ہمیں چڑانا اور ہم سے کھیلنا اتنا آسان کیوں؟


یہ آپ پر ہے کہ آپ اسے سادگی کہیں گے، ناسمجھی مانیں گے یا پھرحماقت قرار دے دیں گے لیکن سچ یہی ہے کہ مسلمان کچھ کریں یا نہ کریں کسی کو بھی ہیرو بنا دینے کے ہنر سے خوب واقف ہیں۔ تدبر کے فقدان کے سبب اکثر مسلمانوں کو وہی کرتے دیکھا گیا ہے جیسا سامنے والے ان سے کرانا چاہتے ہیں۔ منگل کی صبح کے اردو اخبارات میں یہ خبر نمایاں طور پر شائع ہوئی ہے کہ مسلمان خواتین نے طارق فتح کے خلاف ’زبردست احتجاجی مظاہرہ‘کیا۔ خبر کے ساتھ شائع تصویر میں برقعہ پوش خواتین ہاتھوں میں تختیاں اٹھائے نظر آ رہی ہیں۔ یہ احتجاج شاید اس لئے کرایا گیا کہ طارق فتح کے بیانات عام طور پر مسلمان خواتین پر ہو رہے مبینہ مظالم کے ارد گرد گھومتے ہیں ۔ایسے میں شاید یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ مسلمان خواتین طارق فتح کی ہمدردری نہیں چاہتیں اور وہ اپنے حال پر خوش ہیں۔ زیادہ دن نہیں گزرے جب آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے خواتین سے یہ فارم بھروائے تھے کہ وہ شرعی قوانین میں تبدیلی کی مخالف ہیں۔ اس وقت بھی مقصد یہی تھا کہ ایک بارمیں تین طلاق کے معاملے کو مسلمان خواتین کے حقوق سے جوڑنے والے عناصر کے خلاف خود مسلمان خواتین کو ہی نبردآزما دکھایا جائے۔ اس مضمون میں ہمیں اس پر بات نہیں کرنی کہ مسلمان خواتین کو معاشرے میں ان کے جائز اور شرعی حقوق مل رہے ہیں یا نہیں ، بلکہ اس مضمون میں ہمارا مطمح نظر اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ ہماری صفوں میں احتجاج کرنے اور بدکنے کی عادتیں ہمارے موقف کو مضبوط کر رہی ہیں یا سامنے والوں کے موقف کو مستحکم کرتی ہیں۔

طارق فتح ویزا لے کر بھارت آئے ہیں ، ان جیسے ہزاروں لوگ اس ملک میں ویزا لے کر رہ رہے ہوں گے، ممکن ہے ان میں سے بیشتر کے خیالات ویسے ہی اشتعال انگیز ہوں جیسے طارق فتح کے ہیں لیکن آج طارق فتح ملک بھر میں مشہور ہو گئے ہیں۔ کیوں؟۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ انہیں ان عناصرنے ہاتھوں ہاتھ لیا جو مسلمانوں کو چڑانے اور ان سے مزے لینے میں لطف محسوس کرتے ہیں لیکن اس کی سب سے بڑی وجہ کچھ اور ہے، وہ وجہ یہ ہے کہ ہم نے وہی کیا جو طارق فتح چاہتے تھے۔ ہم نے ان کی باتوں پر دھیان دیا، ان کے خلاف احتجاجی مراسلے لکھے، کہیں کہیں ان کے خلاف احتجاج بھی کیا اور ان کو ایک ایسی شخصیت کے طور پر شہرت دلانے میں مدد کی جس کے نام سے ہی مسلمان چڑ جاتے ہیں۔ یہ سب وہ باتیں تھیں جو طارق فتح چاہتے تھے۔

ابھی گزشتہ دنوں ہی دہلی میں جشن ریختہ کے موقع پر ان کے خلاف احتجاج اور نعرے بازی ہوئی۔ممکن ہے احتجاجی اس بات پر خوش ہو گئے ہوں کہ انہوں نے طارق فتح کو جشن ریختہ سے واپس لوٹنے پر مجبور کر دیا لیکن ایسا کرکے انہوں نے طارق فتح کی مدد ہی کی۔ کیا میرے سادہ لوح نوجوان دوست یہ سوچ رہے ہیں کہ جشن ریختہ میں طارق فتح قوالی اور سیمینار سننے گئے تھے؟۔ ان کا ارادہ ہی یہ تھا کہ انہیں دیکھ کر احتجاج کیا جائے، انہیں روکا جائے ان کے خلاف نعرے بازی ہو تاکہ وہ خبروں میں آئیں اور اس طبقے کی نظروںمیں آجائیں جو ان کو مسلمانوں کو چڑانے کی صلاحیت رکھنے والے فرد کے طور پر دیکھتا ہے۔ ذرا تصور کیجئے کہ طارق فتح کے آنے پر انہیں کوئی توجہ ہی نہ دی جاتی، وہ جلسہ گاہ میں بیٹھ کر واپس چلے جاتے تو ہزار آدمیوں کے مجمع میں ان کا آنا کون سی نمایاں خبر بنتا؟۔لیکن بھائی لوگوں نے احتجاج اور ہنگامہ کرکے ان کو ٹی وی چینلوں اور اخبارات کی سرخیوں میں جگہ دلا دی۔

طارق فتح ایک پروگرام کرتے ہیں جس کے خلاف عام طور پر بیانات پڑھنے کو مل جاتے ہیں لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ پروگرام کی ہر قسط میں مولویوں کا پورا جمگھٹا سکرین پر نظر آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر آپ جانتے ہی ہیں کہ یہ پروگرام آپ کو چڑانے کے لئے ہے تو آپ اس میں تشریف ہی کیوں لے جا رہے ہیں۔ سوچئے اگر کوئی مولوی اس پروگرام میں شریک ہی نہ ہو تو طارق فتح کس کو رسوا کریں گے؟۔ مولوی صاحب طارق فتح کے پروگرام میں جاکر سالن میں بگھار کا کردار ادا کر دیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ٹی وی پر نظر آنے کا لالچ نہ چاہتے ہوئے بھی اس پروگرام کی طرف کھینچ کر لے جاتا ہو، بھلے ہی پتہ ہو کہ وہاں ذلت ہی ملے گی۔

اب گفتگو کے رخ کو ذرا سا موڑتے ہیں اور ایک ایسے فرد کی بات کرتے ہیں جو مسلمانوں کے ایک طبقے کو بہت بھا رہا ہے۔ یہ صاحب جوان العمر ہیں اور شاعری فرماتے ہیں۔ ان کا تعلق پرتاپ گڑھ سے ہے اور آج کل کے مشاعروں میں اکثر ان کا کلام داد وصول کرتا ہے۔ میں ان کا نام نہیں لینا چاہتا جاننے والے سمجھ گئے ہوں گے۔ ان شاعر صاحب کی پوری شاعری صرف اور صرف ایک بنیاد پر کھڑی ہے اور وہ مسلمانوں کو جذباتی کرنا۔ ان کی شاعری کے استعاروں میں بابا رام دیو کی شلوار اور سبرامنیم سوامی کے داماد جیسی چیزیں شامل ہیں۔ مشاعرے کا چسکہ رکھنے والے مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد ان شاعر صاحب کو پسند کرتی ہے۔ گویا اس طبقے میں ان کی حیثیت ہیرو کی ہے۔

کیا کروں مجھے ہر بات پر سوال اٹھانے کا خبط ہے اس لئے پوچھے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ایسی جذباتی شاعری کرکے ان شاعر صاحب نے بھارت کے مسلمانوں کا کتنی کوڑی کا فائدہ کیا؟۔ یہ صحیح ہے کہ اپنی مقبولیت کی قیمت وہ مشاعرے میں موٹا لفافہ وصول کرکے حاصل کر لیتے ہیں لیکن نیچے بیٹھے مسلمان نوجوان جو اپنے گھٹنوں پر کھڑے ہوہو کر داد و تحسین کے نعرے لگاتے ہیں انہیں کیا ملا؟۔ اچھا، کچھ نہ ملتا اور مسلمانوں میں ان شاعر صاحب کے کلام سے کوئی معاشرتی اصلاح ہی ہو جاتی تو بھی ٹھیک تھا لیکن ایسا بھی نہیں ہے۔ ان حضرت کی شاعری تو تضحیک اور تحقیر کرکے سامعین کا کلیجہ ٹھنڈاکرنے کے اصول پرکھڑی ہے اس لئے اس سے کیا توقع کی جائے؟۔

میںنے مندرجہ بالا سطور میں دو افراد کا ذکر کیا۔ ایک وہ جنہیں مسلمانوں نے تدبر کے فقدان کے سبب ہیرو بنا دیا۔ اس شخص نے مسلمانوں کی اس کمزوری کو جان لیا کہ وہ نظر انداز کر دینے کی طاقت سے واقف نہیں ہیں اور ہر بات پر اچھل پڑنا، ردعمل ظاہر کرناا ور نہ چاہتے ہوئے بھی سامنے والے کی حسب منشا کام کرنا بھارتی مسلمانوں کے ایک بڑے حصے کی روش بن گیا ہے۔ اس عادت نے مسلمانوں کا کچھ بھلا کیا ہو یا نہ کیا ہو، طارق فتح جیسے افراد کو ان کے مقصد کے حصول میں کامیاب ضرور کیا ہے۔ دوسرا فرد وہ شاعر ہے جسے مسلمانوں کے ایک حصے نے اپنا ہیرو بنا لیا ہے۔ اس شاعر کی خدمات بس اتنی ہیں کہ وہ اپنی شاعری میں ہجو کرکے اور کوسنے دے کر کلیجے ٹھنڈے کر دیتا ہے۔اب ذرا غور کرنے کا پہلو یہ ہے کہ ہمارے مزاج میں اندر تک جڑ جما چکی جذباتیت اور نظر انداز کرنے کے ہنر سے ہماری عدم واقفیت ہمیں کیا دلا رہی ہے؟۔

میری باتیں بری تو لگ رہی ہونگی، لیکن ذرا ٹھنڈے دل سے سر جوڑ کر بیٹھئے اور غور کیجئے کہ لوگ کیسے کیسے ہمارے جذبات کے ساتھ کھیلتے آئے ہیں اور کس طرح ہم نے اپنی جذباتیت سے اپنے مخالفین کو بڑا بننے میں مدد کی ہے۔ ہم جب تک جذبات کی بجائے عقل ، تدبر او ر معاملہ فہمی کو اپنا مزاج نہیں بنائیں گے ، ہم اسی طرح طارق فتح اور شاعر صاحب جیسے ہیرو بناتے رہیں گے۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter