کیماڑی میں ’کیمیکلز‘ سے 16 افراد کی ہلاکت: ’فیکٹریاں پلاسٹک جلاتی ہیں، لوگوں کا سینہ جکڑا جاتا ہے‘


’پہلے کھانسی ہوتی ہے، پھر بخار اور سانس میں تکلیف شروع ہو جاتی ہے اور کچھ ہی دنوں میں موت ہو جاتی ہے۔ ایسے بھی گھر ہیں جہاں ایک موت کے بعد سوئم نہیں ہوا کہ دوسرے کی موت ہو گئی۔ یہ سلسلہ پانچ جنوری سے شروع ہوا تھا، ابھی تک جاری ہے۔‘

حفیظ لغاری کراچی کے ضلع کیماڑی میں مواچھ گوٹھ کے ایک گاوں کے رہائشی ہیں جہاں محکمہ صحت سندھ کے مطابق 16 دن میں 16 ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔

ڈی سی کیماڑی مختیار علی ابڑو کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں 10 بچے بھی شامل ہیں۔

مقامی افراد نے علاقے میں موجود فیکٹریوں سے نکلنے والے دھویں اور گیسوں کو ان ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے تاہم محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی وجہ کچھ ایسے کیمیکلز ہیں جو پھیپھڑوں کی بیماری کی وجہ بنتے ہیں۔

وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کی جانب سے انکوائری کے حکم کے بعد چار فیکٹریوں کو سیل کیا گیا جبکہ محکمہ صحت نے متاثرہ افراد کے خون کے نمونے و دیگر ٹیسٹ لیے گئے ہیں تاکہ ہلاکتوں کی وجوہات کا جائزہ لیا جا سکے۔

’فیکٹریاں پلاسٹک جلاتی ہیں، لوگوں کا سینہ جکڑا جاتا ہے‘

غلام قادر لغاری کا تعلق بھی اسی گاوں سے ہے جن کے دو پوتیاں اور ایک نواسی ہلاک ہوئی ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ان کے پڑوس میں فیکٹریاں ہیں جو پلاسٹک جلاتی ہیں۔

اس کے ساتھ ہی ساتھ ان کا کہنا ہے کہ چند چینی کمپنیاں ہیں جو پتھر کو جلاکر لوہا حاصل کر رہی ہیں اور اس کی وجہ سے یہ آلودگی ہوتی ہے۔

’لوگوں کا سینہ جکڑا جاتا ہے، سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے اور بخار ہوتا ہے جس کے بعد موت واقع ہو جاتی ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’گریس اور آئل بنانے والے کارخانے تو یہاں پہلے سے موجود تھے، جو پہلے 24 گھنٹوں میں ایک دو بار چلتے تھے۔‘

’لیکن اب چینی کارخانے لگے ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی اب 24 گھنٹے کارخانے چلتے ہیں، کوئی سانس بھی نہیں لے سکتا۔‘

ڈی سی کیماڑی مختیار علی ابڑو بھی متاثرہ گاوں کے افراد سے اتفاق کرتے ہیں۔

ان کے مطابق ’فیکٹریوں میں پلاسٹک اور دیگر چیزیں جلائی جاتی تھیں جس کے دھویں کی وجہ سے بچوں کا گلا خراب ہوتا ہے اور نمونیا جیسے علامات ظاہر ہوتی ہیں۔‘

مقامی انتظامیہ کے مطابق ان فیکٹریوں کو سیل کر دیا گیا ہے اور چار افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے جبکہ ان کے مطابق فیکٹری مالکان کے خلاف مقدمہ درج کروایا جائے گا۔

پاکستان

ہلاکتوں کی وجہ کیمیکل ہیں، محکمہ صحت سندھ

سندھ کے محکمہ صحت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ علی محمد گوٹھ میں پراسرار ہلاکتوں کی خبر سامنے آنے کے بعد تحقیقات میں معلوم ہوا کہ مرنے والوں میں ہر عمر کے افراد شامل ہیں جن کو بخار، گلے کی خرابی اور سانس میں تکلیف کی شکایت ہوتی اور پھر پانچ سے سات دن میں متاثرہ شخص کی ہلاکت ہو جاتی۔

بیان کے مطابق تحقیق سے معلوم ہوا کہ ہلاکتوں کی وجہ کچھ ایسے کیمیکلز ہیں جو پھیپھڑوں کی بیماری کی وجہ بنتے ہیں۔

پاکستان

محکمہ صحت سندھ کے مطابق علاقے میں میڈیکل کیمپ قائم کر دیے گئے ہیں جبکہ مذید تحقیقات جاری ہیں۔

ضلعی ہیلتھ افسر ڈاکٹر عارف نے بی بی سی کو بتایا کہ گزشتہ 16 روز میں 16 ہلاکتیں ہوئی ہیں اور یہ ایک ماحولیاتی مسئلہ ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ علاقے میں نصف درجن کے قریب چینی کمپنیاں قائم ہوئی ہیں۔

’وہ ایک قسم کا پتھر لاتی ہیں ہیں، جس کو آگ کی تپش سے جلاکر اس میں سے لوہے کے ذرات حاصل کیے جاتے ہیں اور انھیں پرانے ٹائر جلاکر تپش دی جاتی ہے جس سے لوگوں میں پھپھپڑوں کی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ جب ان کی ٹیم علاقے میں پہنچی تو ایک ڈاکٹر بھی شدید بیمار ہوا جنھیں سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہے۔

انھوں نے سندھ کے محکمہ ماحولیات کو بھی گیسز کے اخراج پر تحقیقات کے لیے ایک خط لکھا ہے۔

یاد رہے کہ متاثرہ علاقہ وفاقی وزیر صحت عبدالقادر پٹیل کا حلقہ انتخاب بھی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کیماڑی: زہریلی گیس سے 14 ہلاک، حکام اب تک گیس کی شناخت اور اخراج کا سراغ لگانے میں ناکام

انڈیا، گیس سانحہ: حادثے کے 37 سال بعد بھوپال میں رہنے والوں کی زندگی کیسی ہے؟

سبزیوں کے نام پر کیا آپ پلاسٹک اپنے جسم میں داخل کر رہے ہیں اور یہ صحت کے لیے کتنی نقصاندہ ہے؟

حکومت سندھ کا انکوائری کا حکم

ادھر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کیماڑی کے علاقہ میں ہلاکتوں کا نوٹس لیتے ہوئے کمشنر کراچی، ڈی جی ہیلتھ اور لیبر ڈیپارٹمنٹ سے واقعہ کی الگ الگ رپورٹ طلب کی۔

وزیر اعلی سندھ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق انھوں نے کہا کہ ’یہ کون سے فیکٹریز ہیں جن سے اس قسم کی گیس کا اخراج ہو رہا ہے جو انسانی زندگی کے لیے نقصان دہ ہے۔‘

وزیر اعلیٰ سندھ نے انتظامیہ سے سوال کیا کہ ’کیا ان فیکٹریز کی کبھی انسپیکشن کی گئی ہے؟‘

مراد علی شاہ نے لیبر ڈیپارٹمینٹ کو فیکٹریز سے خارج ہونے والی گیس کے نمونے لیب ٹیسٹ کرانے کی ہدایت بھی کی ہے۔

کیا یہ ہلاکتیں خسرہ سے ہوئیں؟

صحافی اسماعیل ساسولی نے سب سے پہلے ان بظاہر پراسرار ہلاکتوں کی خبر نشر کی تھی۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کو ایک ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ گاؤں میں خسرے کی وجہ سے چار بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔

اس کے بعد اسماعیل ساسولی متاثرہ گاؤں گئے جہاں متاثرین نے ان کو بتایا کہ متاثرہ شخص کو سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے، منہ میں دانے اور بخار ہو جاتا ہے جس کے بعد اس کی موت ہو جاتی ہے۔

اسماعیل کے مطابق محکمہ صحت کے ضلعی افسران سے موقف لینے کی ان کی کوش تو ناکام ہوئی تاہم اسی محکمے سے وابستہ افراد نے ان کو بتایا کہ اس گاوں میں خسرے کے خلاف مہم کے دوران ویکسین کروانے سے انکار کیا گیا تھا۔

غلام قادر لغاری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس تاثر کو بلکل غط قرار دیا کہ ان کے گاوں میں خسرے کی ویکسین کرانے سے انکار کیا گیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’ہلاکتیں بچوں کے ساتھ بڑوں کی بھی ہوئی ہیں۔‘

گاؤں کے رہائشی حفیظ لغاری نے بھی بی بی سی کو بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں نو عمر سے لیکر 20 اور 21 سال تک کے لوگ شامل ہیں۔

’اگر یہ خسرہ ہوتا تو صرف بچے ہی اس میں مبتلا ہوتے۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’یہ سب کیمیکلز کے اخراج کی وجہ سے ہو رہا ہے جو فیکٹریوں سے ہو رہا ہے۔‘

واضح رہے کہ کیماڑی میں ایسی ہلاکتوں کا ایک واقعہ دو ہزار بیس میں بھی پیش آ چکا ہے جب کم از کم چودہ افراد زہریلی گیس کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments