے تیرہویں صدی عیسوی تک کیسے نظری تصوف کے جملہ نظریات و افکار زیادہ نکھر کر سامنے آچکے تھے اور مجموعی طور پر انہوں نے کیسے ایک ’تصور علم‘ کی شکل لینا شروع کر دی۔ خاص طور پر شہاب الدین سہروردی، ابن سینا، غزالی اور شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کے ہاں نظری تصوف نے کیسے باقاعدہ علمی حلقوں میں اپنی باوقار گنجائش پیدا کر لی۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments