سائیں تو سائیں، سائیں کی جمہوریت بھی سائیں


یہ کراچی کا ڈسٹرکٹ سینٹرل ہے۔ سب سے زیادہ آبادی والا ڈسٹرکٹ۔ یہاں مہاجر کثیر تعداد میں آباد ہیں۔
اس ڈسٹرکٹ میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 21 لاکھ
یونین کونسل کی سیٹیں صرف 45
یہ ڈسٹرکٹ کیماڑی ہے۔ یہاں کی آبادی بہت کم ہے۔ یہاں زیادہ تر سندھی بھائی رہتے ہیں۔
یہاں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد صرف آٹھ لاکھ
یونین کونسل کی سیٹیں 32

یہ ڈسٹرکٹ ملیر ہے۔ بہت ہی کم آبادی والے گوٹھوں کو ملا کر اس کو ڈسٹرکٹ کا درجہ دیا گیا۔ آپ خود سمجھ لیجیے کہ یہاں کس کی آبادی ہو گی۔

ملیر ڈسٹرکٹ میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد بھی تقریباً آٹھ لاکھ
یونین کونسل کی سیٹیں 30

یعنی ڈسٹرکٹ سینٹرل کی 21 لاکھ آبادی پر کم از کم 75 سیٹیں بنتی ہیں لیکن سائیں کی سندھ اسمبلی مہاجروں کو دیتی 45 سیٹیں ہے۔ یہی حال مہاجروں کی آبادی پر مبنی دوسرے ڈسٹرکٹ کا ہے۔ زیادہ آبادی پر کم سیٹیں۔ اور جہاں سائیں رہتے ہیں وہاں کم آبادی پر بے شمار یونین کونسلز۔

پیپلز پارٹی کی سندھ اسمبلی نے 2020 میں بلدیاتی ترمیمی بل پاس کر کے اور نا انصافی پر مبنی حلقہ بندیاں کر کے ملیر ڈسٹرکٹ اور کیماڑی ڈسٹرکٹ بنا کر کراچی میں اپنا جعلی میٹر لانے کی کوشش کی ہے۔ یہ وہی نا انصافی ہے جو ہم نے بنگالیوں کے ساتھ کی تھی۔ اور آج ہم ان سے معافی مانگتے پھر رہے ہیں۔

مجھے افسوس صرف کراچی اور حیدرآباد میں ہونے والی نا انصافی پر ہی نہیں بلکہ اس بات پر ہے کہ جو جماعت جمہوریت کے اتنے بلند و بالا دعوے کرتی ہے، اس کا چہرہ اتنا مسخ اور مکروہ ہے۔ نا مکمل نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کو صرف 28 فیصد ووٹ پڑے ہیں جب کہ جماعت اسلامی کو 49 فیصد۔ اور سیٹیں سب سے زیادہ پیپلز پارٹی کی ہیں؟

یہ بڑے بڑے جمہوریت کے دعویدار صحافی یا ”دو ٹکے“ کے صحافی، کراچی اور حیدرآباد کے لوگوں پر اس نا انصافی اور پیپلز پارٹی کے جعلی بلدیاتی انتخابات پر کچھ آواز اٹھانا پسند کریں گے؟ کوئی ٹی وی پروگرام؟ جون ایلیا تو کہتے کہتے مر گیا،

بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا؟

میرے پاس اعداد و شمار کی ایک فہرست ہے جو کراچی اور حیدرآباد کے ساتھ پیپلز پارٹی کے ظلم اور تعصب زدہ رویے پر مبنی ہے خواہ وہ سرکاری ملازمتیں ہوں، تعلیمی اداروں میں داخلے، کراچی کی پولیس، کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی، بلدیہ، کراچی ائرپورٹ پر نوکریاں اور اس طرح کے کئی اور شعبے ہیں جہاں میرٹ کا قتل عام جاری ہے۔ کوٹہ سسٹم پر چلنے والے ملک اور صوبے کا یہی حال ہوتا ہے جو اس وقت سندھ اور پاکستان کا ہے۔ ان تمام اداروں میں شاید ہی آپ کو کوئی تعلیم یافتہ اور مہذب شخص نظر آئے۔

میں بھی کتنا عجیب ہوں کہ پیپلز پارٹی سے کراچی اور حیدرآباد کے لوگوں کی فلاح کی امید کر رہا ہوں جہاں سے اس جماعت کو کوئی ووٹ نہیں پڑتا۔ جو جماعت پچھلے پندرہ سال سے سندھ پر حکومت کر رہی ہے اور لاڑکانہ اور اندرون سندھ میں جہاں ان کو ووٹ پڑتا ہے، وہاں بھی خاک اڑ رہی ہے۔ اندرون سندھ اسپتالوں میں کتے بھونک رہے ہیں اور تعلیمی اداروں میں بھینسیں بندھی ہوئی ہیں۔ یہ دیا ہے اس پارٹی نے میرے مظلوم سندھی کسانوں کو۔ معیاری تعلیم، جان مال عزت کا تحفظ، اچھی صحت اور غذا اب بھی اس کسان کو میسر نہیں جو دن رات محنت کر کے ان جاگیرداروں کے لئے اناج اگاتا ہے۔ بال جبریل میں اقبال کہتا ہے،

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

لیکن جس پارٹی کے جاگیردار سیاستداں، سیلاب آنے پر اپنی زمینیں بچانے کے لئے پانی کا رخ غریبوں کے کچے مکانوں کی طرف کر دیں، ان سے کیا توقع رکھنا؟ جس پارٹی کے رہنما سیلاب زدگان کو جن کے مویشی اور گھر سب کچھ تباہ ہو گیا ہو، ، پچاس پچاس روپے بانٹ رہا ہو، ان کی بے حسی کا کیا نوحہ لکھوں۔

جس پارٹی کے وڈیرے خود چارپائی پر بیٹھ کر منرل واٹر سے پاؤں دھوئے اور نیچے زمین پر بھوکا غریب ہاری ہاتھ جوڑے بیٹھا ہو، اس پر وسیم بریلوی کا جملہ یاد آ جاتا ہے،

” ہم اس عہد میں زندہ ہیں جہاں ناشتے کی میز پر ہم اخبار میں دس بچوں کے مرنے کی خبر پڑھتے ہیں مگر ہماری ڈبل روٹی پر لگی مکھن کی تہہ میں کوئی کمی نہیں آتی“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments