مقابلے کا امتحان اور خوابوں کے بوجھ – سچی کہانی


شہر کے بیچوں بیچ اس آٹھ منزلہ عمارت کے سب سے آخری فلیٹ میں آج سب یار دوست جمع تھے، چائے اور شیشہ چل رہا تھا، آج ان سب کا ایک دوست مقابلے کے امتحان کے تمام مراحل پاس کر کے افسر بھرتی ہوا تھا۔

رات دیر تک گپ شپ چلتی رہی، اور ان سب کا آج شاید اٹھنے کا موڈ ہی نہیں تھا، ایسا نہیں ہے کہ وہ دوست کی خوشی میں خوش نہیں تھا، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس امتحان کی تیاری ان سب دوستوں نے ساتھ میں کی تھی، اب اسے قسمت کا لکھا سمجھا جائے یا مقدر میں لکھی ٹھوکریں، وہ انتھک محنت کے باوجود بار بار فیل ہو رہا تھا، جب طبیعت زیادہ بے چین اور بوجھل ہونے لگی تو سر میں درد کا بہانہ بنا کر اٹھ کھڑا ہوا، سب دوست ہنسی مذاق میں اتنے مگن تھے کہ کسی نے غور ہی نہ کیا کہ اس کے چہرے پہ موت کی زردی چھائی تھی، فلیٹ سے نکل کر اس نے بالکونی سے جھانکا، اور سارے جہان کی مایوسیاں اس کے دل میں امڈ آئیں، بہت شدت سے اس کا دل چاہا کہ یہاں سے کود جائے، آخر اس اذیت سے تو چھٹکارا ملے۔

وہ انکھیں موندے شاید کودنے ہی والا تھا جب اظفر اس پر پیچھے سے جھپٹ پڑا۔
”تیرا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا یہ کیا کرنے جا رہا تھا“
”کچھ نہیں یار میں تو بس ویسے ہی کھڑا کچھ سوچ رہا تھا“
”سوچنا چھوڑ چل آ جا دونوں بھائی آج کہیں گھومنے چلتے ہیں، گھر جا کر بھی تو ہم لیٹ کر پنکھا ہی دیکھیں گے“

عدیل کا تعلق گجرات کے ایک گاؤں سے تھا، سیاسی سرگرمیوں کے گڑھ میں رہتے ہوئے اس نے اپنی تعلیم کا آغاز کیا، پھر اعلی تعلیم کے لیے لاہور شہر کا رخ کیا اور انہی دنوں میں عدیل کے بڑے بھائی عقیل مقابلے کا امتحان پاس کر کے سرکاری افسر لگے۔ اب ایک طرف تو بڑے سکولوں کے فر فر انگریزی بولتے بچوں کے مابین تعلیم حاصل کرنا ایک کٹھن مرحلہ تھا اور دوسری طرف گھر والوں کا ڈگری کے بعد مقابلے کے امتحان میں بیٹھنے کا اصرار۔

ڈگری کے دوران ہی اس کی دوستی اظفر سے ہوئی۔

اظفر ایک گدی نشین خاندان سے تھا اور بلا کا مقرر تھا، یونیورسٹی کی طرف سے گیارہ ملکوں میں تقریری مقابلوں میں گیا اور سب کے سب ہی جیت آیا۔

یونیورسٹی کے دوسرے ہی سال میں عدیل نے غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا، تقریری مقابلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے سے جہاں اسے مختلف موضوعات پر عبور حاصل ہو رہا تھا وہیں اس کی شخصیت میں نکھار آنے لگا، اسے پہننے اوڑھنے کا سلیقہ آ گیا، گفتگو میں دلیل آ گئی، اور وہ پر اعتماد ہونے لگا، یہ غالباً مقابلے کے امتحان کی تیاری کی ایک اپنی سی کوشش تھی۔

وقت پر لگا کر اڑ گیا اور ڈگری مکمل کر کے وہ چند دوست تیاری میں جٹ گئے، یونیورسٹی کے جن سینئر مقررین سے تقریر کرنا سیکھا تھا وہ اب امتحان پاس کر کے افسر بھرتی ہو چکے تھے، ان سے تیاری میں مدد لی اور بھرپور محنت کے ساتھ امتحان دیا، نتیجہ آیا تو انگریزی میں فیل ہو گیا! ندامت، شکستگی، افسردگی کے جیسے پہاڑ ٹوٹ پڑے، سارے خاندان نے بڑے بھائی کی قابلیت کے گن گائے اور اسے نالائق کا تمغہ پہنا دیا گیا۔

وہ گاؤں سے جو آنکھوں میں سپنے پرو کے آیا تھا آج بوجھل دل لیے بیٹھا سوچنے لگا کہ آخر کمی کہاں رہ گئی تھی۔ اپنا محاسبہ کرنے پر ادراک ہوا کہ گرامر ٹھیک نہیں ہے۔ ان دونوں نے لاہور کا کوئی انگریزی کا استاد نہ چھوڑا، کسی کے پاس سال تیاری کی تو کسی کے پاس دو سال لگاتار جاتے رہے اس دوران ہر سال امتحان میں بیٹھتے اور فیل ہو جاتے۔

دوسری کوشش کے بعد عدیل کی شادی ہو گئی اور تیسری کوشش تک ایک بچہ بھی خدا نے نواز دیا، اب فکر معاش کاٹ کھانے کو دوڑ رہی تھی، والدین اسے تو خرچہ دیتے ہی تھے مگر اب وہ گھر بار والا تھا۔ مختلف کالجز میں سی وی جمع کروا کر نوکری کی امید لگا کے بیٹھا رہتا، پھر اسے اپنے بڑے بھائی کے توسط سے ایک مشہور اکیڈمی میں اسائنمنٹ چیک کرنے کی نوکری مل گئی۔ تنخواہ کچھ زیادہ نہیں تھی لیکن کم از کم اب وہ کچھ کما رہا تھا، ساتھ تیاری کر رہا تھا۔

ہر بار فیل ہوتا، ٹوٹ پھوٹ جاتا، شکستہ وجود کی کرچیاں سمیٹتا اور پھر ایک نئے عزم سے پڑھنے بیٹھ جاتا۔ اس کا کمرہ گویا گجنی والے عامر خان کا کمرہ تھا، دیواروں پہ مختلف نوٹس لکھ لکھ کر چپکاتا جاتا، کبھی نقشے کو گھور گھور کر دیکھتا، کبھی فجر تک بیٹھ کر لکھتا رہتا، صبح نوکری پہ جاتا شام کو پڑھنے چلا جاتا، آرام آسودگی جیسے اس کے لیے خواب ہی بن کر رہ گئے ہوں۔ کوئی عام دوست اتوار کو اگر باہر جاتے فلمیں دیکھتے تو یہ دونوں بیٹھ کر لکھتے، ایک دوسرے کی لکھائی چیک کرتے۔

بلا آخر چوتھی مرتبہ میں جا کر پی ایم ایس پاس کر لیا۔ اور جیسے کائنات کی ساری خوشیاں یک لخت ان کی جھولی میں ڈال دی گئی ہوں، جیسے جاگ کے گزاری تمام راتیں ایک پلک جھپکنے میں گزر گئی ہوں۔ کہ جیسے ہر بزرگ ولی اللہ کے دربار کی خاک چھاننے کا ثمر مل گیا ہو، جیسے تکیے میں سر دے کے بہایا گیا ہر آنسو موتی بن گیا ہو۔

یہ فقط ایک امتحان پاس نہیں ہوا تھا، جیسے برسوں کی ریاضت رنگ لائی تھی، جیسے وجود سے ساری سیاہی دھل گئی تھی۔ مقابلے کے امتحان کی تیاری کے شروع کے دنوں میں جن دوستوں نے ساتھ پڑھا، وہ آگے نکل کر افسر بن کر جو انہیں یکسر بھول گئے تھے، ان کی واپس کالز آنا شروع ہو گئیں۔

عدیل اور اس کے یونیورسٹی کے تقریری مقابلوں والے دوست اظفر نے نہ صرف ساتھ میں تیاری کی، بلکہ ساتھ میں امتحان دیا، ساتھ میں ناکامی دیکھی اور ساتھ میں کامیاب بھی ہوئے۔ اب دونوں دوست اگلے مراحل کی تیاری کرنے لگے، بہترین انٹرویو دیے، اور نتیجہ آیا تو دونوں ہی سیٹ حاصل کرنے میں ناکام ہوئے۔ پھر سے ایک دوسرے کی ہمت بندھائی اور پی ایم ایس کی آخری اٹیمپٹ دے آئے۔ اب کی بار آس اور یاس کے بیچ پینڈولم بنے کھڑے تھے۔

خیر نتیجہ آیا اور عدیل پورے پنجاب میں تیرہویں پوزیشن پر رہا، اظفر چند نمبروں کے مارجن سے سیٹ حاصل نہ کر سکا اور اس نے کالم لکھنے شروع کر دیے۔ اتنے سالوں کی محنت، اتنا علم، دنیا بھر کی سیاسی حکمت عملیوں پر عبور نے اسے چند ہی دنوں میں اس مقام پر پہنچا دیا جس کے لیے وہ بنایا گیا تھا۔ آج وہ ایک مشہور تجزیہ نگار ہے، اسے زندگی میں فقط دنیا گھومنے کا شوق تھا، امتحان تو بس اس سے دلوایا گیا تھا، اور اب وہ یو این کے ساتھ ایک پراجیکٹ کے لیے روانہ ہونے والا ہے۔

اور عدیل کی کامیابی نے جیسے خوشیوں کے در وا کر دیے۔ پہلے اس کا انٹرویو مشہور ہوا، پھر چونکہ وہ بے تحاشا پڑھ چکا تھا، اس نے کتاب لکھ چھوڑی۔ وہ الگ شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگی۔ اب اسے قرآن کی آیت ”ان مع العسر یسرا“ پہ ایمان آ گیا تھا۔ پھر عدیل نے بچوں کی کونسلنگ کرنا شروع کر دی، کہ ناکامی کے خوف نے جہاں اس جیسے رجائیت پسند شخص کو عمارت سے کودنے کی صلاح دی تھی، وہاں کندھوں پہ خوابوں کا بوجھ لادے بہت سے عدیل اور بھی تھے اور ہر عدیل کے پاس اظفر نہیں تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments