”سسٹم“ اِن دنوں عمران دوست نہیں رہا


الیکشن کمیشن کے ہاتھوں محسن نقوی کا بطور نگران وزیر اعلیٰ پنجاب چناﺅ ہو گیا۔ اپنے عہدے کا حلف بھی انہوں نے اتوار کی رات اٹھالیا ہے۔ جو فیصلہ ہوا ہے اسے عدالت کے ہاتھوں منسوخ کروانا مجھے اب ناممکن تو نہیں دشوار ترین یقینا محسوس ہو رہا ہے۔ فقط بھرپور احتجاجی تحریک ہی نگران وزیر اعلیٰ کو استعفیٰ دینے کو مجبور کر سکتی ہے۔ تحریک انصاف مگر اس تحریک میں مصروف ہوگئی تو پنجاب کے مختلف شہروں میں ”پلس مقابلے“ ہوں گے۔ اس جماعت کے کئی سرکردہ رہ نما اس کی وجہ سے ”امتناعی نظر بندی“ کی زد میں بھی آسکتے ہیں۔ممکنہ طورپر جھوٹے سچے مقدمات میں گرفتار یا نظر بند ہوئے افراد میں صوبائی اسمبلی کے متوقع امیدواروں کی کثیر تعداد بھی شامل ہوگی جو تحریک انصاف کے ”انتخابی اثاثوں“ کو کمزور بنائے گی۔ہنگامے اگر مقامی انتظامیہ کے قابو سے باہر ہوئے تو ”امن وامان کی بگڑتی صورتحال“ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کچھ مہینوں تک ملتوی کرنے کا جواز بھی بن سکتی ہے۔ پنجاب اسمبلی کو عمران خان صاحب نے جس ہدف کے حصول کی خاطر تحلیل کروایا تھا اس پر توجہ مرکوز رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔

محسن نقوی کی تعیناتی کا دفاع اس کالم کا مقصد نہیں۔سیاسی حرکیات کا محض طالب علم ہوتے ہوئے یہ لکھنے سے مگر باز نہیں رہ سکتا کہ عمران خان اور چودھری پرویز الٰہی نے نقوی صاحب والی ”گرہ“ اپنے ہاتھوں سے لگائی ہے۔ اسے کھولنے کے لئے دانتوں کا استعمال کرتے ہوئے وہ اپنی توانائی کاربے سو دہی میں ضائع کریں گے۔

پنجاب اسمبلی تحلیل کروالینے کے بعد نگران وزیر اعلیٰ کی نامزدگی کے لئے عمران خان اور چودھری پرویز الٰہی کے مابین لاہور کے زمان پارک میں جو مشاورت ہوئی اس کے آغاز ہی میں سابق وزیراعظم نے احمد نواز سکھیراکا نام لیا۔آئینی اور قانونی رموز سے بخوبی آشنا چودھری پرویز الٰہی انہیں یہ بات سمجھانے میں ناکام رہے کہ سکھیرا صاحب ”حاضر سروس“ سرکاری افسر ہیں۔انہیں رواں مہینے کے آخری ہفتے میں ریٹائر ہونا ہے اور کسی حاضر سروس افسر کو و زارت اعلیٰ کا ”سیاسی منصب“ خواہ وہ کتنا ہی عارضی ہو سونپا نہیں جا سکتا۔

سکھیرا صاحب کے بعد دوسرا نام نصیر خان کا تھا۔ ان کا خاندان قیام پاکستان سے کئی دہائیوں قبل افریقہ منتقل ہو گیا تھا۔ کامیاب کاروباری خاندان کے یہ فرزند جنرل مشرف کے دنوں میں پاکستان تشریف لائے تھے۔ گجرات کے چودھریوں سے ان کے دیرینہ خاندانی تعلقات تھے۔ان کی معاونت سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور بعدازاں کابینہ کا حصہ بھی بن گئے۔ جنرل مشرف کے زوال کے بعد وہ بتدریج عملی سیاست سے کنارہ کش ہو گئے۔ غالباً وہ ”دہری شہریت“ کے حامل بھی ہیں جو ان کی تعیناتی میں دشواریاں کھڑی کرسکتی تھی۔تیسرا نام ناصر کھوسہ صاحب کا دیا گیا۔وہ مگر نگران وزیراعلیٰ کی ریس میں حصہ لینے کو آمادہ نہیں ہوئے۔ ان کی دست برادری کے بعد احمد نواز سکھیرا اور نصیر خان مختلف بنیادوں پر نگران وزیر اعلیٰ کے منصب کے لئے پرفیکٹ محسوس نہ ہوئے۔

عمران خان اور چودھری پرویز الٰہی کے برعکس مسلم لیگ (نون) اور اس کے اتحادیوں نے احد چیمہ اور محسن نقوی کے نام دئے۔ چیمہ صاحب بھی سرکاری افسر رہے ہیں۔ عمران حکومت کے دوران احتساب بیورو کے بنائے مقدمات نے مگر انہیں ”متنازعہ“ بنادیاتھا۔ایسے عالم میں قرعہ فال محسن نقوی کے نام ہی نکلتا نظر آیا۔ چودھری پرویز الٰہی مگر مذکورہ امکان کی بابت تیر کمان سے چلا دینے کے بعد ہوش میں آتے نظر آئے۔محسن نقوی کو متنازعہ بنانے کے لئے ان کے فرزند اور سیاسی جاں نشین چودھری مونس الٰہی نے ایک ٹویٹ لکھا۔اس ٹویٹ کے ذریعے ایک تصویر منظر عام پر لائی گئی جو یہ دکھارہی تھی کہ نقوی صاحب لندن میں نواز شریف سے ملاقات کے بعد سیڑھیوں سے اتر رہے ہیں۔ یوں انہیں ”نواز شریف کا بندہ“ ثابت کرنے کی کوشش ہوئی۔ مذکورہ ٹویٹ میں اگرچہ مونس الٰہی نے یہ اعتراف بھی کیا کہ نقوی صاحب کو آصف علی زرداری اپنا ”بچہ“ شمار کرتے ہیں اور ان کی چودھری خاندان سے رشتے داری بھی ہے۔

نقوی صاحب کی تعیناتی تقریباََ طے ہوئی نظر آئی تو چودھری پرویز الٰہی نے انہیں ”نامنظور“ ٹھہرانے کے لئے ایک دھواں دھار پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ تڑی لگائی کہ وہ ان کی تعیناتی کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔جوش خطابت میں البتہ یہ حقیقت نظرانداز کر گئے کہ آئینی تقاضوں کے مطابق الیکشن کمیشن فقط اس شخص کو نگران وزیر اعلیٰ چن سکتا ہے جس کا نام تحلیل ہوئی صوبائی اسمبلی کے قائدایوان اور قائد حزب اختلاف کی جانب سے آئی فہرستوں میں موجود ہو اور نقوی صاحب کا نام مسلم لیگ (نون) اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے تیار ہوئی فہرست میں شامل تھا۔الیکشن کمیشن نے ان کا انتخاب ازخود نہیں کیا ہے۔

چودھری پرویز الٰہی سیاسی کھیل کے انتہائی تجربہ کار کھلاڑی ہیں۔ عمران خان صاحب کے دباﺅ سے گھبرا کر اگر وہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کو مجبور نہ ہوتے تو آج بھی آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے کے انتہائی بااختیار وزیر اعلیٰ ہوتے۔ اپنے منصب پر برقرار رہتے ہوئے وہ اپنی جماعت اور تحریک انصاف سے وابستہ اراکین صوبائی اسمبلی کو ”ترقیاتی کاموں“ کے نام پر فراہم ہوئی سرپرستی کے ذریعے ان کے حلقوں میں توانا تر بنا سکتے تھے۔ غضب سے مغلوب ہوئے عمران خان مگر اس پہلو کی گہرائی اور گیرائی کے ادراک میں ناکام رہے۔ان کی حالیہ پیش قدمیوں سے مسلم لیگ (نون) اور اس کے اتحادی بوکھلا گئے تھے۔ چودھری پرویز الٰہی کی جانب سے صوبائی اسمبلی میں اپنی اکثریت ثابت کردینے کے بعد وفاقی حکومت کو جوابی داﺅ ڈھونڈنے کے لئے بہت وقت درکار تھا۔پنجاب اسمبلی برقرار رکھتے ہوئے عمران خان اور چودھری پرویزالٰہی وفاقی حکومت کو مزید بوکھلاہٹ کی جانب دھکیل سکتے تھے۔ اپنی قوت کو مگر عجلت میں ضائع کر دیا۔

بارہا اس کالم میں عرض کرتا رہا ہوں کہ ”احتجاجی“ اور ”انتخابی“ سیاست اپنی سرشت میں دو قطعاً مختلف میدان ہیں۔ احتجاجی سیاست کا تمام تر انحصار سڑک کو غضب ناک ہجوم سے گرماتے ہوئے ”نظام کہنہ“ کو ڈھیر کرنا ہوتا ہے۔”انتخابی سیاست“ اس کے برعکس ”سسٹم“ کے طے کردہ قواعد و ضوابط ہی سے اقتدار کا حصول یقینی بنانے کے حربے تلاش کرتی ہے۔پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے ذریعے عمران خان اور چودھری پرویز الٰہی نے ”سسٹم“ کا میدان اپنے مخالفین کے لئے خالی کر دیا ہے۔ جو پیش قدمی سیاستدانوں کے ہاتھ میں رہنا چاہیے تھی اب الیکشن کمیشن اور دیگر ریاستی اداروں کے سپرد کردی گئی ہے اور ”سسٹم“ ان دنوں ”عمران دوست“ نہیں رہا۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments