وسعت اللہ خان صاحب کے نام ایک خط


میرے محترم جناب وسعت اللہ صاحب

سدا خوش رہیں۔

میں آپ کے ان گنت قارئین و ناظرین میں سے ایک بے نام قاری و ناظر ہوں۔ آپ کو پڑھتا ہوں اور سنتا بھی ہوں۔ اور عجب بات یہ ہے کہ پڑھ اور سن کر اس ناموزوں زمانے میں خوش بھی ہوجاتا ہوں۔ اسی وجہ سے بدلے کے طور پر آپ کی خوشی کے لئے تمنائیں پیش کی ہیں۔ پتا نہیں کارآمد بھی ہیں کہ نہیں۔

وسعت صاحب میں یہ کہنا چاہتا ہوں آپ کے کالمز کا بیانیہ حقیقت پسندی اور استدلالی ہونے کے ساتھ ساتھ ترقی پسندی اور روشن خیالی پر مبنی ہوتا ہے۔ جس سے سوچنے اور سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اسی طرح “ذرا ہٹ کے ” میں آپ کی باتیں چشم کشا ہوتی ہیں جو ہمیں پڑھائے گئے نصاب پر چڑھی جھوٹی پرتیں اتارتی رہتی ہیں۔ جب بھی آپ سے سننے کو ملا۔ انسانیت کا سبق ملا۔ علم و ترقی کی ترویج سنی۔ امن کے نغمے سنے۔ محبت کی دھن سنی۔ دوستی کے نغمے سنے۔ اور یقین جانیں پہلے پہل یہ سنا تو قابل برداشت نہ تھا۔ آپ کی باتیں پڑھنے اور سننے کی ابتدا بہت بری تھی۔ آپ کو پڑھتے تھے تو غصہ چڑھتا تھا کہ یہ ہمارے حق میں تو نہیں لکھ رہا۔ یہ غیر کا حواری ہے۔ جو ہم کہتے ہیں یہ نہیں کہتا۔ مگر خوش قسمتی یہ رہی کہ پڑھتے رہے۔ کچھ آپ کو، کچھ اور کو۔ پڑھناچھوڑا نہیں۔ پھر کچھ سوچنا نصیب میں آیا۔ جون بدلی۔ اب آپ کو پڑھتے ہیں اور سر دھنتے ہیں۔ ناراض نہ ہوں۔ قسم سے اس کے علاوہ کچھ کر نہیں سکتے۔ اگر کر سکتے تو ضرور کرتے۔ ہاں مگر ایک کام کرتے ہیں۔ جیسی باتیں آپ کرتے ہیں ،ہم بھی اپنے جاننے والوں ،یار دوستوں ،عزیز رشتے داروں میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیونکہ کراچی لٹریچر فیسٹول میں آپ نے کہا تھا کچھ باتیں کہنے سے روکا جاتا ہے مگر انسان ٹیسٹ کرتا رہے۔ ہو سکتا ہے کہنے والوں نے یونہی کہہ دیا ہو۔ آپ تھوڑا بہت بول کر دیکھ لیں۔ اگر موقع مناسب ملتا ہے تو کچھ اور بول دیں۔ تو بس یہی چل رہا ہے۔ تھوڑا ڈرپوک ہیں سو زیادہ دیکھتے ہیں اور پھر بہت تھوڑا بولتے ہیں۔

اچھا بس ایک آخری بات۔

آپ ملکی حالات ،عالمی معاملات اور معاشرے پر لکھتے اور بولتے رہتے ہیں اور آپ پر لازم بھی یہی ہے۔ کیونکہ اردو لکھنے والوں میں سے چند ایک ہی اس طرح کے لکھنے والے ہیں۔ لیکن میری عرض یہ ہے کہ کبھی کبھار آپ کی تحریر کسی اچھے لکھنے والے سے بھی متعارف کروادے تو کیا ہی بات ہو۔ جیسے اسد محمد خان صاحب سے۔ یا کبھی کسی کتاب سے۔ جیسے سید محمد اشرف کے ناول “آخری سواریاں “سے۔ جس کی گلزار صاحب بھی مدح لکھتےہیں۔ کبھی آپ کے قلم سے محمد خالد اختر کی نثر کی تعریف پڑھنے کو حاصل ہو تو کبھی بلونت سنگھ کے ناولوں پر چند الفاظ۔ کبھی آپ کی زبانی افضال احمد سید کی شاعری سنیں تو کبھی ظفر اقبال کا کلام۔ کبھی فہمیدہ ریاض صاحبہ کے بے باک شعر تو کبھی عذرا عباس کی پر معنی نظمیں۔ آپ اگر اس قسم کے تذکرے کرتے رہیں گے تو ہوسکتا ہے دھرتی پر چند نرم و نازک احساسات کے سوتے پھوٹ پڑیں۔ شاید یہاں پڑے مردہ اور بے جان سوکھے تنوں میں پھول اُگ آئیں۔ شاید۔

آپ کا ایک معمولی قاری اور ناظر

جمیل عباسی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).